ColumnNasir Sherazi

اذیت ناک ایام .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

سنتے آئے ہیں، انداز بیاں بات بنا دیتا ہے، ورنہ دنیا میں کوئی بات ،نئی بات نہیں، نئی بات اگر تھی بھی تو فقط اتنی کہ کئی ارب روپئے کے زیورات اونے پونے گھر لے جانے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ میڈیا میں اس کا پوسٹ مارٹم آئندہ پندرہ روز تک جاری رہنا تھا کہ یہ زیورات تخمینہ کے لیے توشہ خانہ بھیجنے کی بجائے پہلے وزیر اعظم ہائوس لائے گئے پھر اپنے ہی لوگوں نے ان کی قیمت مقرر کی جس کے مطابق انہیں ہتھیا لیا گیا۔ قوائد سے روگردانی انہوں نے کی جو ریاست مدینہ بنانے چلے تھے اور بات بات پر جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیتے تھے ،پر اس ڈکیتی پر پردہ ڈالنے اور عوامی توجہ ہٹانے کے لیے میڈیا کو ایک نیا موضوع دیا گیا ہے کہ اب اسمبلیاں 23 دسمبر کو توڑ دی جائیں گی۔ لگتا ہے اسمبلیاں لوہے کی بنی ہوئی ہیں جو کئی ماہ سے توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے مگر ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہیں، ہمراہ دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس لیے بٹھائے گئے تھے کہ کچھ تو نئے پن کا احساس ہو اور یقین کر لیا جائے کہ تحریک انصاف صرف اپنا وزن بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ اسمبلیاں توڑنے میں سنجیدہ ہے۔ یہ سنجیدہ کام فقط دو گھنٹے میں ہو سکتا ہے، اس کیلئے متعدد مرتبہ تاریخیں دینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے، یہ بات میں اب راز نہیں۔ ایوان صدر کے ذریعے ایک بند دروازہ کھلوانے کی بار بار کوشش کی جاری ہے جو شاید اب نہ کھل سکے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب ایک سستا نسخہ ہے، لہٰذا طویل عرصہ تک اب یہی ترجیح رہے گا، ورنہ کم از کم بات مینار پاکستان سے شروع ہو کر ڈی
چوک اسلام آباد تک جاتی تھی، دستیاب وسائل اور افرادی قوت سے اب صرف لبرٹی میلہ لگایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ کچھ اور ممکن نہیں۔ سیاسی، اجتماع اور الیکشن میں قیمے والے نان یا بریانی نہ ہو تو مزہ ادھورا رہ جاتا ہے، دونوں کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے، نان ہو یا ایک پلیٹ بریانی دونوں کی کم از کم قیمت دو سو روپے ہو چکی ہے۔ بریانی میں مری ہوئی مرغی اور قیمے والے نان میں مینڈک کا قیمہ استعمال کرنے کی خبریں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اس نیک کام میں گدھے کا گوشت بھی استعمال کیا جاتا رہتا ہے۔ ایک ریلی یا جلسے میں کروڑوں روپئے کھابوں کے لیے چاہئیں۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں جنرل باجوہ کو ایک مرتبہ پھر تنقید کا نشانہ بنایا۔ آج کل سب سے آسان تنقید ان پر کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ اپنی آئینی و قانونی پابندی کے سبب دو برس خاموش رہیں گے۔ اپنے اوپر کسی حملے، کسی پھبتی کا جواب نہیں دے سکتے۔
پرانا مردہ اکھیڑ کر ایک مرتبہ پھر سر بازار لایا گیا کہ غیر ملکی طاقت کے ایما پرجنرل باجوہ نے ہماری اچھی بھلی چلتی حکومت کو گھر بھیج دیا۔ وہ ازسرنو یہ الزام لگانے سے پہلے بھول گئے کہ گذشتہ ماہ اس سے دست کش ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ عین ممکن ہے فوج نے یہ سازش نہ کی ہو لیکن وہ اسے روک تو سکتے تھے۔ عمران خان نے اس بات پر سخت غصے کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف کی قیادت اور اس کے ارکان اسمبلی کے خلاف کرپشن کی فائلیں کیوں تیار کی گئی ہیں اور ان کی گندی ویڈیو کیوں بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے کرپشن کرنے والوں اور ان ویڈیوز کے کرداروں کے حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا گویا انہیں کالے کرتوتوں میں ملوث افراد سے ہمدردی ہے۔ ان کی فائلیں تیار کر کے ان کی ویڈیوز بنا کر بہت ظلم کیا گیا۔ ہمیشہ کی طرح ایک دعویٰ کیا گیا کہ ہمیں سب پتا تھا، سب پتا تھا تو پھر عمارت زمین بوس ہونے کا انتظار کیوں کیا گیا، کیا صرف اس شوق کے سبب کہ جب اقتدار چلا جائے گا تو پھر اس کی میت کے سرہانے کھڑے ہوکر بین کیا جاسکے وہ جو چند ارکان قومی اسمبلی، پرانے ساتھی ناراض ہوئے انہیں منانا چنداں مشکل نہ تھا۔ ا ن کے شکوے فنڈز نہ دینا اور ملاقات کے لیے لمبی لمبی تاریخیں دینے کے حوالے سے تھے، لیکن اس وقت نشہ اقتدار اس قدر تھا کہ یقین کامل، ہمیں کوئی چھوڑ کر جانے کا تصور نہیں کر سکتا، جو جائے گا اُس کا سیاسی کیر یئر ختم ہو جائے گا۔ جانے والے ایسے گئے کہ حکومت ہی ختم کر گئے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے خطاب میں ایک دل چسپ انکشاف بھی کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے اتنی عزت نہیں دی جتنی حکومت جانے کے بعد دی ہے۔ تو عرض ہے کہ انسان دنیا میں سب کچھ عزت کمانے کے لیے ہی کرتا ہے اگر پہلے سے زیادہ عزت حزب اختلاف میں آنے پر ملی ہے تو اسے سنبھالیں، خدا کا شکر ادا کریں حصول اقتدار کی جد وجہد کیوں۔ اگر پھر اقتدار ملا تو عزت کم ہوجائے گی، یہ گھاٹے کا سودا ہوگا، ویسے اب اقتدار تو ایک خواب ہے، خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، کچھ خرچ بھی نہیں آتا۔
خان صاحب کے پاس یوں تو کئی سوالوں کا جواب نہیں لیکن ان کی مخالف سیاسی جماعتیں ایک سوال بار بار پوچھ رہی ہیں کہ جنرل باجوہ کے اقدامات سے اگر انہیں بے تحاشا نقصان پہنچا ہے تو پھر وہ انہیں غیر معینہ مدت کے لیے توسیع کی پیشکش کیوں کرتے رہے، یقیناً صرف اقتدار کے لیے، بصورت دیگر تو انہیں ان کے سائے سے بھی بچنا چاہیے تھا، خان نے حکومت کی تمام خامیوں، تمام برائیوں، تمام کوتاہیوں اور تمام ناکامیوں کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو ٹھہرایا ہے بس اب صرف ایک کسر رہ گئی ہے۔ کہہ دینا چاہیے کہ آخری شادی بھی انہوں نے زبردستی کرائی۔ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو ٹھیک چند ماہ بعد کہا گیا کہ ہمیں ایک برس دے دو، پھر کہا گیا دو برس اور دو برس کے بعد ہاتھ اٹھا دیئے گئے کہ اگلی ٹرم ملے گی توہم کچھ ڈیلیور کر سکیں گے پھر دن رات ایک پیچ پر ہونے کا راگ قومی نغمے کی صورت اختیار کر گیا، اسی موقعے پر کسی ذہین فطین نے ایک شعر میں سرکار کی پرفارمنس کا خلاصہ پیش کیا کہ وہی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انہوں نے مٹی کے مادھو میں جان ڈالنے کے لیے بہت کچھ کیا کاش انہیں ادراک ہوتا کہ صرف پانی کی مشکیں بھر بھر ڈالنے کی ضرورت اپنی جگہ، بیج کی اہمیت اس سے دوچند ہوتی ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ صحت مند اور محکمہ زراعت سے تصدیق شدہ بیج استعمال کریں۔ اچھا بیج موسمی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھتا ہے اور اچھی فصل کا ضامن ہوتا ہے، ناقص بیج استعمال کریں تو وقت کے ساتھ ساتھ کھاد اور پانی سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے، نتیجہ قحط کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ آج ہم سیاسی، اقتصادی اور معاشی قحط میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کسی طرف سے خیر کی خبر نہیں مل رہی، اس پر اسمبلیوں سے نکلنے اور حکومت کو گرانے کا شوق بہت مہنگا پڑے گا۔ تحریک انصاف کی حکمت عملی تو سامنے آچکی ہے اب پی ڈی ایم حکومت کے تدبر کا امتحان ہے، وہ دیگر سیاسی جماعتوں اور گروپوں کے ساتھ ماضی کی تلخیاں بھلاکر ملک اور اس کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اسمبلیوں کو کس طرح بچا کر پارلیمنٹ کی مدت پوری کرتی ہے اور مناسب وقت پر انتخابات کا انتظار کرانے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر اچانک ہونے والے سیاسی حادثے کا الزام دوسروں کے سر تھوپ کر خود سرخرو ہونے کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ معاملہ اب مہینوں، ہفتوں کا نہیں، دنوں کا ہے لیکن یہ ایام محبان وطن کے لیے اذیت ناک ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button