Columnعبدالرشید مرزا

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

(گذشتہ سے پیوستہ)
اس دوران جب چیف جسٹس کانسٹنٹائن کی عدالت میں مولوی تمیزالدین خان کا مقدمہ چل رہا تھا، ہم چند صحافی، مَیں، ڈان کے رپورٹر مشیر حسن، اے پی پی کے مظفر احمد منصوری اور جنگ کے اطہر علی چیف کورٹ کی کینٹین میں چائے پی رہے تھے۔ اتنے میں سابق وزیر تجارت فضل الرحمان جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، قریب سے گزرے۔ ہم نے ان کو اپنی میز پر بلایا اور سیدھا سوال کیا کہ اب کیا ہوگا؟ فضل الرحمان صاحب نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر جواب دیا ’’اب پاکستان ٹوٹ جائے گا‘‘۔ ہم سب اُن کے اس جوا ب پر اچھل پڑے۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ کس بناء پر وہ یہ کہہ رہے ہیں؟ فضل الرحمان صاحب نے بلا کسی جھجک کے کہا کہ دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے اور اب بہت جلد فوج ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلے گی۔ فوج چوںکہ مغربی پاکستان کی ہے، اس لیے مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں سے یہ حقیقت نہیں مٹائی جاسکے گی کہ مغربی پاکستان ان پر حکمرانی کررہا ہے اور یہ بات مشرقی پاکستان کے عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگی، وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور بالآخر پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ابھی اٹھارہ سال بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ پاکستان دولخت ہوگیا‘‘۔مولانا مودودیؒ کے حوالے سے یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مولانا نے سقوطِ ڈھاکا سے دو سال قبل مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد فرمایا کہ حالات یہی رہے تو ملک کو متحد نہیں رکھا جاسکے گا۔ میجر صدیق سالک نے اپنی تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1969 میں ڈھاکا پہنچے تو انہوں نے اپنے فوجی ساتھیوں سے کہا کہ وہ کسی بینک میں اپنا اکائونٹ کھولنا چاہتے ہیں۔ ان کے فوجی ساتھیوں نے کہا کہ اکائونٹ ضرور کھولو مگر فوجی چھائونی کے کسی بینک میں، سول علاقوں کے کسی بینک میں نہیں۔ صدیق سالک کے بقول انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کے فوجی ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کسی بھی وقت مشرقی پاکستان چھوڑکر بھاگنا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مشرقی پاکستان میں ایسا کوئی بڑا ظلم اور جبر ہورہا
ہوگا جس کی وجہ سے لوگ 1954 میں بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان ٹوٹ سکتا ہے، 1966 میں بھی کہہ رہے تھے کہ ملک دو ٹکڑے ہوسکتا ہے،اور 1969 میں بھی اہم لوگ محسوس کررہے تھے کہ پاکستان ٹوٹ سکتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کے دولخت ہونے کے حوالے سے یہ بیانیہ ایجاد کیا ہے کہ پاکستان بھارت نے توڑا۔ ٹھوس اور ناقابلِ تردید تاریخی شہادتیں بتا رہی ہیں کہ مشرقی پاکستان کے حالات 1954 سے خراب تھے، بھارت نے تو دسمبر 1971 کے اوائل میں مداخلت کی۔ بلاشبہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان ٹوٹ نہیں سکتا تھا، مگر ہم نے اپنا گھر خود خراب کیا تو بھارت کی ’’مداخلت‘‘ اور ’’کامیابی‘‘ کی راہ ہموار ہوئی۔ ہم اپنا گھر خود خراب نہ کرتے تو بھارت چاہ کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔
چنانچہ پاکستان کے ٹوٹنے کی اصل کہانی یہ ہے کہ ’’بنیادی طور پر‘‘ پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان توڑنے کا ذمے دار ہے، جب کہ بھارت ثانوی طور پر پاکستان کے دولخت ہونے کا ذمے دار ہے۔ مگر ہمارے درجنوں بددیانت اور کم علم لکھنے والے اور مبصرین سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے پاکستان کے حکمران طبقے کے جرائم پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور بھارت کو سقوطِ ڈھاکا کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحقیقات کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے لوگ محض اس کوشش میں مصروف رہے کہ کسی طرح ذمہ داری دوسرے پر ڈال دیں۔مشرقی پاکستان آبادی کے اعتبار سے 56 فیصد تھا اور اس کی پٹ سن کی پیداوار نے پاکستان کی معیشت کو بدترین معاشی دور میں بڑا سہارا دیا تھا، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کو معاشی بوجھ سمجھتا تھا اور اس بات کے اظہار سے بھی گھبراتا نہیں تھا۔ اس سلسلے میں ممتاز صحافی آصف جیلانی کا براہِ راست تجربہ ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں:۔1970 کے اوائل میں ایم ایم احمد صاحب پاکستان کے امدادی کنسورشیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس جانے سے پہلے لندن آئے تھے اور انہوں نے پاکستان ہائی کمیشن میں پاکستانی صحافیوں کے لیے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ پاکستان کی معیشت کے بارے میں بات ہورہی تھی۔ اچانک ایم ایم احمد صاحب نے یہ کہہ کر سب صحافیوں کو اچنبھے میں ڈال دیا کہ مشرقی پاکستان، ملک کے لیے ذمے داری کا بوجھ بن گیا ہے، اور اگر پاکستان کو اس سے نجات مل جائے تو پانچ سال کے اندر اندر پاکستان اسکینڈے نیویا کے ملکوں کے برابر آجائے گا۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے سخت احتجاج کیا کہ ایم ایم احمد صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں! ملک کے عوام کی اکثریت والے مشرقی پاکستان کو آپ بوجھ کہہ رہے ہیں، جب کہ مشرقی پاکستان کے پٹ سن نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی معیشت کو سہارا دیا۔ پھر آپ قیام پاکستان کی جدوجہد میں مشرقی پاکستان کی کاوشوں کو یکسر فراموش کررہے ہیں۔ ایم ایم احمد صاحب کو فوراً احساس ہوا کہ انہوں نے غلط بات کہہ دی ہے، اور اس کی تاویلیں پیش کرتے رہے، لیکن میرے اور میرے چند صحافی دوستوں کے دل میں یہ پھانس اٹک گئی تھی کہ پاکستان میں ایسے عناصر ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر مشرقی پاکستان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ پھر 16 دسمبر 1971ء کو جب ڈھاکا کے ریس کورس میدان میں جنرل نیازی نے جگجیت سنگھ اروڑا کے ساتھ بیٹھ کر شکست نامہ پر دستخط کیے تو اُس وقت لندن میں پاکستانیوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھ کر مجھے 1954 میں فضل الرحمان صاحب کی پیش گوئی اور 1970 میں ایم ایم احمد کی پریس کانفرنس بے حد یاد آئی۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button