ColumnQaisar Abbas

شہر اقتدار پر دیوالیہ سائے .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

ہم شام کے بعد شکر پڑیاں پارک اسلام آباد سے ملحق بلند ہوتے نئے ریستوران کی مصنوعی آبشار کے سامنے بیٹھے وطن عزیز کے حالات پر گفتگو کر رہے تھے اور عین اسی وقت شاہرائے دستور کی مدھم دکھائی دیتی روشنیاں شکست کی کہانی سنا رہی تھیں، ہم راشد منیر ڈوگر کی طرف سے دی گئی ضیافت کے لیے اس بلندی تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہم تمام لوگ ایک عجیب سے خوف کی لپیٹ میں ہیں،۔ملک کے دیوالیہ ہونے کا خوف، جنرل باجوہ صاحب کے چلے جانے کے بعد بھی خوف کا حصار قائم تھا۔ بہت محنت اور مسلسل جدوجہد کے بعد ہم ملک کو اس دوراہے پر لائے تھے ، جہاں پر صرف مایوسی تھی، طویل سفر کے دوران ہم نے پہلے جمہوریت کو بدنام ہوتے دیکھا اور پھر سیاست دانوں کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے کیس بنوائے گئے ، انہیں جیلوں میں ڈالا گیا ، تختہ دار کی تاریخ کو بھی ایک سیاست دان نے اپنی جان دے کر سیاہ کر ڈالا، کچھ تو کرپٹ تھے بھی، اور کچھ کو بنا ڈالا گیا، جمہوری لوگوں کے کردار کو عوام کے سامنے بدنما بنا کر پیش کیا گیا مگر غیر جمہوری ٹوٹکوں سے ملک چل نہ سکا تو پھر ریاکار جمہوری چہروں کی پشت پناہی کرکے نظام حکومت کے کئی تجربات کئے گئے ، پی سی او والی عدلیہ بھی آزمائی گئی، ملازمت میں توسیع کے حصول کے لیے پارلیمنٹ تک کو استعمال کیا گیا، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اعصاب
شکن سماعت کے بعد اپنا وزن بھی اس پلڑے میں ڈال دیا جو توسیع کو قانونی کرنے کے لیے کافی تھا، اپنے ہی ملک کو مالی طور پر دیوالیہ ثابت کرنے کے لیے خط لکھوائے گئے ، دھرنے دلوائے گئے ، مذہبی جماعتوں کو فیض آباد میں استعمال کیا گیا، اب سیاست دانوں کی ذاتی زندگی کو فلمایا جانے لگا تو دستاویزی شہادتیں بھی سامنے آ گئیں، بیڈ روم ، واش روم ، ڈرائنگ روم تک کے خفیہ خانوں میں کیمرے نصب کروائے گئے، الیکٹریشن ، پلمبر اور گھروں میں کام کرتی ماسیاں جو پہلے سے پکی نوکری والی تنخواہ دار ہیں ، انہیں باقاعدہ مخصوص علاقوں میں لانچ کیا گیا اور تاکہ جی بھر کر گندا کیا جا سکے، کچھ سیاست گندے ہو بھی گئے مگر پھر بھی ملک کی معیشت بہتر نہ ہو سکی۔
بظاہر حکومت میں بیٹھے ہوئے وزیر بھی خالی ہاتھ ہیں، وفاقی وزرا کی بے بسی دیکھئے کہ اسی وزارت کا ذیلی ادارہ ان کی بات نہیں مانتا، وفاقی وزیر انسداد منشیات نواب زادہ شاہ زین بگٹی اپنی وزارت کے ذیلی محکمے اے این ایف کے ڈی جی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، اے این ایف والے خود کو باوردی ہونے کی وجہ سے جمہوری حکومت سے برتر سمجھتے ہیں اس لیے من مانی ان کی انتظامی رگوں میں لہو بن کر دوڑتی ہے۔
نیم خنک رات کا آغاز شاندار ضیافت سے ہوا تھا تو پھر بھرے ہوئے پیٹ لئے یہ تمام لوگ ایک انجانے خوف کے بوجھ تلے کیوں دبے ہوئے تھے ؟ پون صدی لگی تھی ملک کی معیشت کو دیوالیہ ہونے کے خطرات تک لے جانے میں اور احساس تحفظ کچلنے میں، حیرت تو یہ ہے کہ ایک افسر اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے معاشی عدم استحکام کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔
عدلیہ کے معزز جج صاحبان آج بھی بھٹو کی پھانسی والے فیصلے پر شرمندہ نظر آتے ہیں اور معافیاں مانگتے پھرتے ہیں، اپنی ملازمت میں توسیع کے لیے ، اور کبھی حرف حق کو زندہ درگور کرنے کے لیے عدلیہ جیسے مقدس ستون کو بھی معاف نہیں کرتے۔ کھل کھیلنے والوں نے اسی شاخ پر ضربیں لگائی ہیں جس پر بیٹھ کر وہ مفادات کے جھولے جھولتے ہیں اور الزامات کی چوٹ ہمیشہ سیاست دانوں پر پڑتی ہے، جو کبھی سولی پر چڑھتے ہیں اور کبھی جیلوں میں سڑتے ہیں۔
ہمارے جرنلسٹ یار راشد منیر ڈوگر کی طرف سے دی گئی ضیافت اپنی پر تکلفی کے باوجود دیوالیہ ہونے کے خوف کی نذر ہوگئی،جب آپ کے اطراف میں دیوالیہ ہونے کی افواہیں پھیلائی گئی ہوں تو پھر سانس بھی مشقت ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button