Columnعبدالرشید مرزا

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

تاریخ سے سبق سیکھنے والی اقوام آگے بڑھتی ہیں ترقی کی طرف گامزن ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کے سانحے سے پاکستانی قوم میں وہ احساسِ زیاں پیدا ہی نہ ہوسکا جو قوموں کو بدلتا ہے اور مستقبل میں سانحات سے بچنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا، وطن عزیز میں آج ملی یکجہتی کہیں نظر نہیں آتی، ہماری گلیوں میں تعصب کہیں مہاجر کی بنیاد پر نظر آیا اور کہیں برادریوں، زبان، رنگ و نسل کی بنیاد پر ہر آیا۔14 اگست 1947ء سے 16 دسمبر 1971ء تک آتے آتے 24 سال لگے۔ ملک ٹوٹنے کے لیے یہ مدت بہت کم ہے لیکن دل ٹوٹنے کے لیے یہ مدت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان پہلے دلوں میں بنا، پھر جغرافیے میں ڈھلا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلے پاکستان دلوں میں ’’توڑا‘‘ گیا، بعد میں پاکستان عمل کی دنیا میں دولخت ہوا۔ سوال یہ ہے کہ 24 سال میں پاکستان کے حکمران طبقے نے ایسا کیا کیا کہ جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دو ٹکڑے ہوگئی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا، اور صرف نظریہ ہی اسے بچا بھی سکتا تھا اور نظریہ ہی اسے مضبوط کرسکتا تھا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کی وفات سے 16 دسمبر 1971ء تک ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی جانب دیکھا تک نہیں۔ اگر یہ کہا آئے تو غلط نہیں ہوگا کہ تحریک پاکستان میں بنگالیوں کا کردار سب سے اہم تھا۔ برصغیر میں سیاسی اعتبار سے سب سے ’’باشعور قوم‘‘ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریز سب سے پہلے بنگال میں آئے اور ان کی مزاحمت کا آغاز بنگال سے ہوا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ لاہور، دہلی، لکھنؤ، کراچی، پشاور یا کوئٹہ میں نہیں بلکہ ڈھاکا میں 1906ء میں قائم ہوئی تھی۔ تحریکِ پاکستان میں بنگال کے رہنمائوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ قراردادِ پاکستان مولوی فضل حق نے پیش کی جو بنگالی تھے۔ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ 1906ء سے 1947ء تک تو بنگالی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے سب سے زیادہ ’’وفادار‘‘ تھے لیکن 1947ء سے 1971ء کے 24 برسوں میں وہ ’’غدار‘‘ بن گئے! بنگالی متحدہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھے، مگر ان سے کہا گیا کہ مساوات کے اصول کو تسلیم کرو اور مانو کہ تمہاری آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا صرف 50 فیصد ہے۔
کمال کی بات یہ ہے کہ بنگالیوں نے پاکستان کے اتحاد کی خاطر اس ظلم اور اس جبر کو بھی دل سے قبول کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ قوتیں کون تھیں جنہوں نے بنگالیوں کو 56 فیصد سے 50 فیصد کیا؟ بنگالیوں کی آبادی 56 فیصد تھی مگر 1960ء تک فوج میں بنگالیوں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر جنید وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر اس جھوٹ کا پردہ چاک کیا ہے کہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ آخر 1947ء سے 1960ء تک فوج میں بنگالی کیوں موجود نہیں تھے؟ جبکہ وہ آبادی کا 56 فیصد تھے۔ کیا بنگالی ذہنی و جسمانی طور پر معذور تھے؟ اصل قصہ یہ ہے کہ پاکستان پر قابض حکمران طبقے نے فوج کے سلسلے میں ’’برتر نسل‘‘ کا نظریہ گھڑا۔ کہا گیا کہ فوج میں شامل ہونے کے لیے مارشل ریس سے متعلق ہونا ضروری ہے۔ اُس وقت مارشل ریس میں کون شامل تھا؟ پنجابی، پشتون اور مہاجر۔ کہا گیا کہ بنگالیوں کے قد بہت چھوٹے ہیں اور وہ فوج میں شامل ہونے کے قابل نہیں۔ بلاشبہ ایک زمانہ تھا کہ جنگ لڑنے کے حوالے سے ’’جسمانی قوت‘‘ اور ’’قد و قامت‘‘ کی بھی اہمیت تھی، جدید جنگی
ہتھیاروں نے قدوقامت اور جسمانی قوت کو بے معنی بناکر رکھ دیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1965ء میں پاک فضائیہ کا سب سے بڑا ہیرو ایم ایم عالم ایک بنگالی تھا۔ ایم ایم عالم نے دو منٹ میں بھارت کے پانچ طیارے گرائے اور ثابت کیا کہ بنگالی بہترین سپاہی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے بنگالیوں کو 1947ء سے 1960ء تک فوج سے یکسر باہر رکھا، مگر پھر بنگالیوں کو فوج میں شامل کیا جانے لگا، تاہم 1970ء میں اس حوالے سے کیا صورتِ حال تھی، میجر صدیق سالک سے سنیے۔ میجر صدیق سالک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا سے کچھ عرصہ پہلے جنرل یحییٰ نے اعلان کیا کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں ’’100 فیصد‘‘ اضافہ کیا جائے گا۔ صدیق سالک کے بقول وہ ایک فوجی مرکز کے دورے پر گئے تو ایک بنگالی فوجی افسر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر جنرل یحییٰ کے اعلان پر کامل عمل درآمد ہوگیا تو بھی فوج میں بنگالیوں کی تعداد 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی حالانکہ ہم آبادی کا 56 فیصد ہیں۔
بنگالی افسر نے غلط بیانی سے کام لیا ہوتا تو صدیق سالک اسے چیلنج کرتے، مگر صدیق سالک خاموش رہے، اس لیے کہ بنگالی افسر کی بات درست تھی۔ یعنی قیام پاکستان کے 24 سال بعد فوج میں بنگالیوں کی تعداد صرف 25 فیصد تھی۔ فوج ملک کا سب سے اہم اور سب سے طاقت ور ادارہ تھی، چنانچہ بنگالیوں کو فوج میں شامل ہونے سے روکنا کیا بدترین ظلم نہیں تھا؟ کیا یہ ظلم بنگالیوں کے خیالات و جذبات پر کوئی منفی اثر نہیں ڈال رہا ہوگا؟1947ء سے 1960ء تک انہیں فوج میں آنے ہی نہیں دیا گیا، بیوروکریسی میں بھی ان کی نمائندگی 10 سے 15 فیصد تھی، سوال یہ ہے کہ آخر اس کا ذمے دار کون تھا؟ بنگالی یا پاکستان کا حکمران طبقہ؟پاکستان کے حکمران طبقے نے ذرائع ابلاغ کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے مغربی پاکستان کے لوگوں میں بنگالیوں کے خلاف بے پناہ نفرت پیدا کی ہوئی تھی۔ جنرل رائو فرمان علی نے ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ مشرقی پاکستان کے بحران میں چھٹی پر گھر آئے تو ان کی ’’ماسی‘‘ نے ان سے کہاکہ صاحب بنگالیوں کو نہ چھوڑنا کیونکہ وہ ’’غدار‘‘ ہیں۔ تو پاکستان بنانے والے بنگالی ’’غدار‘‘ تھے اور یہ بات ماسی تک کو ’’معلوم‘‘ ہوچکی تھی۔ میجر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1969ء میں ڈھاکا پہنچے تو ہوائی اڈے پر ایک فوجی نے ان کا استقبال کیا۔ ہوائی اڈے پر ایک ’’بنگالی پورٹر‘‘ نے صدیق سالک کا سامان ان کی گاڑی تک پہنچایا۔ صدیق سالک کے بقول انہوں نے بنگالی پورٹر کو کچھ روپے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کے استقبال کے لیے آنے والے فوجی نے کہا: ان ’’حرام زادوں‘‘ کا دماغ خراب نہ کریں۔ جیسا کہ ظاہر ہے اس طرح کی آرا ’’انفرادی‘‘ نہیں ہوتیں۔ تو پاکستان بنانے والے بنگالی ’’حرام زادے‘‘ تھے۔ واضح رہے کہ یہ 16 دسمبر 1971ء کے بعد کا واقعہ نہیں، 16 دسمبر 1971ء سے دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ بنگالیوں سے نفرت کا ایک واقعہ پاکستان کے ممتاز بیوروکریٹ سید شاہد حسین نے اپنی تصنیف What was Once East Pakistan میں لکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا:۔ "مشرقی پاکستان کے اپنے اس پہلے دورے کے دوران ریل کے ایئرکنڈ یشنڈ کمپارٹمنٹ سے دیکھا ہوا ایک منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا جو آج بھی مجھے دہلا کر رکھ دیتا ہے۔ سفر کے دوران آشوروی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کی ڈائننگ کار سے کھانا پیش کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ٹرین کے ڈبے کے سامنے نیم برہنہ بھوکے لڑکے لڑکیوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ پہلے تو میں کچھ نہیں سمجھ پایا، لیکن پھر فوراً ہی بات واضح ہوگئی کہ یہ بھوکے بچے ہمارا چھوڑا ہوا کھانا حاصل کرنے کے لیے لپکے ہیں۔ لیکن ویٹر نے بچا کھچا کھانا انہیں دینے کے بجائے یہ کہتے ہوئے گندے پلیٹ فارم پر پھینک دیا کہ انہیں دینے کے بجائے کتوں کو ڈال دینا بہتر ہے۔ مجھے یہ منظر کبھی نہیں بھولتا کہ بھوکے بچے کس طرح زمین پر پڑے ہوئے کھانے کی طرف لپکے تھے تاکہ کتوں کے آنے سے پہلے جو کچھ ممکن ہوسکے اٹھالیں۔ وہ بیرا بہاری تھا اور اس کا رویہ بنگالی بہاری باہمی تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے کافی تھا‘‘۔یہ ایک ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہے کہ بنگالیوں نے فوجی آپریشن بالخصوص سقوطِ ڈھاکا کے بعد اُن پاکستانیوں پر بڑے مظالم ڈھائے جنہوں نے ملک بچانے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا۔ مگر 1947ء سے 1971ء تک تو انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے بنگالیوں سے نفرت کی جاتی، انہیں ’’حرام زادے‘‘ کہا جاتا اور کتوں سے کم تر سمجھا جاتا۔ کیا جن لوگوں نے 1947ء سے 1971ء تک بنگالیوں کے خلاف نفرت پھیلائی، ان کا معاشی قتلِ عام کیا، انہیں ملک کے اہم ترین اداروں میں صحیح نمائندگی سے محروم رکھا، انہوں نے پاکستان کو توڑنے کے عمل میں حصہ نہیں لیا؟پاکستان 16 دسمبر 1971ء کو ٹوٹا، مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا احساس بہت پہلے سے فضا میں موجود تھا۔ حسن ظہیر نے اپنی کتاب The separation of East Pakistan میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں 1954-55 ء میں ہونے والی بعض تقاریر کے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ یہ تقاریر مشرقی پاکستان کے بنگالی منتخب اراکین کی تقاریر ہیں۔ ان تقاریر میں بنگالی سیاست دان کہہ رہے تھے کہ اگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کے سلسلے میں اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ملک کو متحد نہیں رکھا جاسکے گا۔ یہ اپنی طرز کی واحد شہادت نہیں ہے۔ آصف جیلانی پاکستان کے ممتاز اور پاکستان سے محبت کرنے والے صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ایک سال قبل اپنے کالم میں لکھا: ۔ ’’یہ اُن دنوں کی بات ہے جب اکتوبر 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی اور اس اقدام کو دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں للکارا تھا۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button