Ali HassanColumn

بی بی سی اردو ریڈیو کی بندش ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

بی بی سی اردو نے ایف ایم خبروں کا آخری پروگرام بھی ختم کر کے ریڈیو کو ہی خیر آباد کہہ دیا۔ اب بی بی سی اردو ریڈیونام کی کوئی سروس نہیں رہی۔ پہلے مرحلے میں صبح کے وقت نشر ہونے والا پروگرام ’’جہان نما ‘‘ بند ہوا تھا۔ پھر رات کے وقت خبروں کا بہت سنا جانے والا پروگرام’’شب نامہ‘‘ بند کیا گیا، بعد میں ایک گھنٹہ نشر ہونے والے ’’سیر بین ‘‘کا وقت گھٹا کر آدھے گھنٹے کر دیا گیا تھا۔ 31دسمبر 2019 میں مکمل بند کر دیا گیا تھا۔ ان پروگراموں کو بند کرنے کی بنیادی وجہ بی بی سی اردو کی سربراہ مہوش حسین نے یہ بتائی تھی کہ سامع کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور اردو خبریں ایف ایم پر جاری رہیں گی اور ڈیجیٹل سروس بھی جاری رہے گی۔ اب ایف ایم سروس کا آخری بلیٹن بھی 31 دسمبر 2022کی شام سات بجے نشر ہونے کے ساتھ بند کر دیا گیا۔میں نے جب کام شروع کیا تھا تو خبریں فون پر لکھانا پڑتی تھیں اور صوتی اثرات بھی فون پر ریکارڈ کرانے ہوتے تھے۔ ٹیکنالوجی تبدیل ہوئی۔ خبریں ریکارڈ کرکے ای میل سے روانہ کی جاتی تھیں۔ اس کے بعد سوفٹ ویئر ملا جس میں ریکارڈ کرنے اور ایڈٹ کرنے کی سہولت ہے، پر کام کرتے تھے، پھر ایف ٹی پی کے ذریعہ روانہ کر دیتے تھے ۔ ایف ٹی پی کا سلسلہ بی بی سی نے ختم کیا تو خبریں ای میل کی جانے لگیں۔ نشریاتی سہولتیں بڑھیں ۔ اسی لیے سیر بین کو بھی ریڈیو کو الودعی کہنا پڑا۔ کہا گیا تھا کہ اردو خبریں ایف ایم ریڈیوز کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی سامعین کو سماعت کیلئے ملا کریں گی جو بہر حال اب بند ہو گئیں۔ بی بی سی نے 1949میں اردو سروس کا آغاز کیا تھا۔ 1949 سے 2023تک ا ردو سروس کئی طرح کی اونچ نیچ سے گزری ہے۔ ہندی سروس کاآغاز 1940 میں کیا گیا تھا ۔
پاکستان میں بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے ملک کا بہت بڑا علاقہ ابھی بھی ریڈیو پر انحصار کرتا ہے۔ شہروں میں جہاں کیبل پہنچ سکا ہے وہاں البتہ ریڈیو کے سامع کی تعداد میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ ر یڈیو سیٹ ان شہروں میں خال خال رہ گئے ہیں ۔ اس کا اندازہ مجھے ایک عرصہ قبل اس طرح ہوا تھا کہ تھر پارکر کی ایک خبر کرنے کے بعد ایک چوک پر لوگوں کے درمیاں گھرا ہوا تھا، میں خبر سننا چاہتا تھا۔ میں نے گرد موجود افراد سے معلوم کیا کہ کسی کے پاس ریڈیو سیٹ موجود ہے تو قریباً سب نے ہی انکار کر دیا تھا۔ اس کے برعکس دیہی علاقوں میں ریڈیو سیٹ ابھی تک ہر گھر کی زینت بنا ہوا ہے۔
میں اپنی رائے بہت عرصے سے رکھتا تھا کہ پاکستان میں سامع کی تعداد میں کمی پیدا ہو رہی ہے۔ ایک مرتبہ تو میں اس کا اظہار عباس ناصر جو اس وقت اردو سروس کے سربراہ بھی تھے، سے بھی کیا تھا لیکن جواب میں ان کا اصرار تھا کہ بی بی سی کی جانب سے سروے کرنے والی ٹیم کی رائے مختلف ہے یعنی وہ اس میں اضافہ بتاتی تھی۔ بی بی سی کے سامع کی تعداد میں اضافہ کیلئے بی بی سی اردو نے بی بی سی سنگت کے عنوان سے ملک بھر کے مختلف علاقوں میں پرگرام کئے تھے ، اس کا مقصد سامع کی تعداد میں اضافہ ہی تھا۔ ہماری خواہش اپنی جگہ لیکن برطانوی حکومت کی مالی مشکلات، ضروریات، مجبوریاں اپنی جگہ ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ والدین اپنی اولادوں کو اردو درست کر نے کیلئے بی بی سی سماعت کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ادائیگی کے طریقہ کار پر بھر پور توجہ دی جاتی تھی جو بی بی سی اردو کا خاصا تھا۔ اپنے رپورٹروں کا تلفظ درست کرانے کیلئے دردانہ انصاری جیسی ماہر خاتون اور دیگر درجنوں افراد ہوا کرتے تھے۔ دردانہ نے تو کئی بار میرے تلفظ درست کئے۔ رپورٹروں اور پروڈیوسروں کی بھرتی چھان پھٹک کر کی جاتی تھی ۔ ایک سینئر پرو ڈیوسر راشد اشرف کہا کرتے تھے کہ پروڈیوسروں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی بلکہ خبر نشر ہونے کے بعد ان سے جواب طلبی کی جاتی تھی۔ رپورٹروں کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا کہ انہیں خبر دیتے وقت پرو ڈیوسر اور پروگرام ایڈیٹر کی کسوٹی سے گزرنا پڑتا تھا۔ بی بی سی میں ایک غلط خبر نشر ہوجانے کے بعد یہ اصول بنا دیا گیا تھا کہ ضروری نہیں کہ کسی رپورٹر کی خبر سب سے پہلے نشر ہو لیکن یہ بہت ضروری ہوگا کہ وہ درست خبر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہی رہے۔
میں نے 1988 میں بی بی سی کو فری لانسر کی حیثیت میں خبریں فراہم کرنا شروع کی تھیں، بعد میں باقاعدہ تنخواہ دار ملازم ہو گیا تھا ۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میری ایک خبر بھی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ کئی مراحل ایسے آئے جب قدم بہت سنبھل سنبھل کر اٹھا نا پڑتا تھا۔ میری کئی خبریں خصوصاً ٹنڈو بہاول کا ہولناک اور دل خراش واقعہ جس میں ایک میجر ارشد جمیل جنجوعہ نے ایک درجن افراد کو قتل کردیا تھا تاریخ کا حصہ ہیں۔ میجر کو بعد میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ یہ خبر بی بی سی سے ہی پہلی بار نشر ہوئی تھی۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی تدفین کے موقع پر ہی ان کی بیوہ غنویٰ بھٹو سے قبرستان میں انٹر ویو کرنے میں، میں کامیاب رہا تھا۔ ان خبروں کی طویل فہرست ہے اور کئی کی تو داستانیں بھی ہیں۔ ان داستانوں میں سے کئی تو کھو کرا پار والے کمال کو بھی یاد ہیں۔ کمال کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ بی بی سی ریڈیو پر کام کرنے والے مجھ سمیت کئی افراد کی ہو بہو نقل کر لیتے ہیں۔ بی بی سی اردو کی سماعت کرنے والے لوگ بھی گھٹ رہے ہیں۔ ایسے بھی لوگ تھے جو صرف سیربین بلیٹن کی ابتدائی موسیقی سنا کرتے تھے۔
یوں تو بی بی سی اردو سروس کے مختلف ادوار میں سینکڑوں معتبر افراد کے نام آتے ہیں جو بی بی سی سے وابستہ رہے اور انہوں نے سیر بین کو مقبول بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن میرے زمانے کے رضا علی عابدی، آصف جیلانی، علی احمد خان، دردانہ انصاری، مہر پارہ صفدر، ارجمند بانو، شفیع نقی جامعی، وسعت اللہ خان، مہوش حسین، کاشف قمر، آ صف فاروقی ، احمد رضا و درجنوں دیگر افراد کو طویل عرصے تک ان کے خبریں پڑھنے کے انفرادی انداز کو،پروگرام پیش کرنے اور اس میں (صوتی اثرات )آوازیں شامل کرنے پر یاد رکھا جا ئے گا۔ سیر بین کے مختلف پروگراموں ، سائنس کلب، شاہین کلب، کھیل کے میدان سے، آج کا سوال و دیگر کئی پروگراموں کو سامعین آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں۔ بی بی سی کی ایف ایم کیلئے خبروں کے سلسلے میں عبید ملک، کاشان اکمل، آسیہ عنصر، نادیہ سلیمان، نازش فیض، نازش ظفر، سعد سہیل، صبا ناز، ثناء گلزار وغیرہ مصروف کار رہے۔
ان ستر برسوں میں بی بی سی اردو سروس سے سینکڑوں صحافی اور افراد وابستہ رہے۔ اور ان ہی برسوں میں بی بی سی اردو کے مختلف ادوار ہیں۔ آخر میں تو بی بی سی اردو کی سیربین سمیت تمام نشریات لندن سے اسلام آباد منتقل کر دی گئی تھیں جو اسلام آباد کے اسٹوڈیو سے نشر کی جاتی تھیں۔ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ سب ہی نے سامعین کیلئے اپنی خدمات کی یادیں چھوڑی ہیں۔ میرے زمانے میں پاکستان سے میرے علاوہ رپورٹنگ کرنے والوں میں وسعت اللہ خان، اقبال جعفری، ظفر عباس، ادریس بختیار، ہارون رشید، رحیم اللہ یوسف زئی، ایوب ترین، ریاض سہیل، ارمان صابر، شاہد ملک (لندن میں کام کرنے کے بعد شاہد ملک لاہور سے نمائندگی کیا کرتے تھے ) ، علی سلمان، اعجاز مہر، عزیز اللہ خان، وغیرہ کے نام مشہور تھے۔ اب جب اردو ریڈیو ہی بند کر دیا گیا ہے تو سامعین کو بہر حال بی بی سی اردو کی خبریں اور پروگرام سماعت کیلئے کسی صورت نہیں ملیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ خبریں فراہم کی جائیں گی لیکن دوسرے ذرائع سے۔یہ دوسرے ذرائع عام آدمی کی پہنچ سے کم از کم ابھی تک تو دور ہی ہیں کہ اس کی مالی قوت سمارٹ فون خریدنے کی اجازت ہی نہیں دیتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button