ColumnRoshan Lal

سکول کے ارتقا کا سفر .. روشن لعل

روشن لعل

 

سکول(School )یونانی زبان کے لفظ Scholسے ماخوذ ہے۔ یونانی زبان میں Schol کے معنی ایسی مخصوص جگہ ہے جہاں فارغ وقت گذارا جائے۔ فارغ وقت گذارنے کیلئے قدیم یونان میں بنائے گئے سکول میں جمع ہونے والے لوگوں کی عمومی گفتگو اور مکالمے کا عمل ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا غیر محسوس طریقے سے علم کی فراہمی اور حصول کا ذریعہ بن گیا،گفتگو کے عمل کے دوران ایسے صاحب علم لوگ سامنے آئے جن کی فہم و فراست ، معاملہ فہمی اور علمی استعداد نے دوسرے لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایسے علما کی شہرت جب سکول سے باہر پہنچی تو عام لوگ اپنے علمی مسائل کے حل اور سوالات کے جوابوں کیلئے ان تک رسائی حاصل کرنے لگے۔
یوں فارغ وقت گذارنے کیلئے بنائے گئے یونانی سکول کی پہچان اس کے بنیادی معانی کی بجائے درس یعنی لیکچر دیئے جانے والے مقام کے طور پر ہونے لگی۔اس طرح سے قدیم یونان کا سکول وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا مرکز بن گیا جہاں درس و تدریس کا عمل خاص نظم و ضبط کے ساتھ سرانجام دیا جانے لگا۔ اس کے بعد سے موجودہ دور تک پوری دنیا میں سکول کا نام ایسے مقام کے طور پر پہچانا جاتا ہے جہاں استاد اپنے شاگردوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔
قدیم زمانوں میں درسگاہیں صرف یونان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر حصوں مثلاً روم ، چین اور ہندوستان وغیرہ میںبھی کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں۔
دور جدید کے سکول کی ہیئت وضع کرنے میں بغداد کے مسلمان حکمرانوں(750 عیسوی تا 1258 عیسوی)نے اہم کردار ادا کیا۔ قبل از اسلام اور اس کے بعد شروع ہونے والے دور میں سرزمین عرب پر سکول طرز کی درسگاہوں کی روایت موجود نہیں تھی۔ قدیم یونان میں جب حکما کی سوچ کو سلب کرتے ہوئے اس دور کے نام نہاد مذہبی عناصر نے غلبہ حاصل کرلیا اور سقراط جیسے فلسفی کو اپنے سچ پر قائم رہنے کے جرم میں زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کردیا تو وہاں صر ف مزید سقراط پیدا ہونے کا عمل ہی نہیں رکا بلکہ درس و تدریس کا مرکز بننے والے سکول بھی بند ہوگئے ۔
قدیم یونان میں مذہبی بنیاد پرستی کی وجہ سے وہاں درس و تدریس کی جو روایت ناپید ہوچکی تھی اور جو علوم تہہ خانوںکی نذر کر دیئے گئے تھے ان کا احیا
عباسی حکمرانوں نے بغداد میں کیااور اس مقصد کیلئے سکول طرز کی درس گاہیں بھی قائم کیں،ان درسگاہوں کے قیام سے قبل چھوٹے بچوں کی تعلیم و تدریس کیلئے باقاعدہ مدرسے قائم کرنے کا رواج موجود نہیں تھا۔ عباسی دور میں نئی طرز کے مدرسوں کے قیام کے بعد عرب میں چھوٹے بچوں کی درجہ بدرجہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہو ا۔ یوں مدرسہ یا سکول کی بچوں کی تعلیم کے ساتھ ایک خاص نسبت قائم ہوگئی،جس طرح قدیم یونان میں سقراط کو سچ بولنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا اسی طرح مسلم سلطنت میں بھی مذہبی بنیاد پرستو ں نے جدید تصورات پیش کرنے والے ابن رشد جیسے سائنسدانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔جب ابن رشد جیسے سائنسدانوں کو ملک بدر کرنے جیسی کارروائیوں کا آغاز ہوا تو ان کی ذات ، سوچ اور ان کے علم کا تعلق مسلمانوں کے ملکوں میں قائم کیے گئے مدرسوں سے ختم ہو گیا۔ اس تعلق کے خاتمہ کے بعد مدرسے جمود کا شکار ہوگئے۔ جس سوچ سے مسلمانوں کے ممالک میں قائم کیے گئے مدرسوں نے قطع تعلق کیا اس سوچ کو یورپ کے سکولوں نے اپنا لیا۔ اس کے بعد یورپ کے سکولوں
اور وہاں کے نصاب کے تبدیل ہونے اور سماج میں تبدیلیاں قبول کرنے کا ایسا سلسلہ شروع ہو ا جو اب تک جاری ہے۔
مسلمان حکمرانوں کے قائم کردہ مدرسے جہاں جدید علوم کی تدریس کی بنیاد رکھی گئی تھی وہاںتبدیلی کے عمل سے اس طرح کنارہ کشی اختیار کی کہ ان مدرسوں اور ان کی نئی شاخوں کو 11 ویں صدی میں مرتب کردہ درس نظامی کی تعلیم تک محدود کر دیا گیا۔ جب روایتی مدرسے جدید تعلیم سے بہرہ مند ہونے کیلئے تیار نہ ہوئے تو مسلمان اکثریتی ملکوں میں یورپی طرز تعلیم کیلئے الگ تعلیمی ادارے قائم ہونا شروع ہو گئے، آج مختلف مسلم ممالک سمیت پاکستان میں بھی یورپی طرز تعلیم کے حامل سکولوں کا نظام رائج اور مقبول عام ہے۔ یورپ میں جب علوم نے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے وسعت ختیار کی تھی تو بڑھتی ہوئی عمر کے بچوں کی تعلیمی ضرورتوں کیلئے سکول کے دائرے کو ناکافی تصور کرتے ہوئے کالجوں کا قیام عمل لایا گیا۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی مقاصد کیلئے یونیورسٹیاں قائم کی گئیں، یوں بنیادی تعلیمی مراکز کے طور پر سکولوں کو ایک خاص عمر کے بچوں کی تعلیم کیلئے مخصوص کر دیا گیا۔
سکول گو کہ کسی بھی ملک میں رائج نظام تعلیم کا سب سے نچلا درجہ ہے تاہم کسی بھی نظام تعلیم کی بنیاد ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آج کے دور کا سکول ترقی اور تبدیلیوں کی مختلف منازل طے کر چکا ہے مگر کسی بھی فرد کے طویل تدریسی عمل میں اس کی حیثیت بنیادی اکائی کی سی ہے۔ تدریسی عمل کی بنیادی اکائی ہونے کے باوجود سکول کا ارتقائی عمل جاری و ساری ہے۔ تبدیلی کے مختلف مراحل طے کرنے والے سکول کے متعلق یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نہ تو علم جامد ہو سکتا ہے اور نہ ہی علم کے ارتقاء کو جاری رکھنے والے سکول کو جمود کا شکار ہونا چاہیے۔ زندگی کے تیز رفتار سفر میں جو چیز رک جائے وہ پھر ماضی کا مزار بن کر رہ جاتی ہے۔موجودہ دور میں کسی سکول کی زندگی کو رواں رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا نصاب دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔
یہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ اس گلوبل ویلج میں دیگر دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے بھر پور طریقے سے زندگی گذارنا اب ممکن نہیں ۔یہاں اگر کوئی سکول رائج اور معروف علوم کے علاوہ کوئی نصاب اختیار کرے گا تو اس سکول سے فارغ ہونے والے طالب کی حیثیت اس دنیا میں ایک ایسے راستہ بھول چکے اجنبی کی طرح ہوگی جو نہ تو خود کسی کی زبان میں بات کرسکتا ہو اور نہ کوئی دوسرا اس کی زبان جانتا ہو۔ درسگاہوں کے ارتقائی سفر میں جن سکولوں کا نصاب تبدیل شدہ ماحول اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوسکا آج وہ کسی مقام پر نہیں ہیں۔ لہٰذا سکولو ں سے وابستہ منتظمین کیلئے ضروری ہے کہ درسگاہوں کے ارتقا کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کردار ادا کریں کہ ان کا سکول قائم و دائم رہ سکے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button