ColumnImtiaz Aasi

ملک میں یک جماعتی حکومت کی ضرورت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

اس وقت ملکی سیاست ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے جب تک قومی سیاست بحال نہیں ہوگی ملک کے حالات بہتر نہیں ہو ں گے۔معاشی سرگرمیوں کے فقدان کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگیاں اجیران کر دی ہیں۔وفاق اور صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت سے عوام کے مسائل ہونے میں مشکلات پیش آرہی ہیںلہذا جب تک وفاق اور صوبوں میں کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں ہوگی نہ تو ہمارا ملک ترقی کر سکے گا اور نہ ہی عوم کی مشکلات کا ازالہ ممکن ہے۔گویا کہ ملک کو اس وقت جیتنی یکجہتی کی ضرورت ہے شائد پہلے کبھی نہیں تھی۔عجیب تماشا ہے سیاست دانوں کا مطمع نظر حصول اقتدار ہے نہ کہ ملک اور قوم کی مشکلات کی فکر ہے۔ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کی تحلیل کے باوجودحکومت انتخابات کرانے کوتیار نہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ایوان میں جانے کا جو عندیہ دیاہے اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو انتخابات سے قبل نگران سیٹ آپ کے انتخاب کے لئے میدان خالی نہ چھوڑا جائے اس کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہا جا سکتا ہے۔عمران خان بھی جلد باز ہیں ہونا تو چاہیے تھا پہلے اپنے ارکان کو استعفے واپس لینے کو کہتے اور اس کے بعد ایوان میں جانے کا اعلان کرتے ۔ اسپیکر نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے محض اس لئے التوا رکھے جب تک انفرادی طور پر کوئی رکن درخواست دے کر اسپیکر کے روبرو پیش نہیں ہوگا اس وقت تک استعفے قبول نہیں ہوں گے۔عمران خان کے ایوان میں جانے کے اعلان کے بعد حکومت کو اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہوئی تو وقت ضائع کئے بغیر استعفیٰ منظور کر لئے گئے جو سیاست دانوں کے دوہرے معیار کا عکاس ہے ۔اب نواز شریف انتخابات وقت پر ہونے کا کہہ رہے ہیں ورنہ تو پہلے وہ جلد الیکشن کے حامی تھے ۔دراصل موجودہ حالات میں نواز شریف کو پنجاب جو کبھی مسلم لیگ نون کا قلعہ سمجھا جاتا تھا ہاتھ سے جاتے دکھائی دے رہا ہے اسی لئے مریم نواز کو وطن واپس بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ عوامی رابطہ مہم میں لوگوں کا پارٹی پر اعتماد بحال کر سکے۔
حکومت کے پاس اقتدار میں رہنے کا ایک اچھا بہانہ انتخابی اصلاحات کا ہے نہ انتخابی اصلاحات ہوں گی اور نہ انتخابات کا اعلان ہوگا۔انتخابات کو التوا میں رکھنے کا ایک اور عذر مردم شماری کا بھی پیش کاکیا جا سکتا ہے ۔ملکی حالات کی طرف دیکھیں تو عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے عاجز آچکے ہیں دونوں جماعتیں اپنے دور میں عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے پیٹ بھرنے پر توجہ دیتی رہی ہیں جس کے نتیجہ میںہمارا ملک معاشی مشکلات میںگھرا ہوا ہے ۔اگرچہ عمران خان اپنے دورمیں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں ایک بات جو ان کے کریڈٹ میں جاتی ہے ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے وگرنہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما ایسا نہیں جس کے خلاف مبینہ طور پر کرپشن کا کوئی الزام نہ ہو۔حال ہی میں سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی پر مبینہ طور پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے اگر اسی طریقہ کار کے مطابق عام انتخابات ہوئے تو ہارنے والی جماعت اپنی شکست تسلیم نہیں کرئے گی اور انتخابات کا انعقاد بے معنی ہو جائے گا۔ عمران خان نے ایوان جانے کا جو اعلان کیا ہے خوش آئند بات ہے انہیں حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر انتخابی اصلاحات پر بات کرنی چاہیے وگرنہ نئے انتخابات کا مقصد ختم ہو جائے گا۔گوتحریک انصاف کے دور میں انتخابی اصلاحات پر اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومت نے تعاون نہیں کیا مگراب عمران خان ایوان میں واپس آتے ہیں تو یہ ان کی قومی اور سیاسی ذمہ داری ہے وہ انتخابی اصلاحات پر حکومت سے تعاون کریںتاکہ انتخابات پر اصلاحات کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو سکے اور عام انتخابات میں ہارنے
والی جماعت اپنی شکست کو صدق دل تسلیم کر سکے۔انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابات ہوئے تو وہی پرانا رونا رہے گا ہارنے والی جماعتیں ہار تسلیم نہیں کریں گی انتخابات میں دھاندلی کے شکوک وشہبات اسی وقت ختم ہو سکتے ہیں جب ساری جماعتیں انتخابی اصلاحات پر متفق ہوں۔بلدیاتی انتخابات میںمبینہ دھاندلی کے خلاف جماعت اسلامی کے ملک گیر ہڑتال کا اعلان اس بات کی واضح دلیل ہے انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے عمران خان نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے قائدین اور دیگر رہنماوں بارے عوام کے ذہنوں میں ملک وقوم کو لوٹنے کی جو بات ڈال دی ہے کیا مریم نواز کی عوامی رابطہ مہم سے عوام کے ذہنوں سے یہ بات نکل سکے گی؟مریم نواز سب سے زیادہ پنجاب میں کام کرنے کی ضرورت ہوگی جہاں ضمنی الیکشن میں پی ایم ایل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ملک کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر جیسا کہ مسلم لیگ ق کے پی ٹی آئی میں ضم ہونے کی خبروں کی بازگشت ہے اس بات کا قومی امکان ہے مسلم لیگ نون کے بہت سے ارکان جلد یا بادیر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لیں گئے۔حیرت تو اس پر ہے ایک طرف حکومت معاشی حالات کا رونا روتی ہے اور دوسری طرف عام انتخابات سے پہلو تہی کر رہی ہے سوال یہ ہے پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کرانے پر کتنے پیسے خرچ ہوں گے جب عام انتخابات ہوں گے تو اربوں اس وقت خرچ ہوں گے۔ حکومت کو ملک کی معاشی حالت کااحساس ہوتا تو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا جاتا تاکہ انتخابات پر کم سے کم اخراجات ہوتے۔ حالات اور واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو انتخابات میں کسی ایک جماعت کو چاروں صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔گذشتہ انتخابات کے نتیجہ میں جس طرح کی حکومت اقتدار میں آئی اگر اسی طرح ہوتا رہا تو ملکی مسائل جوں کے توں رہیں گے اور حکومتوں پر عدم اعتماد کاسلسلہ جاری رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button