ColumnNasir Naqvi

کنجوس لوگ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

ہم پاکستانی بھی کمال لوگ ہیں ہماری ہمت اور فراخدلی کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے کسی بڑے سانحے کی ضرورت پڑتی ہے، جنگ ، زلزلہ، سیلاب اور دہشت گردی کے مقابلے میں تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے محدود وسائل میں وہ کچھ کر دکھایا جو ترقی یافتہ ممالک کے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے، ہم سخی دل بھی ہیں کسی غریب کی مدد کریں یا نہ کریں لیکن انسانیت کے نام پر خلق خدا اور فلاحی اداروں کے لیے ہمیشہ تیار پائے جاتے ہیں حالانکہ دین حق اسلام میں نیکی اور فلاحی کاموں کی ابتداء کے لیے حکم قرابت داروں، مسکینوں، یتیموں اور رشتہ داروں کی فوقیت کا ہے ، کیسی خوبصورت بات ہے کہ اگر ہم نیکی، مدد اور معاونت اپنے رشتہ داروں، عزیزوں ، محلے داروں، شہر اور گائوں سے شروع کریں تو نہ کسی کو دوسروں کی آس ہو گی اور نہ ہی کسی حکومت اور ادارے سے توقعات وابستہ کی جائیں گی،صرف زکوۃ قریبی مستحقین تک ’’ہم اور آپ‘‘ اپنے ہاتھوں سے پہنچا دیں تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے کیونکہ آپ کی ذات سے زیادہ عادل بھلا کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر صرف نظام زکوٰۃ کی درستگی ہو جائے تو فلاحی معاشرہ قائم کرنا کوئی مشکل کام نہیں، حکومتی ادارے زکوٰۃ لے کر اپنی من مرضی کے منصوبوں میں خرچ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور فلاحی ادارے ہی نہیں، اب تو سرکاری ہسپتال بھی زکوٰۃ جمع کرنا ضروری جانتے ہیں، حالانکہ ان ہسپتالوں کے پاس سرکاری بجٹ بھی ہوتا ہے لہٰذا حقیقی مستحقین زکوٰۃ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انہیں اپنا حق لینے کے لیے پہلے بیمار ہونا پڑتا ہے، پھر زکوٰۃ سے مفت علاج، کون سمجھائے کہ اگر ان کا حق انہیں دے دو تو ان میں سے اکثریت بیمار ہی نہ ہو، یہ تو غربت کے مارے لوگ ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی، بچوں کی صحت، تندرستی کے لیے دوا اور غذا چاہیے نہ تو وہ متوازن ہے اور نہ ہی جیب میں پیسے ہیں۔ ہر سال آبادی کے لحاظ سے سروے شائع ہوتا ہے ، سب جانتے ہیں کہ غربت کی لکیرسے نیچے کتنے لوگ زندگی گزار رہے ہیں پھر بھی ذمہ داری صرف حکومت کی ہے ہم خود کسی کے لیے از خود کچھ کرنے کو تیار نہیں، انصاف کے حصول کے لیے ہم ہر کیس میں ازخود نوٹس کے طلب گار ہوتے ہیں حالانکہ قومی مسئلہ سمجھتے ہوئے معمولی سی توجہ دی جائے تو مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ زکوٰۃ کا درست استعمال غربت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ نیک کاموں کے لیے ہر شخص اپنی نیک کمائی سے کچھ اضافی رقم خرچ کرے، کیونکہ بھوکی، ننگی اور جاہل، اَن پڑھ لوگوں کی ’’فوج ظفر موج‘‘ کا کوئی تُک نہیں، ہم خود اپنے وسائل کھا رہے ہیںکیونکہ تعلیم اور ہنرمندی کے بغیر قومی دھارے میں اپنی ذمہ داری نہیں نبھا سکتے، خاندانی منصوبہ بندی پر خطیر رقم خرچ کی گئی لیکن سب بے سود، یقیناً اولاد اللہ کی نعمت ہے لیکن منصوبہ بندی بنا اسے ہم اپنے لیے زحمت بنا لیتے ہیں اس لیے کہ کمانے والا ایک ، کھانے والے دس، شہروں میں کسی حد تک آگاہی سے کمی ہوئی لیکن دور دراز اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں اولاد ہی بڑی دولت آج بھی سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا ہم نے بنگلہ دیش سے بھی کچھ نہیں سیکھا، جب وہ ہمارے ساتھ تھے تو بنگالی کثیر اولاد تھے جب سر پر پڑی الگ ہوئے تو سب سے پہلے آبادی کی فکر لاحق ہوئی اور علماء کی مشاورت سے مسئلہ حل کر لیا گیا۔
ہماری شخصیت معاشرے میں موجود تضاد بیانی نے بگاڑ دی۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیںبلکہ پکڑیں جائیں تو نت نئی تاویلیں نکال کر معنی اور مطلب سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں پھر کسی کو کچھ سمجھ نہ آئے تو اس عقل کو سات سلام، ہمارا کیا قصور؟ دورِ عمرانی نے ویسے بھی ’’یوٹرن‘‘ کا ایک خوبصورت تحفہ دے کر معاملہ ہی آسان کر دیا۔ ایک بات اور بھی ہے کہ ہم جہاں فراخ دل اور سخی دل ہیں وہیں کنجوس بھی ہیں، اگر مطلب نہیں تو ہم کسی کی لفظی تعریف بھی نہیں کرتے، اگر ایسی خواہش رکھتے ہیں تو اس کے لیے جان سے جانا لازمی سروس ہے میں نے درجنوں ایسے لوگ اپنے اردگرد دیکھے ہیں جو زندگی میں تو تنقید، طعنے اور دشنام درازی سے کام لیتے ہیں لیکن جونہی آنکھ بند ہو جائے تعریف اور مگرمچھ کے آنسو بہانے لگتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ساتھ قبر میں اتر جائیں گے
لیکن قبر میں ساتھ اترنے والے بھی جانے والے کو اتار کر ’’چہرہ قبلہ‘‘ رخ کر کے سب سے پوچھتے ہیں ’’سیٹ‘‘ ہو گیا کہ نہیں اور جیسے ہی مولوی صاحب یا کوئی بزرگ قبر میں جھانک کر کہتا ہے ٹھیک ہے اب ’’سیٹ ‘‘ ہو گیا، قبر میں اترنے والا فوراً باہر نکل آتا ہے کیونکہ اس کے بعد ’’سلیب‘‘ لگا کر قبر بند کرنے کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ یہ منظر کیوں یاد آیا؟ اس لیے کہ ہمارا اور صحافی برادری کا ایک فعال دوست اپنے مالک حقیقی کی جانب واپس لوٹ گیا، یہ خبر بجلی بن کر گری اس لیے کہ ابھی خلیل مغل کی جانے کی عمر نہیں، تو بہ توبہ یہ میں نے کیا کہہ دیا، دعویٰ تو وہ کرے جسے غیب کا علم ہو؟ یہ تو خالصتاً اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے۔ زندگی بھی اسی کا تحفہ اور موت بھی اسی کا فیصلہ پھر ’’ہم اور آپ‘‘ کون؟ خلیل اپنی عادات و اطوار اور خداداد صلاحیتوں سے ایک منفرد شخصیت کا مالک تھا۔ پریس کلب کے الیکشن کی ہنگامہ آرائی میں بھی ہنگامہ خیز ہرگز نہیں، بات سننے اور سنانے کا فن دھیمے لہجے میں جانتا تھا، کام سے کام رکھنا معمول ضرور تھا لیکن پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک تک کا سفر انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں طے کیا۔ یہی اس کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میری طویل عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی اور اپنی عادت کے باوجود ’’غمِ دنیا‘‘ کی اسیری میں اسے رخصت کرنے بھی نہیں جا سکا، لیکن ایک ڈھارس ہے کہ میں نے اسے ہمیشہ ہنستا بولتا دیکھا، لہٰذا میری آنکھوں میں اس کا چہرہ ساری زندگی محفوظ رہے گا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کب سے بیمار تھا کس مرض میں مبتلا تھا لیکن میں جانتا ہوں کہ ہر ’’ذی نفس‘‘ موت جیسی لاعلاج مشکل کا شکار ہے۔ پھر بھی کسی کو علم نہیں کہ اس کا ’’موت‘‘ سے ٹاکرا کب ہو گا۔ اس فانی دنیا کی رونق اور رنگینیاں اپنی جگہ، اس کا انجام موت ہی ہے اس لیے کہ بقاء صرف خالق حقیقی کو ہی ہے۔ ہمارے اردگرد گھومنے پھرنے والے ہٹے کٹے،باری آئی تو چلے گئے۔ جو بچے ہیں وہ بھی تیار بیٹھے ہیں۔ بات تو درست ہے کہ ’’جب احمد مرسل نہ رہے تو کون رہے گا؟‘‘ آج خلیل مغل پولین میں واپس چلا گیا، کون جانے کل کسی کی باری ہے کیونکہ ’’موت کے سیلاب میں ہر خشک تر بہہ جائے گا‘‘۔
اب تو یہ روایت نہیں لیکن ماضی یعنی ہمارے بچپن میں یہ بات عام تھی کہ اگر کسی بڑے بوڑھے سے بھی حال پوچھا جاتا تو جواب یہی ملتا کرم اللہ کا، بس دعا کرو ’’اخیر‘‘ اچھا ہو، خلیل مغل کا اخیر دنیاوی طور پر اچھا ہوا، دوست احباب کی بڑی تعداد نے اسے رخصت کیا ، دل سے نکلی دعائوں کے ساتھ، اب دعا ہے کہ مالک کائنات اسے جوارِ رحمت میں جگہ دے، درجات بلند کرے، غلطی کوتاہیاں درگزر فرمائے اور پسماندگان کو صبرو استقامت دے تاکہ ان کی زندگی کا سفر اسی طرح جاری رہے جس طرح خلیل مغل کی موجودگی میں تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ، اللہ آسانیاں پیدا کر دے تاکہ جانے والی کی کمی کا احساس کم ہو جائے، اور ہم جیسے ’’کنجوس لوگ‘‘ بھی دعائوں کے دروازے فراخ دلی سے کھول دیں اس لیے کہ اب یہی صدقہ جاریہ ہے۔ آج ہم ہاتھ بلند کریں گے تو کل کوئی ہمارے لیے بھی دعائوں کا باعث بنے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button