Editorial

اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان

 

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جمعہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا ۔ اتحادی حکومت کے وزرا نے ردعمل میں فوراً اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا لیکن وزیراعظم محمد شہبازشریف نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے سیاسی استحکام کو ناگزیر قراردیاہے۔ بالآخر عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے قریب پہنچ چکے ہیں، قبل ازیں اسمبلی تحلیل کرنے کی تواریخوں میں تضاد اور پس پردہ ثالثی کی کوششوں کی وجہ سے امکان ظاہر کیا جارہاتھا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان ضرور برف پگھلے گی اور ایسی درمیانی راہ نکالی جائے گی جو دونوں کے لیے قابل قبول ہوگی مگر 23 دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان سے واضح ہوتا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنے فیصلوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں سیاسی بحران مزید بڑھے گا اور سیاسی و معاشی حالات مزید کشیدگی کی طرف جائیں گے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اپنے فیصلے کو درست اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں گردانتے ہیں مگر عوام پاکستان کی اکثریت اِس معاملے پر یکسر لاتعلق مگر اِس صورت حال سے پیدا ہونے والے گمبھیر مسائل میں اُلجھی ہوئی ہے کیونکہ معاشی اشارئیے معاشی صورت حال کو انتہائی مخدوش ظاہر کر رہے ہیں اور معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات مسلسل بڑھ رہے ہیں لیکن حکومت کی معاشی ٹیم ان خدشات کو غلط قرار دیتے ہوئے نفی کررہی ہے۔ملک کے حالات اور معاشی ٹیم کے دعوے میل نہیں کھاتے مگر تسلسل کے ساتھ خدشات کی نفی بھی کی جارہی ہے اور فوراً ہی معیشت کو لاحق خطرات بھی عوام کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں۔لہٰذا حزب اقتدار اور حزب اختلاف، دونوں ہی معیشت کی زبوں حالی اور پسے ہوئے عوام کے نام پر اپنے اپنے عزم پر ڈٹے ہوئے ہیں مگر عالم گیر اصول جاننے کے باوجود کہ سیاسی استحکام ہوگا تو ہی معاشی استحکام ملک میں آئے گا، دونوں طرف سے جمہوری دائو پیچ لڑائے جارہے ہیں۔اتحادی وفاقی حکومت مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحق ڈار کو بطور وزیرخزانہ لاکر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکی کیونکہ معاشی حالات ہی ایسے گمبھیر اور سیاسی استحکام کے ساتھ مستقل معاشی پالیسیوں اور امن و امان کا تقاضاکرتے ہیں مگر افسوس کہ سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہورہا کیونکہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنے موقف پر قائم ہیں۔طاقت کے حصول کی جنگ رواں ماہ ہی شروع نہیں ہوئی بلکہ قیام پاکستان کے فوری بعد اِس کا آغاز ہوگیا تھا، یہی وجہ ہے کہ کبھی جمہوریت کی جگہ آمریت نے لے لی اور کبھی جمہوریت پسندوں نے ہی جمہوریت پر شب خون مارا یا ناکامی پر جمہوریت پسندوں نے آمریت کو شب خون مارنے کی دعوت دے دی، لہٰذا قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان میں طاقت کے حصول کی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان،روزگار اور خوشحالی جیسے دل فریب نعرے ہمیشہ سے جمہوریت پسندوں کے پسندیدہ رہے ہیں کیونکہ عوام اِن نعروں پر ہر بار یقین کرلیتے ہیں یہ جاننے کے باوجود کہ آج تک انہی نعروں کی بنیاد پرخواب دکھاکر اقتدار حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ حصول اقتدار کےلیے سیاست دان ایسے معجزات قوم کو دکھادیتے ہیں کہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوںکو یقین نہیں ہوتا، ایک دوسرے کے خلاف جوش خطابت میں جس نہج پر پہنچ جاتے ہیں بسااوقات ناقابل یقین ہوتا ہے، مگر عوام کرکیا سکتے ہیں، کوئی قبروں کے نام پر اقتدار مانگتا ہے تو کوئی ایک دن میں ملک و قوم کی تقدیر بدل دینے کادعویٰ کرتا ہے، سیاسی جماعتوں کے منشور ہمارے معاشی اور زمینی حقائق سے دور تک میل نہیں کھاتے لیکن ہر بار منشور کو زیادہ لبھانے والا بناکر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام جلد متوجہ ہوں، آج عوام جس معاشی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں اور اِن کے لیے سفر زیست مشکل سے مشکل تر ہوچکا ہے، اِس کے باوجود حصول طاقت کے لیے میدان بھی سجا ہے اور دائو پیچ بھی آزمائے جارہے ہیں، لہٰذا جمہوریت پسندوں کا یہی طرز عمل عوام کو بدظن کررہا ہے کیونکہ جب طاقتوروں کی لڑائی میں ملک و قوم کو کسی بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اِس کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیا جاتا ہے جو پہلے ہی حصول اقتدار کی لڑائی میں نظر انداز ہوکر پس رہے ہوتے ہیں۔ ہماری ترجیحات ملک و قوم ہوتے تو آج ہم ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جن سے اب گذر رہے ہیں، چونکہ مقصد صرف اور صرف طاقت یعنی حصول اقتدار تھا لہٰذا یہ طویل جنگ 75سال سے جاری ہے اور اسی نے ملک کو معاشی، سماجی انحطاط کا شکار کیا ہے، بنیادی سہولتوں کے فقدان والے ملک میں آج بھی جمہوریت اور سیاست اوپر جبکہ ملک و قوم ترجیح میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ عمران خان اعلان کے مطابق جمعہ کے روز دونوں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، دوسری طرف اتحادی وفاقی حکومت پنجاب میں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہے، مرکز میں تبدیلی آئی اس کے بعد پنجاب میں قائد ایوان کے لیے سیاسی چالیں چلی گئیں،اب پھر پنجاب اسمبلی کو تحلیل سے بچانے کے لیے ایسی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے، پس گذارش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کا کس نے اور کب سوچنا ہے، روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، صحت، تعلیم، امن و امان سنگین بحران کی صورت اختیار کرچکے ہیں مگر حصول اقتدار کی جنگ پوری طاقت اور دائو پیچ کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button