ColumnQaisar Abbas

سال 2022کا آخری کالم .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

روز اوّل سے حساب مہ و سال کے گوشواروں میں خسارہ ہی خسارہ رکھا گیا ۔ صبر کرنے والوں کے علاوہ سبھی کے لئے رائیگانی لکھ دی گئی اور صبر کرنے والے بھلا مفاد کا انتظار ہی کب کرتے ہیں۔ سال کے آخری سورج کی سنہری کرنوں میں ڈوبتی ہوئی امید ، پھر سے نئے سال میں زندہ رہنے کے حوصلے سے بھر پور جواز فراہم کرتی ہے۔
برسوں سے ، آمدن و خرچ کے حسابوں اور آئیندہ سال کے ممکنات کے علاوہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اس جدید ہوتی جاتی دنیا میں انسان کی وحشت اور سوچ کی دہشت ذرا بھی کم نہیں ہوئی ۔ آدمی سے آدمی کے باہمی تعلقات پر ، پھولوں جیسے بچوں کے قتل عام پر ، سلامتی کی ضمانت دینے والے مذہب کی خوشنودی کے لئے کئے گئے خون ناحق پر ، معصوم بیٹیوں کے ساتھ جنسی درندگی پر تربیت اور تہذیب شرمندگی سے منہ ڈھانپتی ہے ۔ یہ سلسلہ گزرے ہوئے سالوں کے ڈوبتے سورجوں اور آئیندہ دنوں میں طلوع آفتاب کی روشنی میں بڑھ چڑھ کر جاری رہے گا۔ تاریخ اور سال کے ہندسوں کی تبدیلی کے سوا نئے سال کے منصوبے ہمیشہ دھوکہ ثابت ہوئے ۔
سال بھر کے دوران وبا کے خوف میں کچھ کمی آئی اور پھر پہلے سے بڑھ کر ڈر پھلتے پھولتے دماغوں میں اتار دیا گیا ۔ وطن عزیز میں مہنگائی کی مدد سے غربت نے حکمرانی کی ۔ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ بھی کسی کام نہ آیا ۔ دھند نے ہر ظاہری و باطنی کیفیت کا بھرم رکھا اور ہاتھوں پر چڑھے ہوئے دستانے اپنی شناخت چھپا کر اپنا کام
دکھاتے رہے ۔ سال کے چاروں موسم دھند کی لپیٹ میں رہے ۔ ایک طرف منجمد برف پگھلنے میں سورج کی حدت بھی کام نہ آئی اور دوسری طرف اسی دھوپ نے مسکراتے چہروں سے گلابی رنگت ہی نوچ ڈالی ۔
سال رفتہ کے دوران بلوے اور ہجوم نے ریاست کو یوں بے بس کیا کہ کالعدم تک کا سٹیٹس بھی واپس لینا پڑا۔ ہماری اسمبلیاں تماش گاہ بنی رہیں ۔ ڈالر ہمارے روپے کی برہنہ لاش پر دھمالیں ڈالتا رہا اور ہم بے بسی کی تصویر بنے رہے ۔ سال رفتہ کے آخری عشرے کے دوران قومی بنک کو بڑے بڑے عالمی اداروں کے پاس اعلانیہ طور پر گروی رکھ دیا گیا۔
گزشتہ دسمبر کے آخری کالم میں ہم نے بہت سی امیدیں نئے سال سے وابستہ کی تھیں ۔ ان امیدوں کی فہرست بغیر تبدیلی کے ، ہم آئیندہ سال
سے وابستہ کرکے روایت نبھاہتے ہیں ۔ کئی سالوں سے وقت رفتہ کے تہوار دہرائے جارہے ہیں ۔ ہم گزشتہ سال کو آنے والے برس میں ایک ہندسے کی تبدیلی سے پہنچانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ صرف یہی تبدیلی ہوگی کہ دیواروں پر لٹکتے کیلنڈر بدلے جائیں گے ، نئی ڈائریوں پر مصروفیات کے صفحات کالے ہونگے ۔نئے گوشوارے بنیں گے اور جدت کے نام پر ہم سے ہمارا وقت اور خود کلامی کے سارے لمحے چھن جائیں گے۔
نئی تہذیب کے مالک یہ ضمانت نہیں دیتے کہ انسان کے اندر کی درندگی اور وحشت میں بھی کمی آئے گی۔ ایک حرف تسلی بھی تو نہیں ہے کسی کے پاس کہ وہ آئندہ سال کے گوشواروں کے پوشیدہ خانوں میں برداشت اور تحمل کی بیلنس شیٹ ہی مرتب کردے ۔ کوئی ہے جو گلوبل ویلج بن چکی دنیا میں باہمی فاصلوں میں کمی کا پرزہ متعارف کروا دے ، اگر نہیں کروا سکتا تو پھر ترقی صرف مشینوں نے کی ہے ، انسان تو آج بھی وحشت کے جنگلوں میں تنہا کھڑا ہے اور اپنے جیسے کسی اور شکار کا منتظر ہے۔
یہ سال ہی نہیں گزرا ، ہم سب بھی گزر گئے ، جس قدر اس برس کے حصے میں آئے ، بس اتنا گزر گئے ۔ اس لئے کہ انسان سرا سر خسارے میں ہے ۔ ہزاروں سال سے ہر قابیل کا ہاتھ ہر ہابیل کے خون سے سرخ رنگ ہے ۔ عقل سلیم کے وارث پر کوے مسکراتے تھے اور آج تک مسکرا رہے ہیں ۔ آج بھی حضرت عیسی مصلوب ہوئے جاتے ہیں ۔ گلوبل ویلج کا ہر فرعون وقت حاضر کے موسی کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے ۔ آج بھی حضرت نوح کی تبلیغ اس کے بیٹے نہیں مانتے ۔ آج بھی ہزاروں سال کی وحشت نہیں بدلی ، صرف ہندسے بدلے ہیں ۔ اور ہم ڈوبتے سورج کی سنہری کرنوں میں اپنی زندگی کے ایک اور برس کو رخصت کرتے ہیں۔ مہ و سال کے گوشواروں میں ایک ہندسے پر کراس کا نشان لگاتے ہیں ، اپنا ایک اور برس وقت کے حوالے کرتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button