Aqeel Anjam AwanColumn

اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے! .. عقیل انجم اعوان

عقیل انجم اعوان

 

سبسڈی والے آٹے کیلئے دکانوں اور ٹرکوں کے پاس مایوس مردوں اور عورتوں کا ہجوم بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کی صرف ایک جھلک پیش کررہا ہے۔ میرپورخاص میں حال ہی میں سامان کے حصول کیلئے قطار میں کھڑے بھگدڑ میں چھ بچوں کا باپ جاں بحق ہوگیا۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مزید لوگوں کو مفلسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی گھمبیر صورتحال ہے جس میں معاشی نقطہ نظر میں بہتری کا کوئی نشان نہیں ہے۔ بدترین ابھی آنا باقی ہے،لیکن ہمیں لولی پاپ کے زریعے بہلانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ایسے دعوے حقیقت سے بہت دور ہیں، نہ تو ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے محفوظ ہیں اور نہ ہی معاشی بحالی کا کوئی نشان ہے۔ سب سے بڑا مذاق کرنسی کے استحکام کا دعویٰ ہے۔ یہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے کے جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ بیل آؤٹ پیکج کی اگلی قسط کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا اگلا دور پہلے ہی دو ماہ سے زیادہ تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔
ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے پر ڈار کے اصرار نے انتہائی خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے، کرنسی کی بلیک مارکیٹ کی حوصلہ افزائی اورہنڈی نظام کو تقویت ملی ہے۔ آفیشل اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان بڑا فرق بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں بہت زیادہ کمی کا سبب بنا ہے۔ وزیر خزانہ کا کرنسی ریٹ کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ ملک کو مہنگا پڑا ہے۔قرض دینے والے ادارے کے ساتھ مذاکرات میں تعطل اور اگلی قسط کی ادائیگی میں تاخیر نے دیگرمالیتی اداروں سے ہمارے قرضے اور دوست ممالک سے رقوم کی متوقع امداد کو بھی متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر گئے ہیں۔ لیکن وزیر خزانہ یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں، ڈار اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ آئی ایم ایف ان کی شرائط کو مان کر فنڈ ریلیز کر دے گا۔تحریک انصاف کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنے والی اتحادی انتظامیہ کیلئے ٹیکسوں کے بوجھ کو بڑھا کر مہنگائی کو بڑھانا بھی انتہائی مشکل ہو چکاہے۔ درحقیقت اس سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، لیکن حکومت کے پاس کڑوی گولی نگلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج میں مزید تاخیر تباہ کن ہوسکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نے بالآخر صورتحال کی سنگینی کو بھانپ لیا اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کیا، لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ جن شرائط پر اتفاق کیا گیا ہے ان پر عمل درآمد کیلئے حکومت کی جانب سے پختہ عزم کے بغیر باضابطہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکتے ہیں یا نہیں، مذاکرات سے قبل کچھ پیشگی اقدامات جیسے روپے کی قدر میں کمی اور پٹرولیم مصنوعات پر محصول میں اضافہ بھی ضروری ہوگا۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم آئندہ چند روز میں اسلام آباد آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کے بجائے، آئی ایم ایف کے حکام نے جنیوا میں حال ہی میں ختم ہونے والی ڈونر کانفرنس کے موقع پر وزیر خزانہ سے ملاقات کی۔ مذاکرات میں کسی پیش رفت کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جہاں عطیہ دہندگان نے لاکھوں سیلاب زدگان کی بحالی اور تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو میں پاکستان کی مدد کیلئے قریباً 10 بلین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا، وزیر اعظم نے آئی ایم ایف سے مزید مالی امداد جاری کرنے سے قبل معاشی اصلاحات کے مطالبات کو روکنے کیلئے آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت امداد کی ضرورت ہےکیونکہ اس وقت ملک تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔
اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ قرض دینے والوں کی جانب سے موسمیاتی تباہی سے ہونے والے معاشی نقصانات کے پیش نظر کچھ شرائط میں نرمی کی جائے جس نے گزشتہ سال ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر کیا تھا، لیکن ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کچھ اہم اصلاحات کو ملتوی کرنے پر راضی ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 220 ملین سے زائد آبادی پر مشتمل یہ قوم ایک طویل عرصے سے اپنے وسائل سے باہر زندگی گزار رہی ہے اور ریاست چلانے کیلئے قرضے بھی لے رہی ہے۔یہ یقینی طور پر پہلی بار نہیں کہ ملک مالیاتی تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہم نے ماضی میں کئی بار اپنے آپ کو معاشی آئی سی یو میں پایا لیکن ہمیشہ بیراونی مدد سے اپنے آپ کو دوبارہ زندہ کر لیا ہے، ہم اپنے بیرونی محسنوں سے نجات پانے کی دائمی امید میں جی رہے ہیں۔ماضی کی طرح اس بار بھی ہم کچھ دوست ممالک کے تعاون سے ڈیفالٹ کے فوری خطرے سے بچ سکتے ہیں، لیکن قرض دینے ادارے اور دوست ممالک کی لائف لائنز سے ہمارے دائمی معاشی مسائل دور نہیں ہوں گے۔ صورتحال اب بہت خطرناک حد تک آگے بڑھ گئی ہے۔ جو ہماری قومی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں آئی ایم ایف سے فنڈ لینے کے بجائے ہمیں سخت معاشی اصلاحاتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button