ColumnJabaar Ch

میم ،شین اور لندن۔۔۔!جبار چودھری

جبار چودھری

 

نون لیگ نے مریم نوازکوپارٹی کا چیف آر گنائزر
بناکرانتخابات کی تیاری کی ذمہ داری دے دی ہے۔ مریم نوازدوہفتے کے دورے پر جنیواچلی گئی ہیں اور جنوری کے تیسرے ہفتے واپس آئیں گی لیکن ان کے صاحبزادے جنید صفدر بھی پاکستان پہنچ گئے ہیں لہٰذا اب یہاں انتخابی سیاست کا بازارگرم ہوگااور اقتدارکی امید پرسب نئے عزم سے کام میں مصروف ہوجائیں گے۔ویسے شریف خاندان کی اتنی سی کہانی ہے کہ اقتدارمیں ہوں توسرکاری خرچے پر پاکستان میں قیام کرلیتے ہیں لیکن جیسے جیسے جو فرد اقتدار سے باہر نکلتا ہے وہ لندن چلاجاتا ہے۔میاں نوازشریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جیل میں نہیں رہ سکتے کہ بہت نازک طبیعت پائی ہے اوراس بات کو انہوں نے کبھی غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جب بھی مشکل وقت آیا اور بات جیل تک پہنچی وہ کسی نہ کسی طرح کی ڈیل کرکے ملک چھوڑ گئے۔ابھی بھی پاکستان میں سزایافتہ ہیں لیکن جیل میں سزاپوری کرنے یا قانونی جنگ لڑکرخود کوبری کرانے کی بجائے تین سال ہونے کوآئے، لندن میں اپنے گھر میں چِل ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔بیماری کا کوَر بھی اب ہٹ چکا اورلندن جانے کی وجہ بھی سب کے سامنے کہ بقول آصف علی زرداری کہ میاں صاحب جیل کے مچھروں سے ڈرجاتے ہیں۔
ن لیگ سے میم اور شین کے نکلنے کی پیش گوئیاں شیخ رشید کرتے رہے ہیں اس پارٹی کا ایک دوسرے سے نکلنے سے انکارکیا جاسکتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے اوراقتدارآپس میں تقسیم کرکے چلنے پر دونوں گھروں کا اتفاق ہے لیکن ایسے دھڑوں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں جو لوگ نون لیگ کو قریب سے دیکھتے یا جانتے ہیں۔ صحافیوں کا بڑاطبقہ تو چشم دیدگواہ ہے کہ نون میں نوازیا مریم گروپ اور شہبازیا حمزہ گروپ باقاعدہ موجودہے۔اس گروپ کے خدوخال اب پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد کچھ زیادہ واضح ہوئے ہیں کیونکہ پہلے تقسیم ایسی تھی کہ پتا چلنا دشوار تھا۔پہلے تقسیم یہ تھی کہ جب بھی نون لیگ کو اقتدار ملے گا تو وفاقی حکومت نوازگروپ کے پاس ہوگی اورپنجاب کے تخت پرشہبازگروپ بیٹھے گا۔میاں نوازشریف جب جب وزیراعظم رہے شہبازشریف برابر وزیراعلیٰ پنجاب بنائے گئے ۔یہ سلسلہ ستانوے سے باقاعدہ شروع ہواتووزارت اعلیٰ کی امید میں بیٹھے چودھری پرویز الٰہی ناراض ہوگئے اورآج تک جس بے وفائی کا وہ ذکرکرتے ہیں وہ ستانوے میں ان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی بجائے شہبازشریف کو پنجاب کے سنگھاسن پر بٹھانے کا فیصلہ تھا۔اب نون لیگ لندن اورپاکستان میں تقسیم ہے کیونکہ میاں نوازشریف اپنے بھائی کی حکومت میں بھی واپس آنے کو تیار نہیں ہیںاورتواورمریم نواز شریف صاحبہ یونہی مقدمے سے بری ہوئیں تو انہوں نے سب سے پہلا کام اپنا پاسپورٹ واپس لینے کا کیا اورفوری طورپرلندن چلی گئیں کیونکہ یہاں نہ ان کے گروپ کی حکومت ہے اور نہ ان کے کرنے کاکوئی کام ۔پنجاب کا ضمنی الیکشن لڑنے کا ٹاسک ان کو سونپا گیا تھا جس میں وہ ناکام ہوگئیں۔نون لیگ بیس میں سے پندرہ نشستیں ہارگئی حمزہ شہبازدوبارہ اپوزیشن میں آگئے اور مریم لندن کو پیاری ہوگئیں۔
حکمران اشرافیہ کا کام صرف ڈنگ ٹپاؤ پالیسی رہ گیا ہے وہ عام آدمی کی طرح یہ تک نہیں سوچتے کہ
لوگ یا عوام کیا کہیں گے کہ ان کا حافظہ تو ابھی کام کررہاہے ۔مریم نوازجاتے ہوئے یہ کہہ گئی تھیں کہ ان کی ایک چھوٹی سی سرجری ہونی ہے جو صرف لندن میں ہی ممکن ہے اس لیے ان کو ایک ماہ کیلئے لندن جانا ہے۔ آج ماشاء اللہ چوتھا مہینہ چڑھ آیا ہے اور مریم صاحبہ کی واپسی کی کوئی امکان نہیں۔اب وزیراعظم پاکستان اور مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے مریم نوازکو نائب صدرسے ترقی دے کر پارٹی کا سینئر نائب صدربنادیا ہے اور ساتھ ہی ان کو پارٹی کو چیف آرگنائزربھی بنادیا ہے تاکہ وہ پارٹی کو نئے سرے سے منظم کریں ۔اب پتا نہیں وہ یہ کام لندن میں بیٹھ کر ہی انجام دیں گی یا اقتدار ملنے سے پہلے واپس آجائیں گی یاپھر شہبازشریف نے ان کو لندن سے پاکستان لانے کی کوشش کے طورپریہ عہدہ دیا، یہ واضح نہیں ہے ۔اس سے پہلے پارٹی کی سینئرنائب صدارت کا عہدہ شاہد خاقان عباسی کے پاس تھا معلوم نہیں کہ ان سے عہدہ واپس لے کرمریم نوازکو دیا گیا ہے یا اضافی عہدہ بنایا گیا ہے لیکن پارٹیوں میں عمومی طوپرایک سے زائد نائب صدوراور سینئر نائب صدور ہوتے ہیں تاکہ کچھ سینئرزکوراضی رکھا جاسکے۔
اس وقت پاکستان پر مسلم لیگ نون پاکستان کی حکومت ہے۔نون لیگ لندن سارے معاملے سے باہر اورلاتعلق ہے۔لندن گروپ سے اسحاق ڈار حکومت میں ہیں ۔ ان کو لگانا مجبوری تھی یا پھر لندن گروپ نے خزانے کے معاملات کو اپنے بندے کے ہاتھ میں رکھنا زیادہ مناسب خیال کیا۔نون لیگ لندن کی سربراہ مریم نوازہیںمیاں نوازشریف چونکہ پارٹی کے قائدہیں اس لیے وہ دونوں گروپوں کیلئے بڑے کا درجہ رکھتے ہیں ۔پاکستان میں لندن گروپ کے جو ارکان ہیں وہ سب حکومت سے باہر ہیں۔ اس وقت جتنے بھی سرکاری اور حکومتی عہدے دیے ہیں وہ سب کے سب شہباز شریف کے وفادار خیال کیے جاتے ہیں ،یہی نون لیگ پاکستان ہے وہ عطا اللہ تارڑ ہوں،ملک احمد خان صاحب ہوں یا دیگر قائدین یہ سب نون لیگ پاکستان ہیں اس لیے آجکل وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں ۔دوسری طرف وہ لیگی جو مریم گروپ کے قریب سمجھے جاتے ہیں وہ راندہ درگاہ ہیں۔ان میں پرویز رشید ہیں جن کوکسی بھی حکومتی عہدے کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ طلال چودھری ہیں وہ بھی فیصل آباد تک محدود کردیے گئے ہیں ۔طلال چودھری کا معاملہ اور بھی مختلف ہے ۔ان کو اپنے حلقے اور اگلی ٹکٹ کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہ جس حلقے سے الیکشن لڑکر دو ہزار تیرہ میں جیتے۔نون لیگ کی مرکزی قیادت کے قریب ہوئے اورپانامہ میں عدلیہ پرتنقید کے الزام میں توہین عدالت کے کیس میں نااہل بھی ہوگئے۔ طلال چودھری دوہزار اٹھارہ کا الیکشن ہارئے ،انہیں جڑانوالہ سے نواب شیر وسیر نے شکست دی تھی جو ساری زندگی پیپلزپارٹی میں رہے لیکن دوہزار اٹھارہ کے الیکشن سے صرف تین ماہ پہلے پی ٹی آئی میں وارد ہوئے اورجیت بھی گئے۔عدم اعتماد میں پی ٹی آئی کے جو ایم این ایز سندھ ہاؤس میں موجود تھے ان میں سے نواب شیر وسیر بھی تھے۔کچھ اطلاعات کے مطابق شہبازشریف نے نواب شیر وسیر سے اگلے الیکشن میں نون لیگ کے ٹکٹ کا وعدہ کرلیا ہے ۔اب طلال چودھری کو اپنی پڑی ہوئی ہے وہ اپنا ٹکٹ بچانے کیلئے فیصل آباد سے لاہور اورلاہور سے لندن تک دوڑلگارہے ہیں ۔
میاں جاوید لطیف کا تعلق بھی نون لیگ لندن سے خیال کیا جاتا ہے وہ غداری کے مقدمے میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں اورہر پریس کانفرنس میں یہ سنادیتے ہیں کہ نوازشریف واپس آرہے ہیں، تاریخیں دینے میں ان کا شیخ رشید سے مقابلہ چل رہا ہے ۔ان کے ساتھ بھی خوب ہوا ہے میاں جاوید لطیف کو وزیر توبنادیا گیا ہے لیکن انہیں کوئی قلمدان نہیں دیا گیا وہ اس وقت وزیربے محکمہ ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ محکمہ ملنے میں رکاوٹ ان کا لندن گروپ کے قریب ہونا ہے ورنہ عطااللہ تارڑ کو پہلے وزیر مملکت بنایا گیا انہیں انسدادمنشیات کا محکمہ دیا گیا لیکن چند ہی دنوں میں ترقی دے کروزارت قانون وہ داخلہ کا قلمدان دے دیا گیا لیکن میاں جاوید لطیف آٹھ ماہ سے کسی محکمے کو ترس رہے ہیں۔کراچی سے نہال ہاشمی ہوں یا مریم اور نوازشریف کے ترجمان زبیر عمر ،ان کو بھی کسی حکومتی عہدے کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔
نون لیگ کی کل صورتحال اس وقت یہ ہے کہ لندن گروپ پاکستان گروپ یعنی شہبازشریف کی طرف دیکھ رہا ہے کہ ریلیف یا تکلیف جو بھی لینا ہے وہی حاصل کریں گے ۔جب مکمل ’’ریلیف‘‘ مل گیا تو نوازشریف اور مریم نوازپاکستان واپس آکر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔اگر اگلے الیکشن میں کامیابی مل گئی تو پھر شریف خاندان میں ہوئے سیاسی معاہدے یا تقسیم کے مطابق مرکز میں مریم نوازوزیراعظم اور شہبازشریف خاندان کے پاس پھر پنجاب آجائے گا۔شہبازچاہیں تو خود وزیراعلیٰ بن جائیں یا حمزہ کو بنادیں ۔یہ ماضی کی تقسیم کے اعتبار سے سمجھا جانے والا منظر نامہ ہے لیکن شواہد بتارہے ہیں کہ جس ریلیف کی گاجرکے پیچھے اس وقت نون لیگ لگی ہوئی ہے اس کے مطابق اگر نیوٹرلز کی شفقت جاری رہی تو شہبازشریف ہی وزیراعظم کے امیدوارہوں گے یعنی نون لیگ لندن کو مزید انتظار کرنا پڑے گا ہاں ایک راستہ بننے کے امکانات بہرحال موجود ہوں گے کہ خاندان میں اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ الٹ کر نافذ کرلیا جائے یعنی اگر نون لیگ جیت جاتی ہے تو مرکز میں اسی طرح شہبازشریف ویراعظم بن جائیں اور پنجاب کا تخت اگلے پانچ سال کیلئے نون لیگ لندن کے حصے آجائے اس میں چاہے مریم نوازخود وزیراعلیٰ بن جائیں کہ ان کے والد نے بھی عملی سیاست میں وزیرخزانہ کے بعد جو پہلا بڑا عہدہ لیا وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ تھی ۔یا پھر مریم نوازکسی کو اپنی جگہ پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کرکے خود پیچھے بیٹھ کرپنجاب چلائیں۔اگر نون لیگ کو کامیابی نہ ملی تو پھر آپ تو معلوم ہی ہے کہ یہ سارا شریف خاندان کہاں جائے گا۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button