ColumnRoshan Lal

بیرونی سرمایہ کاری ایکٹ 2022 .. روشن لعل

روشن لعل

 

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے انتہائی عجلت میں پاس ہونے والا بیرونی سرمایہ کاری(ترقی و تحفظ) بل ، صدر مملکت عارف علوی کے بلا تاخیر کیے گئے دستخطوں کے بعد باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔ پاکستان جیسا ہر ملک بیرونی سرمایہ کاری کے وسیلے سے مستفید ہو کر اپنی معیشت بہتر بنانے کا متمنی ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری ایکٹ بننے کے بعد اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ نے اپنی معیشت بہتر بنانے کی تمنا کے تحت یہ قانون بنایاہے تو وہ سمجھ لے کہ یہ بات مکمل سچ نہیں ہے۔ اس قانون کا نام بیرونی سرمایہ کاری(ترقی و تحفظ) ہونے سے تاثر تو یہ ابھرتا ہے کہ اس کا مقصد نئے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا ہے مگر اس کا پس منظر جاننے کے بعد یہ لگتا ہے جیسے کسی نئے کو مطمئن کرنے کی بجائے اسے دہائیوں پہلے یہاں آنے والے سرمایہ کاروں کے تحفظات دور کرنے کے لیے بنایا کیا گیا ہے۔ اس قانون کے قومی اسمبلی سے پاس ہونے پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ 30 برسوں کے دوران بلوچستان کے عوام کو وہاں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری سے 35 سے 40 بلین ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ اس قانون کے پاس ہونے پر وزیر قانون کی طرف سے صرف بلوچستان کا نام لیے جانے سے یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ بیرونی سرمایہ کاری ایکٹ بنیادی اور بلاواسطہ طور پر تو صرف بلوچستان سے متعلق ہے اور ملک کے دیگر حصوں سے فی الحال اس کا تعلق محض ثانوی اور بالواسطہ حد تک ہوسکتا ہے ۔
بیرونی سرمایہ کاری قانون 2022 کا پس منظر یہ ہے کہ 1993 میں بلوچستان حکومت نے ایک آسٹریلوی کمپنی کے ساتھ چاغی کے پہاڑوں میں سونے اور تابنے کی تلاش کا معاہدہ کیاجو بعد ازاں ریکو ڈک معاہدے کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ سونے اورتابنے کی تلاش کے منصوبے میں آسٹریلوی کمپنی کا حصہ 75 فیصد اور بلوچستان حکومت کا 25 فیصدہوگا۔ بلوچستان حکومت سے معاہدہ کرنے والی آسٹریلوی کمپنی نے منصوبے پر کوئی عملی پیش رفت کیے بغیر سال 2000 میں اسے ایک دوسری آسٹریلوی کمپنی کے ہاتھ فروخت کر دیا اور اس کمپنی نے 2006 میں اسے کنیڈین کمپنی بارک گولڈ (Barrick Gold) اور چلی کی فرم آنٹوفاگاسٹا کی شراکت میں ٹیتھیان کاپر کمپنی( TCC) کے نام سے بننے والے کنسورشیم کو بیج دیا۔ بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر معاہدہ کرنے والی پہلی دونوںکمپنیاں وہاں ایک دھیلہ خرچ کیے بغیریہ معاہدہ آگے فروخت کرتے ہوئے لاکھوں ڈالر کما کر چلتی بنیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کا معاہدہ جب دو جگہ بک چکا تو پھر اسے 2006 میںاس
اعتراض کے تحت بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا کہ یہ پاکستان میں نافذ قوانین سے متصادم ہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے اس جواز کو رد کرتے ہوئے معاہدے کو جائز قرار دے دیا۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد بارک گولڈ اور آنٹو فاگاسٹا کمپنیوں پر مشتمل کنسورشیم نے بلوچستان حکومت کو کان کنی کے لیے لیز جاری کرنے کی درخواست دی جسے صوبائی حکومت نے رد کر دیا۔ بلوچستان حکومت کے انکار کے بعد TCCکنسورشیم یہ معاملہ ورلڈ بنک کی عالمی عدالت انصاف میں لے گیا اور پاکستان پر ہرجانے کا دعویٰ کر دیا۔ یہ مقدمہ ابھی ورلڈ بنک کی عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے جوڈیشل ایکٹوازم کے دور میں سپریم کورٹ نے بلوچستان میں سونے اور تانبے کی تلاش کی غرض سے کیے گئے معاہدے کو بلوچستان حکومت کا اپنی حدود سے تجاوز قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔
ریاست پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں افتخار محمدچودھری کے جوڈیشل ایکٹوازم کا دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ہمارے عدالتی فیصلوں کی بے توقیری کو روکنا ممکن نہ ہو سکا اور وہاں پاکستان پرجرمانہ عائد کردیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان عالمی عدالت سے کچھ رعایتوں کا طالب ہوا ،ان رعایتوں سے مستفید ہونے کے لیے پاکستان کو ایک معینہ مدت میں ہرجانے کی رقم کا 25 فیصد بطور زرضمانت بنک میں جمع کروانے کا کہا گیا مگر ہمارے حکام ایسا کرنے بھی ناکام رہے اور اس کے بعد دو کمپنیوں کے جس کنسورشیم کے خلاف ہماری عدالتوں نے فیصلہ دیا تھا اس کنسورشیم سے ہم عدالتوں سے باہر معاملات طے کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ٹی سی سی نے ان شرائط پر عالمی عدالت کی طرف سے عائد ہرجانے سے دستبرداری کا اقرار کیاکہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کی تلاش کے منصوبے پر اسے ایک نئے معاہدے کے تحت کام جاری رکھنے دیا جائے گا اور اس نئے معاہدے کی نہ صرف پارلیمنٹ توثیق کرے گی بلکہ عدالتیں بھی جوڈیشل ایکٹوازم کی تاریخ نہیں دہرائیں گی۔ اس کے بعد پہلے تو سپریم کورٹ نے ٹی سی سی سے کیے گئے نئے معاہدے کو قانونی قرار دیا اور پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے بیرونی سرمایہ کاری (تحفظ و ترقی) ایکٹ 2022 کے تحت اسے تحفظ فراہم کیا۔
نئے ریکوڈک معاہدے کے مطابق چلی کی کمپنی آنٹوفاگاسٹا900ملین ڈالر وصول کر کے اس منصوبے سے الگ ہوگئی ہے اور اس کمپنی کے شیئر پاکستانی سرمایہ کاروں کے حصے میں آئے ہیں۔ ریکو ڈک کے پرانے معاہدے میں بیرونی سرمایہ کار کمپنی کا حصہ 75 اور بلوچستان حکومت کا 25 فیصد تھا جبکہ نئے معاہدے کے مطابق کینیڈین کمپنی بارک گولڈ کے شیئر 50 فیصد، بلوچستان حکومت کے25 فیصد اور 25 فیصد ہی ریاست پاکستان کے کان کنی اور معدنی وسائل سے متعلق مختلف محکموں کے ہیں۔ بلوچستان کی اسمبلیوں سے باہر قوم پرست جماعتوں اور خاص طور پر وفاقی حکومت کے اتحادیوں اختر مینگل اور مولانا فضل الرحمٰن نے نئے ریکوڈک معاہدے اور بیرونی سرمایہ کاری ایکٹ 2022 پر سخت تحفظات کا اظہار کیاہے۔ ان تحفظات میں سرمایہ کاری ایکٹ اور نئے ریکو ڈک معاہدے کو صوبائی حقوق کے منافی اور 18 ترمیم کے برعکس قرار دیا جارہا ہے۔ ان تحفظات کے جواب میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو بیرونی سرمایہ کاری ایکٹ2022 اپنے صوبائی استحقاق کے برعکس لگ رہا ہے، ان کا تعلق ریکوڈک معاہدے کے خاص پس منظر سے ہے۔ اس خاص پس منظر کی وجہ سے وفاقی حکومت کو ایسی قانون سازی کرنا پڑی جس کا اطلاق صرف ریکوڈک معاہدے تک محدود ہوگا۔ وفاقی وزیر قانون نے بلوچستان کے سیاستدانوں کو یہ تسلی بھی دی ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری ایکٹ کی جن شقوں پر تحفظات کا اظہار کیاجارہا ہے ان کا اطلاق ریکوڈک معاہدے کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری کے کسی بھی دوسرے منصوبے پر نہ ہو اس کے لیے حکومت اس ایکٹ میں ترامیم کے لیے تیار ہے۔
وفاقی وزیر قانون کی مذکورہ وضاحت اور ریکو ڈک کے نئے معاہدے کا پس منظر جاننے بعد یہ مناسب لگتا ہے کہ تحفظات کا اظہار کرنے والے وفاقی حکومت کی مجبوریوں کا احساس کرتے ہوئے اس کی نیت پر شک کرنے کی بجائے جلد از جلد ایسی ترامیم سامنے لائیںکہ جن کی منظوری سے بیرونی سرمایہ کاری ایکٹ پر ان کے اعتراضات دور ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button