ColumnNasir Naqvi

جاگو اور جگائو .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

وطن عزیز میں بدترین معاشی اور سیاسی بحران ہے۔ مہنگائی نے جینا دوبھر کر دیا ہے۔ پھر بھی قومی رہنما اقتدار کی لڑائی میں بدمست ہاتھی کی طرح مصروف ہیں۔ حکومت ہمیشہ کی طرح وعدوں، سبز باغ اور سابقہ حکومت پر الزامات لگا کر گزارا کر رہی ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما اسٹیبلشمنٹ کو بُرا بھلا کہنے میں دن رات ایک کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں نواز شریف کی طرح اس بات کا غصّہ نہیں کہ انہیں کیوں نکالا گیا ، انہیں دکھ اس بات کا ہے کہ ہم اچھے بھلے حکومت چلا رہے تھے پھر جب ان کے خلاف سازش ہوئی تو بچایا کیوں نہیں گیا؟ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں سازش کے تحت حکومت سے بے دخل کر کے چوروں اور کرپٹ ٹولے کو تخت اقتدار پر بٹھا دیا گیا، جنہوں نے سب کچھ تباہ کر دیا اور ملک بحرانوں کی دلدل میں دھنس گیا ہے ہم نے عالمی مصیبت کرونا میںمثبت حکمت عملی کے ذریعے سمارٹ لاک ڈائون سے معاشی معاملات میں بہتری پیدا کی اور دیہاڑی دار طبقے کو بچایا، امپورٹڈ حکمرانوں نے غلط اور ناقص منصوبہ بندی سے فیکٹریاں بند کر دیں اور بے روزگاری میں اضافہ کر دیا لیکن این آر او کے سہارے سے اپنے نہ صرف مقدمات ختم کر لیے بلکہ ضبط شدہ جائیدادیں بھی حاصل کر لیں۔ اگر چند ماہ پہلے عمرانی دور کا جائزہ لیں تو بالکل اسی طرح کے بیانات اتحادی اپوزیشن پی ڈی ایم کے مل جائیں گے کہ ریاست مدینہ کا ڈھونگ رچا کر عمران خان نے پاکستان کو مشکل ترین مسائل میں پھنسا دیا ہے ، وہ کہتے تھے کہ کھلاڑی اناڑی نکلے ۔ انہیں سلیکٹرز نے جس خوش فہمی میں سلیکٹ کیا تھا وہ غلط فہمی نکلی اور پھر اپوزیشن نے ایک مشترکہ تحریک چلا کر عمرانی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے اقتدار چھین لیا، ایسے میں خان اعظم کا ردعمل کسی سے پوشیدہ نہیں، انہوںنے اقتدار سے محرومی کے بعد چین سے نہ بیٹھنے کا وعدہ پورا کیا لیکن وقت کروٹ بدل چکا تھا لہٰذا لانگ مارچ ناکام، احتجاجی تحریک بے سود اور قومی اسمبلی سے استعفے بے کار ہی نہیں، جلد اور قبل از وقت الیکشن کے نعرے پر بھی ناکامی ہوئی اور باوجود
کوشش پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کو ہے،بلکہ ان تمام کارناموں پر بونس حاصل کر کے اپنے آپ کو زمان پارک لاہور میں ’’زخمی ٹائیگر‘‘ کی حیثیت سے محصور ہو کر رہ گئے۔ سیاسی بحران بڑھا تو معاشی بحران بھی سنگین ہو گیا، ملک بھر میں سیلاب نے کچھ نیا کر دکھایا، موسمی تبدیلی بھی وطن عزیز کے گلے پڑ گئی۔ ایکسپورٹ پالیسی میں کمی کی گئی اور امپورٹ حالات نے بند کرنے پر مجبور کر دی ، اس لیے کہ اسحاق ڈار جیسے پہلوان خزانہ بھی ڈالر بہادر کو’قابو نہ کر سکے، شوگر مافیا نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا، اب آٹے کی باری آ چکی ہے۔ کراچی سے خیبر تک آٹا نایاب ہو گیا۔ زرعی ملک کی یہ حالت نہ پہلے ایسی تھی نہ ہی کوئی سوچ سکتا تھا، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سیلاب کھڑی فصلوں کے ساتھ کسانوں کے گھر اور مال مویشی بھی بہا کر لے گیا۔ کپتان نےٹیلی تھون کر کے اربوں اکٹھے کئے حکومت نے اسے سیاسی ڈھونگ قرار دے دیا جبکہ تحریک انصاف خود بول اٹھی کہ اعلان کے مطابق رقم اکٹھی نہیں ہوئی، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جدید دور میں اس سے پہلے بھی ٹیلی تھون کے مطابق کبھی کسی مقصد میں بھی پوری رقم جمع نہیں ہوئی۔ حکومت نے جنیوا میں بحالی متاثرین سیلاب کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس کی تو پاکستا ن نہیں، اقوام متحدہ کی توقعات سے بڑھ کر دوست ممالک نے ذمہ داری کا ثبوت قریباً دس ارب ڈالر کی خطیر رقم اکٹھا کر کے دیا، اب سابق وزیراعظم حکومتی انداز کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ اس کی کامیابی ماننے سے بھی انکاری ہیں اور شہباز شریف کو انٹرنیشنل بھکاری قرار دے رہے ہیں حالانکہ ساری عمر خود بھی یہی کرتے رہے ہیں۔
کون کیا کرتا رہا؟ معاشی و سیاسی بحران کن لوگوں کی وجہ سے آیا، یقیناً یہ سب کیا دھرا حکمرانوں کا ہی ہے، اس میں ایک فی صد بھی عوام کا حصّہ نہیں، ذمہ داری تینوں بڑی جماعتوں پر ہی پڑے گی، اب یہ آپ کی مرضی کہ آپ کتنے منصف ہیں یا کس پارٹی کے حمایتی بن کر اسے کتنی رعایت دیتے ہیں۔ پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ آپ غیر جانبدار ہو کر کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ حالات روز بروز گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں تاہم حکومت دعویدار ہے کہ وہ سیاست چھوڑ کر ریاست بچانے نکلے ہیں اس لیے سر دھڑ کی بازی لگا کر ملک کو ڈی فالٹ ہونے سے بچا لیا ہے لیکن عمران خان اور ان کے حواری اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ محب الوطن عوامی رائے ہے کہ وقت کا تقاضا ہے کہ الزامات کی عادت کو ترک کر کے ’’جاگو اور جگائو‘‘ پالیسی اپنائی جائے لیکن اس پالیسی میں سب سے بڑا مسئلہ سب کے جاگنے اور سب کو جگانے کا ہے جس کیلئے پہلی شرط ایک باصلاحیت ، قابل اعتماد صالح قیادت کی ہے جو ہمیں ابھی تک
75سالہ زندگی میں نصیب نہیں ہو سکی بلکہ ہمارے قائدین آمرانہ ہوں کہ جمہوری ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو ہی تیار نہیں، اس لیے کہ سب کے قول و فعل میں انیس بیس نہیں، سو فیصد تضاد موجود ہے۔ لہٰذا اچھائی اور بھلائی کی امید ممکن نہیں، ہر حکمران معصوم عوام کے جذبات، مسائل اور خواہشات کو مدنظر رکھ کر اپنا پارٹی منشور ترتیب دیتا ہے اور جونہی اقتدار ہاتھ آتا ہے سب کچھ بھول جاتا ہے۔ شیر خدا، دامادِ رسولؐ حضرت علی کا فرمان ہے کہ یہ ہرگز نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے ، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے؟ پھر بھی ہم سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں ہمیں اپنوں کے اقوال اور فرمودات یاد نہیں تو دوسروں کی کیا پروا کریں گے اگر ہم زیادہ دور نہیں صرف اپنے ہمسائے بھارت کی راج دھانی دہلی کا جائزہ لیں تو وہاں کے وزیراعلیٰ کیجریوال کی حکومت مودی جی کی حکومت سے منفرد ملے گی جہاں عام آدمی پارٹی نے وہ کچھ کر دکھایا جو کرنا تو دور کی بات ہے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، وہاں غریبوں کو بجلی فری، خواتین کی ٹرانسپورٹ مفت اور تعلیمی بجٹ دوسری ریاستوں سے زیادہ ہے، جہاں سرکاری تعلیمی ادارے نجی اداروں سے بہتر رزلٹ دے رہے ہیں۔ پوری ریاست میں پانی کا صاف پانی بھی بآسانی میسر ہے۔ وزیراعلیٰ نے دعویٰ نہیں کیا، دہلی کو فلاحی معاشی ریاست بنا کر دکھا دیا، صرف دیانتداری اور ثابت قدمی سے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ میں نے بھاری بھرکم بجٹ سے اپنے لیے خصوصی طیارہ نہیں خریدا بلکہ اسی بجٹ سے اپنی ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو مفت ٹرانسپورٹ مہیا کر دی۔ اچھی اور معیاری شاہرائیں بنا دیں۔ میںسمجھتا ہوں کہ
مراعات یافتہ طبقات کے مقابلے میں غریب اور عام آدمی کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں، میری کوشش نیک نیتی کی وجہ سے کامیاب ہوئی، کرپشن میں کمی آئی اورریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمارے ہاں بھی کیجریوال کی طرز پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ابھی پہلا ہی قدم بڑھاتے ہوئے بجلی کے ابتدائی یونٹ مفت کئے تھے کہ تنقید کا طوفان دیکھنے کو ملا اور پھر ان کی حکومت بھی چلی گئی، تاہم حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے جرائم میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہ۔ ردعمل میں اگر ’’جاگو اور جگائو‘‘ کی تحریک چل نکلی تو پھر محفوظ کوئی نہیں رہ سکے گا، کیونکہ معاملات ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ملک کی تینوں بڑی پارٹیوں کے رہنمائوں کو حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کیلئے کوئی مثبت اجتماعی پالیسی بنانی پڑے گی ورنہ صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی روزانہ سینکڑوں وارداتوں میں لوٹنے والے شہری ’’جاگو اور جگائو‘‘ کی تحریک بن کر اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر یہ سونامی سیاستدانوں، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے ایک بڑا چیلنج بن جائے گا، ابھی تک ہمارے سیاستدانوں نے عوام کو نرم انقلاب، گرم انقلاب اور خونی انقلاب کی صرف کہانیاں سنائی ہیں، دیکھا نہیں ہے، اگر ایسا ہو گیا تو پھر سیاست کسی کی نہیں بچے گی، صرف ریاست بچے گی اور قوم ہی وسائل کی مالک ہو گی، تبدیلی کا نعرہ لگانے والے بھی نظر نہیں آئیں گے ، اس لیے کہ حقیقی تبدیلی میں بڑے بڑے برج بھی تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ ذمہ داروں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ڈرنا چاہیے اُس وقت سے جب ’’جاگو اور جگائو‘‘ کا نعرہ لگانے والے مدمقابل کھڑے ہوں گے۔ ترکی اور ایران کی طرح پھر بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button