ColumnJabaar Ch

چہرہ پڑھ حالات نہ پُچھ۔۔۔ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

رواں سال کے اپریل کاپہلا ہفتہ تھا۔ ملک میں ہرطرف سیاسی افراتفری جاری تھی۔ عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد پی ڈی ایم اسلام آباد کے ایک کونے سے دوسرے تک بھاگ رہی تھی۔اس وقت کے وزیراعظم عمران خان بنی گالہ میں سیاسی ڈیرہ جمائے پنڈی سے امید لگائے بیٹھے تھے۔پی ڈی ایم مرکز میں قاف لیگ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سرتوڑکوشش کررہی تھی۔اس وقت کی حکومت کے دوسرے اتحادی بھی قاف لیگ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ جو فیصلہ وہ کریں گے وہی سب کا فیصلہ ہوگا۔ہوابننا شروع ہوئی۔قاف لیگ کے ایم این اے اور وفاقی وزیرطارق بشیر چیمہ بارش کاپہلا قطرہ بن کربرس پڑے۔ طارق بشیر چیمہ نے عمران خان کے سامنے کابینہ میں بیٹھ کرکہہ دیا کہ وہ عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے اس طرح قاف لیگ میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی۔
آصف علی زرداری مزید آگے بڑھے اور چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع ہوگئی۔چودھری پرویز الٰہی ٹی وی پر آئے اور عمران خان کے خلاف’’ نیپی ‘‘تبدیل کرنے والاانٹرویو دے دیا۔اس کے بعد تمام اتحادیوں کو پیغام پہنچ گیا کہ کس طرف جانا ہے۔فارمولہ یہ طے پایا کہ وفاق میں باقی اتحادیوں کو وزارتیں دی جائیں گی لیکن پرویزالٰہی پنجاب میں پی ڈی ایم کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔مرکزی بیٹھک میں سب کچھ طے پاگیا۔ چودھری پرویزالہٰی اورچودھری شجاعت نے مل بیٹھ کردعائے خیر کی اورسب ووٹنگ والے دن کا انتظارکرنے لگے۔اپوزیشن اتحاد کے پاس نمبر پورے ہوگئے تمام اتحادی عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کے لیے پی ڈی ایم کی کشتی میں سوارہوگئے لیکن پنڈی میں آخری کوششیں جاری تھیں۔ووٹنگ سے ایک دن پہلے پی ٹی آئی کے وفد نے چودھری پرویزالٰہی سے ملاقات کی۔اس وفد کے جاتے ہی خبرآئی کہ پرویزالٰہی اور مونس الٰہی بنی گالہ جارہے ہیں۔ یہ خبر دعائے خیر کرنے والوں پربجلی سی بن کر گری۔اس ملاقات کے ساتھ ہی یہ خبر بریک ہوگئی کہ پرویز الٰہی عمران خان کا ساتھ دیں گے۔بدلے میں عمران خان عثمان بزدار کی جگہ چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب کے سنگھاسن پر بٹھادیں گے۔چودھری پرویزالٰہی کے لیے تو دونوں طرف ہی کرسی تھی لیکن انہوں نے ایک طرف دعائے خیر کرنے کے بعد دوسری طرف والی کرسی کو اپنی سیاست کے لیے بہترجان کرحامی بھرلی۔
قومی اسمبلی میں قاف لیگ کے ووٹ تقسیم ہوگئے۔طارق بشیرچیمہ اور سالک حسین شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور مونس الٰہی کو پی ٹی آئی میں پناہ مل گئی۔عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ عمران خان کی حکومت ختم لیکن پنجاب میں سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوگیا۔اس کے بعد چودھری پرویز الٰہی جس طرح وزیراعظم بنے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔پنڈی جلسے میں جب عمران خان نے پنجاب اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا توچودھری پرویزالٰہی کو آصف زرداری کے ساتھ کی جانے والی دعائے خیر شدت سے یاد آنے لگی۔وہ سوچنے لگے کہ پنڈی نے پتا نہیں کیا سوچ کر انہیں عمران خان کا ساتھ دینے کا حکم دیا تھا یہاں تو سر منڈاتے ہی اولوں نے گھیر لیاہے۔اگر پی ڈی ایم کا وزیراعلیٰ بناہوتا تو اسمبلی ٹوٹنے کی بجائے اس کی مدت میں مزید توسیع کی باتیں ہورہی ہوتیں لیکن یہاں تو وزارت اعلیٰ جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
چودھری پرویز الٰہی نے گزرے تین ہفتوں میں عمران خان کو زمینی حقائق دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ اسمبلیاں توڑنے کا پی ٹی آئی اور عمران خان کو کیا کیا نقصان ہوسکتا ہے۔اس کا ذکر عمران خان نے اسمبلی توڑخطاب میں بھی کیا۔اس خطاب میں عمران خان کے ساتھ بیٹھے چودھری پرویزالٰہی صاحب کا چہرہ صاف بتارہا تھا کہ۔۔
اساں اجڑے لوک مقدراں دے
ویران نصیب دا حال نہ پُچھ
توں شاکر آپ سیانا ایں
ساڈاچہرہ پڑھ حالات نہ پُچھ
چودھری صاحب ہوں یا چودھری مونس الٰہی دونوں ہی میڈیا اور عوام میں یہی کہتے ہیں کہ’’ عمران تیرا اک اشارہ ‘‘ لیکن اندرجاکر خان صاحب کو گرفتاری سے ڈرانے کی کہانیاں سناتے رہے کہ اسمبلی ٹوٹی تو گرفتاری بھی ہوسکتی ہے۔پنجاب حکومت کی طرف سے عمران خان کومہیا پروٹوکول اور حفاظتی حصار ختم ہوجائے گا لیکن عمران خان نے جو اعلان کررکھا تھا اس سے یوٹرن لینا بہت نقصان دہ تھا اس لیے اسمبلی توڑنے کا دن مقررکرنا لازمی تھا۔عمران خان نے اپنے پنڈی کے اعلان کے مطابق ہفتے کو اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردیا۔ویل ڈن کپتان۔
اس اعلان کے ان کی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے یہ وقت بتائے گا لیکن میں نے پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ اگر اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ اسی دن پنڈی کے جلسے میں دے دی جاتی تو فائدہ بہت زیادہ ہوتا۔پی ڈی ایم کو وقت نہ ملتا کیونکہ جنگ چاہے تلواروں سے لڑی جارہی ہو یا سیاسی میدان میں۔ جنگ میں غیر متوقع وارکامیابی کی ضمانت بن جایا کرتا ہے۔پنڈی والے جلسے میں چھبیس نومبر کو کیا جانے والا وار اتنا غیر متوقع اور اچانک ہوتا کہ پی ڈی ایم کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملتاعمران خان تو ہر دم پہلے ہی تیار تھا لیکن عمران خان نے مشاورت کے نام پر خود بھی وقت لیا اور پی ڈی ایم کو بھی سوچنے اور حکمت عملی کا وقت دے دیا۔اب اس وار کے نتائج مختلف ہوں گے۔
اس وقت کے دوران پرویز الٰہی نے بھی اپنے گھوڑے دوڑائے۔ عمران خان کو ڈرایا۔ٹی وی پر خبریں چلوائیں کہ پرویزالٰہی فوری اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں۔مونس الٰہی نے انٹرویودیا۔مونس نے پی ٹی آئی کے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے کوشش کی کہ عمران خان اپنا فیصلہ واپس لے لیں لیکن ناکامی ہوئی۔چودھری پرویزالٰہی نے اس دوران ایک اور اہم کوشش کی۔یہ کوشش تھی دوبارہ پی ڈی ایم کا وزیراعلیٰ بننے کی۔وہ پیشکش جو چار ماہ پہلے چودھری شجاعت پرویزالٰہی کوکررہے تھے کہ وہ عمران کی بجائے ان کے وزیراعلیٰ بن جائیں لیکن اس وقت چودھری پرویزالٰہی نے اپنے بھائی کو ناراض کرلیا۔فیملی میں دراڑیں ڈال لیں اب وہی پیشکش خود چودھری پرویز الٰہی انہیں دے رہے تھے۔اس پیشکش پرچودھری شجاعت نے آصف زرداری کے ذریعے پی ڈی ایم کو منانے کی کوشش کی لیکن نون لیگ نے چودھری پرویزالٰہی کو قبول کرنے اور اپنا وزیراعلیٰ بنانے سے صاف انکار کردیا۔ نون لیگ نے طے کیا کہ ایک مرتبہ دعائے خیرکے بعد مکرجانے والے پر دوسری بار اعتبار کرنے سے بہتر ہے الیکشن میں مقابلہ کرلیا جائے۔اس انکار کے بعد ہی چودھری پرویزالٰہی کو مجبوری میں جاکر عمران خان کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔باقی ان کے حالات تو ان کے چہرے سے سب پڑھ ہی چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چودھری پرویزالٰہی کی پیشکش ابھی بھی نون لیگ کے ٹیبل پر موجود ہے اس کو قبول کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت بھی ہے۔ نون لیگ نے اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرواکربھی رکھ لیے ہیں۔کل ماڈل ٹاؤن میں اجلاس بھی ہوگیاہے۔اس اجلاس سے آخری خبریں آنے تک میں یہ لکھ سکتا ہوں کہ نون لیگ نے چودھری پرویزالٰہی کواب اپنا وزیراعلیٰ بنانے سے معذرت کرلی ہے۔باقی چند دن میں تبدیلی بھی آسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button