Columnعبدالرشید مرزا

اسلامی معاشی نظام کیلئے عملی اقدامات ۔۔ عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

قائداعظم محمد علی جناح نے مرکزی بینک کے افتتاح کے موقع پر معیشت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے بین الاقوامی تناظر میں ایک جامع گائیڈ لائن دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں انتہائی اہم کردار کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ مرکزی بینک ملک کی معاشی زندگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بینک کی مانیٹری پالیسی پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر دونوں جگہ پر کاروبار اور تجارت کیلئے موثر ہوگی۔ مالی پالیسی ایسی ہونی چاہئے جو جنگی حالات اور عام حالات دونوں میں اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ روزمرہ کے اخراجات میں غیر معمولی اضافے نے معاشرے کے غریب طبقے کو پریشان کررکھا ہے حکومت پاکستان کی پالیسی یہ ہے کہ اشیاء کی قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کیا جائے جو خریدار اور سرمایہ دار دونوں کیلئے منصفانہ ہو۔ میں بڑی تندہی سے آپ کی تنظیم کی تحقیقی کارروائی دیکھوں گا جو بینکاری کے ایسے اصول مرتب کرے گی جو اسلامی تصورات کی معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے ہم آہنگی رکھتے ہوں۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے انسانیت کیلئے ناقابل تلافی مسائل پیدا کئے ہیں اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کیلئے یہ بات واضح ہے کہ دنیا کو اب جس تباہی کا سامنا ہے اس سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغرب کا اقتصادی نظام انسان کو انصاف مہیا کرنے اور بین الاقوامی انتشار کو ختم کرنے سے یکسر قاصر ہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کو دنیا کے سامنے قرآن و سنت کی روشنی میں مکمل انداز میں پیش کیا ان کے نزدیک اسلام صرف عبادات کا نام ہی نہیں بلکہ یہ سیاست، معیشت، معاشرت، عدالت یعنی ذندگی کے ہر شعبہ زندگی میں نافذ کرنے کا نام
ہے اس لیے جب حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوگی تو اس کے نیچے ایک خوبصورت معاشی نظام ترتیب پائے گا۔ پاکستان بننے کے بعد جمہوری اور فوجی حکومتیں آئیں سب مغرب کے معاشی نظام سے باہر نہیں نکل سکیں، لیکن ایک مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت نے اپریل 2022 میں سود سے پاک معاشی نظام کو رائج کرنے اور پانچ سال میں بلاسود معاشی نظام کو نافذ کرنے کا فیصلہ دیا۔ جس کے بعد بشمول سٹیٹ بنک پاکستان 27 بنکوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت کے خلاف اپیل دائر کردی۔ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی شرعی عدالت کے سود سے متعلق فیصلے پر مرکزی بینک اور سرکاری کمرشل بینک نیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرِ ثانی کی اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا لیکن آج تک 27 میں سے 14 اپیلیں ابھی تک قائم ہیں۔ جب تک 27 اپیلیں واپس نہیں ہوتیں اس وقت تک اسحٰق ڈار کا اعلان بے معنی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تمام اپیلیں واپس ہو جاتی ہیں تو کیا واقعی وفاقی وزیر کے اس اعلان کے بعد حکومت ملک سے سودی مالیاتی نظام کے خاتمے کیلئے سنجیدہ کوشش کر رہی ہے یا یہ سیاسی نعرے تک ہی محدود ہے اور کیا ایسا معاشی نظام قومی اور پھر بین الاقوامی سطح پر قائم کرنا ممکن ہے؟ اہم بات یہ ہے وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ پورے معاشی نظام کو بلاسود کرنے کا فیصلہ دیا ہے، اسحاق ڈار جس دن یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگلے پانچ سال میں بلاسود بنکنگ کو ختم کریں گے اسی دن سٹیٹ بنک سود کا پالیسی ریٹ بڑھا کر 16فیصد کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے اسحاق ڈار سود کو ختم کرنے کی بجائے پاکستان کی عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اور ابھی تک 13 اپیلیں واپس ہونی باقی ہیں۔ وہ اپیلیں اگر واپس نہیں ہوتیں تو یہ بیان بے معنی ہوگا۔ اگر تمام اپیلیں واپس ہو جاتی ہیں اور حکومت اسلامی معاشی نظام کا نفاذ کیسے کرے گی جس کیلئے تجاویز حاضر خدمت ہیں سب سے پہلے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو نافذ العمل کیا جائے۔عدالت نے سود کیلئے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمام وہ شقیں جن میں سود کا لفظ موجود ہے وہ کالعدم تصور ہوں گی۔ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بینکاری اور مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے کیلئے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کیلئے حکومت کو پانچ سال یعنی سال 2027 تک کا وقت دیا تھا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق اس وقت ملک میں 22 اسلامی بینکاری ادارے جس میں پانچ مکمل اسلامی بینک اور 17 روایتی بنکس بھی اپنے اسلامی بینکنگ نظام کے ساتھ تین ہزار 983 شاخوں کے نیٹ ورک کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اسلامی بینکنگ کی صنعت کا ملک کی مجموعی بینکاری میں 19.4 فی صد کا حصہ ہے اور اثاثوں میں ڈپازٹس کے لحاظ سے بھی یہ حصہ 20 فی صد ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے یہ اعلان کرنا کہ نیشنل بینک کے ساتھ اسٹیٹ بینک بھی اس حوالے سے دائر اپیل واپس لے گا، آئی ایم ایف کو یہ پیغام دینا ہے کہ اسٹیٹ بینک خودمختار نہیں اور یہ اب بھی وزارتِ خزانہ کے ماتحت ہے۔ اسی لیے اسٹیٹ بینک نے وزیرِ خزانہ کے دباؤ کے تحت یہ اپیل واپس لی ہیں، جس میں مرکزی بینک نے سپریم کورٹ سے اس حوالے سے بعض ہدایات دینے کی استدعا کی تھی۔بہت سے اسلامی بینک سودی کاروبار، اسلامی بینکنگ ہی کے نام پر کر رہے ہیں اور اس فیصلے سے ایسے بینکوں کیلئے گنجائش پیدا ہوگئی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے شریعت کورٹ کے فیصلے کے تحت 2027 تک بینکاری نظام کو سود سے پاک کرنے کیلئے فی الحال تو کوئی عملی انتظامات نظر نہیں آتے۔ روایتی بینکنگ سے اسلامی بینکنگ میں تبدیلی بالکل ممکن ہے اور اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے جب کہ وفاقی شرعی عدالت نے بھی اس حوالے سے پانچ سال کا وقت دیا ہے۔ بالفرض اگر اس میں مزید وقت بھی درکار ہوا، تو امید ہے کہ عدالت اس حوالے سے بھی لچک دکھائے گی۔ پاکستان میں اسلامی بینکنگ کے تحت کل اثاثے چھ کھرب 70 ارب روپے تک جاپہنچے ہیںجبکہ اسلامک بینکنگ کی فنانسنگ کاشیئر 27 فی صد یعنی دو کھرب 90 ارب روپے ہے جو 2003 میں صرف 10 ارب روپے کا تھا۔ یہ اس کا بات ثبوت ہے کہ اسلامی بینکاری نہ صرف ممکن ہے بلکہ تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ اسلامی بینکاری میں سب سے اہم آپ کے اثاثے ہوتے ہیں کیوں کہ اثاثے ہونے پر ہی بینک ڈپازٹرز کو منافع دے پاتے ہیں۔ اسی لیے ان اثاثوں سے جو بینک کماتے ہیں اس میں سے منافع شیئرکیا جاتا ہے۔ اس لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے اثاثے اور سرمایہ کاری مناسب ہونا ضروری ہے۔فیصل بینک نے 2018 میں روایتی سے مکمل اسلامی بینک کی جانب سفر شروع کیا اور اس دوران بینک کی 211 روایتی شاخوں میں سے 210 کو مکمل اسلامی بینکنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور خالص اسلامی طریقۂ کار کے تحت کاروبار کیا جا رہا ہے۔ بینک کے 96 فی صد اثاثے اسلامی اور فنانسنگ بھی 90 فی صد اسلامی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی سے اسلامی بینکنگ کا سفر نہ صرف ممکن ہے بلکہ یہ عملی اور زیادہ منافع بخش ثابت ہوئی ہے جبکہ 2019 میں بینک کا منافع چھ ارب سے بڑھ کر 2021 میں آٹھ ارب روپے سے بھی بڑھ گیا ہے۔ سود کو ختم کرنے کیلئے بانڈز کو ختم کرکے اسلامک سکوک کا اجراء کرنا ہوگا۔ اسی طرح انشورنس کو ختم کرکے تکافل کو رائج کرنا ہوگا۔ کاروبار مشارکہ، مضاربہ، اجارہ اور سلم کی بنیاد پر شروع کئے جائیں۔ان تمام تجاویز کے ساتھ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مکمل اسلامی معاشی نظام کو نافذ کرنے کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح اور مولانا مودودی کی فکر کے مطابق اسٹیٹ بنک کو مانیٹری پالیسی سود سے پاک کرنی ہوگی اور سود کے ساتھ جوا اور غرر کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم اسلامی معاشی نظام چاہتے ہیں تو جدوجہد اسلامی سیاسی نظام کو نافذ کرنے کیلئے کرنی ہوگی ورنہ یہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام بنکنگ کو تو اسلامی کردے گا لیکن غربت اور بھوک کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button