ColumnM Anwar Griwal

چائے ڈھابے اور مختلف طبقات کی چائے! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

سُنا ہے چائے کی ابتدا کے تانے بانے انگریز بہادر سے جا ملتے ہیں، یعنی چائے صدیوں نہیں، محض ایک سے ڈیڑھ صدی کی تاریخ کی حامل ہے۔ چائے کے بنائے جانے، اس کی خوشبو، ذائقے اور اقسام وغیرہ کے بارے میں جو کچھ ابوالکلام آزاد نے لکھ دیا ہے، آنے والے زمانوں کے لوگوں کی تشفی کے لیے وہ کافی تھا، مگر یہاں ہر کوئی خود کو ابوالکلام سمجھتا ہے، اور خیال کرتا ہے کہ جو کچھ وہ لکھ رہا ہے، یہ سب سے اہم ، ضروری اور منفرد ہے۔ چائے پر تو نہ جانے کتنے صاحبانِ ذوق ونظر اپنے تصورات و خیالات کو قرطاس و قلم کے حوالے کر چکے ہیں۔ مگر چائے پینے کی حد تک پاکستان میں سب سے زیادہ شہرت لاہور میں ’’ٹی ہائوس ‘‘نے پائی جہاں بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت کے ادیب، شاعر اور دانشور اکٹھے ہوتے تھے، گھنٹوں ادب و فن پر گفتگوکرتے تھے، ایک دوسرے سے سیکھتے تھے، یا دوسرے اُن سے سیکھتے تھے۔ چائے کے کپ میں طوفان برپا ہوتے تھے۔ گمان یہی ہے کہ یہ طوفان ادبی ہی ہوں گے کیونکہ سیاست پر شاعر اور ادیب لوگ زیادہ بحث نہیں کرتے تھے اور معیشت اُس زمانے کا مسئلہ نہیں تھا۔ یہ رونقیں وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ گئیں اور ٹی ہائوس والے اپنی دکان بڑھا گئے۔ تاہم کچھ عرصے سے لاہور کے ساتھ دیگر بھی کئی شہروں میں آرٹ کونسلوں کے ساتھ حکومتِ پنجاب نے ’’ٹی ہائوس‘‘ قائم کر دیئے ہیں، جہاں تقریبات کے لیے بھی مناسب بندوبست ہے، تاکہ لکھنے ، بولنے، سوچنے اور ’چائے پینے والے‘ اپنی من پسند سرگرمی جاری رکھ سکیں۔
اب کچھ برسوں سے نجی سطح پر بھی چائے کے ڈھابوں میں پھر رونق بڑھنے لگی ہے، کسی نے بھی ایک کھوکھا سڑک کنارے رکھا، تین بینچ اور چار کرسیاں رکھ لیں، چائے پینے والے پہنچ گئے۔ دیکھا دیکھی یہ ڈھابے پھیلنے لگے، جگہ وسیع ہونے لگی، ماحول نسبتاً بہتر ہونے لگا، کسی کھلے گرائونڈ میں میز کرسیاں سج گئیں، کسی نے لکڑی کے پھٹّے رکھ کر اوپر قالین بچھا لئے، کسی نے رنگین چارپائیاں رکھ کر مزید کشش پیدا کرنے کی کوشش کر لی، کسی نے سادگی قائم رکھی، کسی نے پیسہ لگا کر ماحول کو دلکش بنانے کی ٹھانی۔ سادہ یا پُر کار، ڈھابے بنے بے شمار۔ رہ گئی بات چائے پینے والوں کی ، سو اُن کی کمی نہیں۔ جہاں کسی نے ڈھابہ بنایا قوم سینہ گزٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرتی وہاں جا پہنچی۔ اور پھر چل سو چل۔چائے کے ڈھابوں پرابتدا تو چائے سے شروع ہوئی ہوگی، چائے کے دیوانوں کا رجحان دیکھتے ہوئے کسی نے ساتھ پراٹھے کا بندوبست شروع کر دیا، کسی نے تو باقاعدہ کھانے کی کہانی کا آغاز کر لیا۔ ڈھابے کی جو اوقات تھی، اُسی مزاج کے گاہک بھی آنے لگے۔
لاہور ’’ٹی ہائوس‘‘ کی رودادوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چائے خانے دراصل ’’دانش کدے‘‘ تھے، جہاں بڑے نامور لوگ آپس میں علم و حکمت کی باتیں بانٹا کرتے تھے۔ مگر اب چائے خانوں پر چلے جائیں ، آپ کو زیادہ تعداد نوجوانوں کی دکھائی دے گی۔ دو یا تین نوجوان بھی ہیں تو بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تینوں اپنے اپنے موبائل پر سوشل میڈیاکے سمندر میں غوطہ زن ہیں۔ بظاہر اکٹھے بیٹھے ہیں، دراصل ہر کوئی اپنی دنیا میں گم ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اِ ن ڈھابوں میں چائے کے اکثر سودائی سیگریٹ کے دلدادہ بھی ہیں، نوجوان طلباء مسلسل سیگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ شام کے وقت پراٹھے کھانے کی عادت کس قدر نقصان دہ ہے، اِس کا اندازہ کچھ عرصہ بعد ہو گا۔ پراٹھا کسی زمانے میں صرف صبح کے وقت ہی کھایا جاتا تھا ، اُس کے بعد سارا دن انسان مختلف مصروفیات میں جُتا رہتا ہے، یوں اُسے بھوک بھی کم لگتی ہے اور پراٹھا ہضم بھی ہو جاتا ہے۔ رات کو آٹھ دس بجے پراٹھا کھا کر سو جانے سے معدہ پر کتنے بُرے اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کا احساس اور خیال بعد میں آئے گا۔
کہنے کو تو چائے پی جاتی ہے، مگر اس کے استعمال کی کئی اقسام ہیں، اوّل یہ کہ مہمان آجائے تو چائے لازمی ہے، یہ مہمان کی تکریم کا تقاضا ہے کہ کچھ کھلایا پلایا جائے، اس کے لیے سب سے معروف مشروب چائے ہی قرار پاتا ہے، بلکہ مہمان سے پوچھنے کو بھی ’’چائے پانی‘‘ پوچھنا ہی کہا جاتا ہے۔ دوم یہ کہ عادت بن جاتی ہے، صبح ناشتہ اور شام کو ٹی ٹائم۔ سوم یہ کہ چائے کو دانشمندی کا سرچشمہ جانتے ہوئے پینا۔ یعنی آپ چائے پی رہے ہیں اور یہ خیال بھی کر رہے ہیں کہ چائے کے دوران آپ کے خیالات بہت بلند اور دُور اندیش دکھائی دیتے ہیں، آپ کا تخیل مائل بہ پرواز ہوتا ہے۔ اِس ضمن میں پھر دھیان شاعر، ادیب، دانشوروں کی طرف جاتا ہے، کیونکہ یہ طبقہ تو چائے کا باقاعدہ ’نشئی‘ کہلا سکتا ہے۔
یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ اپنی یہ نوکر شاہی ( جو کہ عقلِ کُل کے مقامِ عالیہ پر فائز ہے) چائے کو کس انداز میں لیتی ہے۔ دفتری اوقات میں تو وہ اُن لوگوں کو چائے پلاتے ہیں جن کو مناسب جانتے ہیں، کیونکہ سائل تو اِس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ہے، اور جس کو کسی بڑے افسر نے چائے پلا دی وہ فخر سے سب کو بتاتا اور جتاتا ہے۔ یہ نوکر شاہی شام کو اپنے وسیع سرکاری لان میں چائے پیتے ہوئے خود کو یقیناً افلاطون کے ہم پلہ سمجھتے ہوں گے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ سیاستدان اور مصروف کاروباری لوگ (جن میں ڈاکٹر بھی شامل ہیں) شام کی چائے پیتے کس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں؟ امکان یہی ہے کہ یہ لوگ چائے کو صرف چائے ہی جانتے ہیں، اُس سے کسی قسم کی دانائی یا دانشوری کا تاثر لینے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی دماغ پر اس قدر اضافی بوجھ ڈالتے ہیں جو اُن کی سیاست یا پیشے یا کاروبار میں خلل اندازی کر سکے ۔ کیونکہ اِن لوگوں کا دانائی اور دانشوری سے تعلق بھی کوئی نہیں بنتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button