ColumnHabib Ullah Qamar

بھارتی مسلمانوں کو بے گھر کرنے کا نیا منصوبہ ۔۔ حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

بھارت میں بی جے پی کی ہندوتوا حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے زمین مزید تنگ کر دی ہے اور ریاست اتراکھنڈ میں پچاس ہزار سے زائد مسلمانوں کو بے گھر کرنے کے نئے منصوبہ پر کام شروع کر دیا ہے۔ریاستی ہائی کورٹ میں مسلمانوں کی آبادی والے علاقے کی زمین مبینہ طور پر ریلوے کی ملکیت ہونے کا الزام لگایا گیا جس پر عدالت نے یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے ساڑھے چار ہزار کے قریب مسلمانوں کے گھروں کو گرانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔مقامی مسلمانوںنے اس فیصلہ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے آر ایس ایس اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ قرار دیااور کہا ہے کہ مسلمان یہاں پون صدی سے بھی زائد عرصے سے آباد ہیں اور انہوںنے پیسے دے کر زمینیں خریدیں اور اپنے گھر بنائے ہیں۔ اس لیے ان کے گھروں کو مسمار کرنے کا فیصلہ انتہائی متعصبانہ ہے۔اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف مختلف شہروں و علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سپریم کورٹ آف انڈیا میں اس فیصلے کے خلاف رٹ پٹیشن بھی دائر کر دی گئی ہے۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ جس زمین پر گھروں کو مسمار کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں ہزاروں گھروں کے ساتھ ساتھ چار مساجد، سکول اورہسپتال بھی موجود ہیں۔
بھارت میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے مسلمانوں ، عیسائیوں اور وہاں بسنے والی مختلف اقلیتوں کے خلاف بدترین مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔مختلف شہروں و علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے گرایا جاچکا ہے، کئی مساجد شہید کی گئی ہیں اور بے گناہ مسلم نوجوانوںپر تشدد اور ان کے قتل کی وارداتیںبھی عروج پر ہیں۔ کبھی کسی خاندان پر گھر میںگائے کا گوشت رکھنے کی جھوٹی افواہ پھیلا کرمسلم کش فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے ، لو جہاد کے بہانے ہندوانتہاپسندوں کو اشتعال دلا کر مسلمانوں کے
گھروں پر حملے کیے جاتے ہیں تو کبھی کسی اور بہانے سے ان کی جائیدادوں واملاک کوبرباد کیا جاتا ہے۔ ڈاڑھی والے مرد اور برقعے والی عورتیں خاص طور پر انتہاپسندوں کانشانہ بنتی ہیں۔ آر ایس ایس کی پروردہ بی جے پی اور دوسری ہندوانتہاپسند تنظیمیں مسلمانوں کا وجود ہی سرے سے برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو مسلم خاندان پون صدی یا ا س سے بھی زائد عرصہ سے اپنے علاقوں میں آباد ہیں انہیں شہریت نہیں دی جارہی اور ہندوانتہاپسندوں کی طرف سے آئے دن ان پر پاکستان یا بنگلہ دیش جانے پر زور دیااور دھمکایا جاتا ہے۔بھارت میں لاکھوں مسلمان جگہ جگہ احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے آبائو اجداد بھی انہی علاقوں میں رہتے رہے ہیں، اس لیے ان کی شہریت کا مسئلہ حل کیا جائے تاکہ وہ ملازمت اوردیگرسہولیات سے فائدہ اٹھا سکیں لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی جن کا ہدف ہی مسلمانوں کو تعلیم، کاروبار اور معیشت میں پیچھے کی طرف دھکیلنا ہے وہ ان کے مسائل حل نہیں ہونے دیتیں۔بھارت میں کسی جگہ دھماکہ یا کوئی اورایسا معاملہ ہو جائے توفوری طور پر اس کا الزام مسلمانوں پر لگا کرنوجوانوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی جاتی ہے۔ ماضی میں مکہ مسجد، مالیگائوںبم دھماکہ، سمجھوتہ ایکسپریس اور دوسرے بہت سے واقعات کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا، اگرچہ بعد میں یہ باتیں ثابت بھی ہو گئیں کہ ان واقعات میں ہندوانتہاپسند ملوث تھے لیکن اس کے باوجود آج بھی دہشت گردی کا طعنہ مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اور بابری مسجد سمیت دوسری مساجد کی شہادت، مسلم کش فسادات اور قتل و غارت گری کی وارداتوں میں ملوث درندوں کو امن پسندی کے سرٹیفکیٹ دے کر جیلوں سے باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔
بابری مسجد کی شہادت اور احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کے واقعات دیکھ لیں، ان میں شریک ہندوانتہاپسندبڑے فخر سے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہیں لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں بلکہ ہندوانتہاپسند تنظیم بی جے پی کے جلسوں میں انہیںہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی مثال ساری دنیا کے سامنے ہیں، گجرات فسادات ان کی سرپرستی میں ہوئے، امریکہ جیسے ملک نے ان کیلئے اپنے ہاں آمد پر پابندی لگا رکھی تھی لیکن انہیں نہ صرف وزارت عظمیٰ کا عہدہ سونپ دیا گیا بلکہ امریکہ اور دوسرے ملکوں نے سب پابندیاں بھی ختم کر دیںیعنی بھارت کی سرزمین مسلمانوںکی طرح عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے قتل میں ملوث درندوں کیلئے جنت بن چکی ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کی ایک این جی او نے رپورٹ دی ہے کہ ہندوانتہاپسند تنظیمیں بھارت میں قائم گرجوں کو گرانے کیلئے بیرون ممالک سے باقاعدہ بھاری فنڈاکٹھے کر رہی ہیں۔ سکھ کسانوں اور دلت طبقہ سے ہونے والی زیادتیوں کی رپورٹیں بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو رہی ہیںمگر بھگوا تنظیموں کی دہشت گردانہ کاروائیاں روکنے کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا،بھارت میں ہندوانتہاپسندوں کی طرف سے ماضی میں مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو آگ لگا کر نذرآتش کیا جاتا توساری دنیا میں شور مچتا اور ہندوانتہاپسندوں کی درندگی پر تنقید ہوتی تھی ، سوشل میڈیا آنے سے اب تو ہندو انتہاپسندوں کے
مظالم کی ویڈیوز بھی فوری طور پر وائرل ہو جاتی ہیں، اس لیے ہندوانتہاپسندبھی اپنی کارروائیوں کا انداز اور طریقہ کار تبدیل کر رہے ہیں۔بی جے پی خاص طور پر اس حکمت عملی پر کام کر رہی ہے اور سرکار کا دبائو استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی عدالتوں کو بھگوا دہشت گردی کے حق میں استعما ل کیا جارہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں ان کیلئے بہت فائدہ ہے۔ ظاہری بات ہے بابری مسجد کی جگہ ہندو انتہا پسند زبردستی رام مندر تعمیرکرنا چاہتے توشاید کبھی نہ کر سکتے لیکن سپریم کورٹ سے فیصلہ آگیا تو قانون نافذ کرنے کے نام پر اس پرآسانی سے عمل درآمد کروا لیاگیا اور مسلمان بھی کچھ نہ کر سکے۔ اسی طرح اب کاشی اورمتھراکی تاریخی مساجد کے حوالے سے بھی عدالتوں سے فیصلے لینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہاں ماضی میں مندر ہوا کرتے تھے جنہیں گرا کر مغل بادشاہوںنے یہ مساجد تعمیر کی تھیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کی رہائشی بستیوں کا معاملہ ہے۔
بھارت کے مختلف علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے گھروں اور مساجد کو غیر قانونی طور پر بنائے جانے کے نام پرمسمار کر دیاگیا ہے۔بی جے پی سرکار کی سرپرستی میں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے اور مساجد کو شہید کیا جارہا ہے۔ابھی حال ہی میں ریاست اتراکھنڈ کے ہلدوانی ریلوے سٹیشن کی غفور بستی میں بھی ساڑھے چار ہزار کے قریب مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ہندوستانی میڈیا خود یہ بات تسلیم کر رہاہے کہ لوگ یہاں تقسیم ہند سے پہلے کے رہ رہے ہیں اور انہیںیہاں رہائش رکھے تقریبا ایک صدی ہونے کو ہے۔ لوگوں کے پاس کاغذات موجود ہیں کہ انہوںنے رقوم دے کر زمینیں خریدیں اور اپنے گھر بنائے ہیں لیکن کسی جگہ ان کی شنوائی نہیں ہو رہی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے اورعدالتیں بھی سرکارکی خوشنودی والے فیصلے کر رہی ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے مسلمانوں کو نوٹس بھی سونپ دیے گئے ہیںکہ اگر انہوںنے ایک ہفتے میں اپنے مکانات خود نہ گرائے تو حکومت بلڈروزروں کا استعمال کرے گی اور سرکاری سرپرستی میں ان گھروں کو گرادیا جائے گا۔ بھارتی انتظامیہ طے شدہ سازش کے تحت اگر یہ کھیل کھیلتی ہے تو پچاس ہزار کے قریب مسلمان سخت سردی کے اس موسم میں بے گھر ہو جائیں گے۔حالیہ برسوں میں ابھی تک جن مسلمانوں کے گھروں کو غیر قانونی قرار دے کر گرایا گیا ہے انہیں کسی قسم کا متبادل نہیں دیا گیا اور وہ خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بی جے پی سرکار کی بدنیتی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ اس علاقے میں ٹارگٹ صرف مسلمانوں کو ہی کیا گیا ہے،جن مقامات پر ہندو آباد ہیں وہاں سرکاری زمین ہونے کی بات نہیں کی گئی۔بھارت میںانصاف پسند حلقے خود یہ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی حکومت متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے جان بوجھ کر مسلم خاندانوں کے گھر برباد کرنا چاہتی ہے ورنہ اسی سال سے بھی زائد عرصہ سے لوگ یہاں رہ رہے ہیں پہلے کبھی ایسا کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا اور اگر بالفرض یہ ہزارو ں گھر گرانا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر انہیں متبادل گھر، زمین یا کم از کم مکانات کی مناسب قیمت ہی ادا کر دی جائے تاکہ وہ کسی اور جگہ سر چھپانے کا انتظام کر سکیں۔ حقیقت ہے کہ بھارتی حکومت نے عدالتوں کو استعمال کر تے ہوئے مساجد کی شہادت اور مسلمانوں کے گھر گرانے کی جس نئی منصوبہ بندی پر کام شروع کر رکھا ہے یہ انتہائی خطرناک ہے۔ عالمی اداروں کو مودی سرکار کی دہشت گردی کے متعلق صرف رپورٹیں ہی جاری نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اس کا ہاتھ روکنے کیلئے عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کو بھی دبائو سے نکل کرباہم اتحادویکجہتی اور جرات و استقامت کے ساتھ قربانیوں کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔اس کے بغیر ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button