ColumnM Anwar Griwal

لاہو ر کا پہلا نمبر، مبارک! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

زندہ دلانِ لاہور کو مبارک ہو کہ انہوں نے دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔پاکستان بھر سے تو پہلی پوزیشن لاہور پہلے بھی حاصل کرتا رہا ہے۔ جب شہروں کی صفائی اور سبزہ وغیرہ کے سلسلہ کا سالانہ مقابلہ ہوتا ہے، تو عموماً لاہور معرکہ سَر کر لیتا ہے۔ پاکستان کا تاریخی شہر بہاول پور بھی کئی مرتبہ یہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ بہاول پور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی شبانہ روز محنت سے شہر کی صفائی مثالی ہوتی ہے۔ مگر جب درمیان میں لاہور یا کوئی اور شہر کامیابی کا تاج اپنے سر پر سجا لیتا ہے تو تشویش ضرور ہوتی ہے۔
عثمان بزدار(اِس دور کی تاریخ کو حیرت سے پڑھا جائے گا کہ ترقی یافتہ زمانہ اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی اِس قسم کے نااہل وزیراعلیٰ پنجاب جیسے صوبے پر مسلط رہے، اور لیڈر کی طرف سے مسلسل شاباش کا سرٹیفکیٹ ملتا رہا) کے زمانے میں اورنج ٹرین کے سٹیشن کے گرد وپیش بھی کوڑا کرکٹ اور کچرے کے ڈھیر ہوتے تھے، تب بھی لاہور کو صفائی اور سبزے میں پہلا نمبر دے دیا گیا تھا۔ بات صاف سمجھ آتی تھی کہ جب حکومت لاہور کے ہاتھ میں ہے تو پوزیشن ہاتھ سے کیوں جانے دیں۔ اِس عمل کو دھاندلی نہیں ، دھونس کہا جاتا ہے۔ اور جس کی لاٹھی ہوتی ہے، تو وہ بھینس کسی اور کے حوالے بھلا کیوں کرے گا؟
اب صفائی یا سبزے یا آلودگی کا فیصلہ عالمی سطح پر ہوا ہے، اِس لیے لاہور کے حکمران نہ فیصلے میں مداخلت کر سکے، نہ فیصلہ کرنے والے پر دھاندلی کرنے کا الزام لگا سکے، نہ دھونس کی کوئی صورت بنی کہ زبردستی فیصلہ تبدیل کر دیا جاتا۔ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ پہلا نمبر تو ہے، گویا ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟‘‘ والی کیفیت ہے۔ اب دنیا بھر کے شہروں میں لاہور کو آلودگی میں پہلا نمبر الاٹ کیا گیا ہے، (لاہور یہی اعزاز پہلے بھی حاصل کر چکا ہے) البتہ سیکنڈ پوزیشن بھی پاکستان نے ہاتھ سے نہیں جانے دی ، کراچی دوسرے نمبر پر رہا۔ آلودگی میں سب سے اہم ’’سموگ‘‘ قرار پائی۔ لاہور ہائی کورٹ نے آلودگی اور سموگ کے خلاف انقلابی اقدام کرتے ہوئے ہفتہ میں تین روز سکول اور دفاتر وغیرہ بند کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ظاہر ہے کوئی محکمہ یا افراد وغیرہ تو توہینِ عدالت کے ڈر سے عدالتِ عالیہ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے اور کروانے کے پابند ہیں۔ مگر خود ماحول زیادہ پڑھا لکھا نہیں، وہ تو اخبار وغیرہ بھی نہیں پڑھتا ، عدالت کے فیصلے پر کہاں توجہ دے گا۔ اگر ہفتہ میں تین روز تک چھٹیاں کرنے سے بھی آلودگی میں کمی واقع نہ ہوئی تو پھر اگلا اقدام بھی یقیناً عدالت نے سوچ رکھا ہوگا۔ یوں اگلا فیصلہ بھی جلد ہی متوقع ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے ناروے کی ایک کمپنی سے معاہدہ کی منظوری دے دی ہے، جس کے مطابق لاہور کے کچرے سے بجلی بنائی جائے گی۔ روزانہ 1200ٹن سالڈ ویسٹ سے 55میگا واٹ بجلی تیار کی جائے گی، اس پراجیکٹ پر 250ملین ڈالر سرمایہ کاری ہوگی، وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اِس پراجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی صنعتوں کو دی جائے گی۔ صوبائی حکومت ویسٹ ٹُو انرجی کو قواعد کے مطابق معاونت فراہم کرے گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لاہور میں 40ملین ٹن ویسٹ پہلے سے موجود ہے، روزانہ پانچ ہزار ٹن کوڑا جمع ہو رہا ہے۔ یعنی ناروے کی کمپنی کو کام کرنے کیلئے مناسب مواد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گویا اب لاہوریوں کو ہمت سے کام لے کر زیادہ سے زیادہ کوڑا کرکٹ مہیا کرنا چاہیے ،تاکہ کمپنی کو خام مال کی دستیابی میں کمی نہ آئے۔ کمی آنے کا نقصان یہ ہوگا کہ کچرے سے بنائی جانے والی بجلی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہوسکتا ہے، جس سے صنعت کا پہیہ رک جائے گا اور ملک ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں رہ سکے گا۔ یقیناً لاہوری بھائی اپنی حکومت اور ناروے کی کمپنی کو مایوس نہیں کریں گے۔
لاہور کو سمارٹ سٹی بنانے کا منصوبہ بھی پنجاب حکومت کے مستقبل کے پروگرام میں شامل ہے۔ اس غرض کیلئے وزیراعلیٰ نے آغا خان فائونڈیشن کی خدمات حاصل کرنے کی ٹھانی ہے۔ یعنی آغا خان فائونڈیشن ’’کلچرل سروسز سمارٹ سٹی پراجیکٹ ‘‘ کیلئے معاونت فراہم کرے گی، وزیراعلیٰ نے اس ضمن میں فیزیبلٹی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ موبائل ایپ کے ذریعے اربن سروسز مہیا کی جائیں گی۔ ایک غیر سرکاری مگر اہم خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ لاہور میں مصنوعی بارش برسانے کیلئے دو کروڑ روپے کی خطیر رقم درکار ہے، ساتھ یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ اگر بارش (اصلی یا نقلی)نہ برسی تو لاہور میں پائی جانے والی اور پیدا ہونے والی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا، سانس، گلے، پھیپھڑوں اور دیگر بیماریاں وبا بن کر عوام اور حکومت کیلئے وبالِ جان بن جائیں گی۔
اب اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اگر پنجاب حکومت نے دو کروڑ روپے مصنوعی بارش پر خرچ کر دیئے تو صوبائی اسمبلی کا مسلسل چلنے والا اجلاس کیسے جاری رہ سکے گا؟ پنجاب کی سیاسی بحران کے باوجود پھیلتی کابینہ کے اخراجات کون پورے کر ے گا؟ انتظامی امور کو نمٹانے کیلئے پیسے کیسے بچیں گے؟ وزراء، مشیروں اور بیوروکریسی وغیرہ کی گاڑی کیسے چلے گی؟ نہ بھئی نہ!! آلودگی کو ہم عوام برداشت کر لیں گے، بیماریوں سے نمٹ لیں گے، یا بھگت لیں گے، ہم ہرستم گوارا کر لیں گے لیکن اپنے محبوب اور مقبول قائدین اور نمائندوں کے معمولات اور سہولیات میں خلل اور کمی ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔ حکومت کومصنوعی بارش جیسے فضول کاموں پر پیسے بالکل ضائع نہیں کرنے چاہئیںبلکہ پنجاب حکومت جلد صوبے کے شہروں کی صفائی ، آلودگی اور سبزے وغیرہ کا مقابلہ کروائے، پہلی پوزیشن تو لاہور کو ہی ملے گی، اس سے عالمی بدنامی کا داغ بھی دُھل جائے گا اور لاہوری بھی خوش ہو جائیں گے۔ کیونکہ اِس پوزیشن کا نتیجہ تو اپنے ہاتھ میں ہی ہوگا نا!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button