ColumnRoshan Lal

شہباز شریف ، ڈیلی میل اور پاکستان .. روشن لعل

روشن لعل

 

ایک عرصہ سے بدعنوانی کے الزامات کا مختلف عدالتوںمیں سامنا کرنے اور میڈیا ٹرائل بھگتنے والے میاں شہباز شریف کیلئے یہ خبریقیناً راحت کا باعث بنی ہوگی کہ برطانوی اخبار ڈیلی میل نے ان پر لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات واپس لے کر معافی مانگ لی ہے۔ ڈیلی میل کے معافی مانگنے کی خبر ان پاکستانیوںکیلئے شاید کچھ زیادہ معانی نہیں رکھتی جو شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دورمیں بری طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔اگرچہ موجودہ حالات میں اس خبر سے شہباز شریف کو سیاسی فائدہ پہنچنے کا کچھ زیادہ امکان نہیں لیکن اگر ڈیلی میل معافی مانگنے پر مجبور ہونے کی بجائے برطانوی عدالت میں سرخرو ہو جاتا تو عین ممکن ہے کہ یہ امر وزیر اعظم پاکستان کیلئے شدید سیاسی نقصان کا موجب بنتا۔ شہبازشریف سے معافی مانگنے کے بعد صرف ڈیلی میل ہی نہیں بلکہ عمران خان اور ان کی حکومت میں برطانوی اخبار کی خبر کا مبینہ محرک بننے والے شہزاد اکبر جیسے لوگ بھی غلط ثابت ہوئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ میاں شہباز شریف کے سچا ثابت ہونے کے بعد بھی انہیں کسی قسم کا سیاسی فائدہ پہنچنے کی امید نہیں جبکہ عمران خان کے غلط ثابت ہونے کے باوجود یہ سوچا جارہا ہے کہ انہیں سیاسی نقصان پہنچنے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔یہ اندازے جس قسم کے اخلاقی معیار کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ صرف ہمارے معاشرے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرموجود المیہ ہے۔
برطانیہ کے ڈیلی میل کو ہی دیکھ لیں کہ اس کی خبروں کے وسیع پیمانے پر ناقابل اعتبار سمجھے جانے کے باوجود اس کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخباروں میںہوتا ہے۔ ڈیلی میل کے معیار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دی فیکچوئل (The Factual )نامی بلاگ چلانے والوںکے مطابق انہوں نے دنیا کے خبریں جاری کرنے والے 240 ادارے منتخب کر کے ان میں سے ہر ایک کی 1000 خبروں کے معیار کے متعلق ایک سروے کرایا،اس سروے میںان اداروں کی قابل اعتبار سمجھی جانے والی خبروں کی اوسط شرح 62 فیصد تھی اس میں ڈیلی میل کی صرف 39 فیصد خبروں کو قابل بھروسہ تصور کیا گیا۔ اس سروے کے نتائج سامنے رکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آج کل دنیا میں کس قسم کی سیاست اور صحافت فروغ پذیر ہے۔ اس ایک ہی قسم کی سیاست اور صحافت کا بد نما امتزاج ڈیلی میل کی اس خبر کی اشاعت کا محرک بنا تھا جس کے ذریعے شہباز شریف کو براہ راست اور پاکستان کو بالواسطہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔
ڈیلی میل کی جولائی 2019 کی ایک اشاعت میں ڈیوڈ روز کے توسط سے یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ برطانیہ نے پاکستان کو زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے جو رقم دی اس میں سے میاں شہباز شریف نے بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب اس طرح سے خرد برد کی کہ اس کا فائدہ ان کے خاندان کے لوگوں نے اٹھایا ۔ میاں شہبازشریف پر کرپشن کے الزامات پر مبنی’ ڈیلی میل‘‘ کی کہانی کے ہر پہلو پر یہاں ڈھیروں تبصرے کیے گئے ۔ ان تبصروں میں کچھ مبصروں نے میاں شہباز شریف کیلئے سخت ترین الفاظ استعمال کیے اور کچھ انتہائی نرم گوشے ظاہر کرتے پائے گئے۔ ڈیلی میل کی کہانی کے ضمن میں میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے متعلق میڈیا میں جو کچھ بھی کہا گیا یہاں اس کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہاں ضرورت اس بات کا ذکر کرنے کی ہے جسے معروف میڈیا پرسنز نے بری طرح نظر انداز کیا۔ جس بات کو یہاں نظر انداز کیا گیاا اس کا تعلق ’’ ڈیلی میل‘‘ کی اس پالیسی سے ہے جس کے تحت یہ اخبار اس امداد کو ہدف تنقید بناتا رہتا ہے جو برطانوی حکومت پسماندہ اور ضرورت مند ملکوں کوفراہم کرتی ہے۔ ڈیلی میل کی میاں شہباز شریف کے متعلق جھوٹ ثابت ہوچکی کہانی میں بھی ڈیوڈ روز نے یہی کہاتھا کہ ان کا اخبار برطانوی حکومت کے سالانہ ریونیو کا 0.7 فیصد حصہ ضرورت مند ملکوں کیلئے مختص کیے جانے کو اسی جواز کے تحت چیلنج کرتا رہتا ہے کیونکہ برطانیہ کے ٹیکس دہندگان سے وصول کیا گیا پیسہ
امداد حاصل کرنے والے ملکوں میں انتہائی بے رحمی سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ میاں شہباز شریف اور ان کے ترجمانوں نے جہاں’’ ڈیلی میل‘‘ کے عائد کردہ کرپشن کے الزام کو رد کیا وہاں یہ بھی کہا تھاکہ ڈیوڈ روز کو اس کی کہانی کاتمام تر مواد عمران خان کی حکومت نے فراہم کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ زیادہ بہتر ہوتا اگر عمران حکومت ڈیوڈ روز کو مواد فراہم کرنے کی بجائے پاکستان میں ہی نیب کے ذریعے کوئی نیا ریفرنس تیار کرا لیتے۔ اگرچہ ایسا کرنے سے پاکستان میں شہباز شریف فیملی کے خلاف ایک نیا کیس کھل جاتا مگر برطانیہ میں ان لوگوں کے مئوقف کو تقویت نہ ملتی جو پاکستان جیسے غریب اور آفت زدہ ملکوں کو دی جانے والے امداد کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ ڈیلی میل نے برطانوی عدالت میں اپنی سٹوری جھوٹ تسلیم کرنے کے بعد نہ صرف شہباز شریف سے معافی مانگی بلکہ اس سٹوری میں لگائے گئے الزامات سے دستبردار ی کا اعلان کرتے ہوئے اسے اپنے ریکارڈ سے بھی حذف کردیا ۔ ایسا کرنے کے بعد بھی یہ اخبار اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں کو امداد نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ یہ امداد مستحق لوگوں تک پہنچنے کی بجائے ہڑپ کر لی جاتی ہے۔شہباز شریف کے وکلا نے اپنے موکل پر لگائے جانے والے ڈیلی میل کے الزامات تو غلط ثابت کروا دیئے لیکن کیا وہ اس اخبارکے پاکستان جیسے ملکوں کو دی جانے والی امداد کے ہڑپ کیے جانی جیسا موقف مسترد نہیں کروا سکے۔ شہباز شریف نے تو ڈیلی میل کے الزامات کی حد تک اپنا دامن کرپشن کے الزامات سے صاف کروا لیا لیکن اس اخبار کے پاکستان جیسے ملکوں کے دامن پر لگائے جانے والے داغ ابھی تک نہیں دھل سکے۔
ویسے ڈیلی میل کے معافی مانگنے پر شہباز شریف چاہے جتنے بھی مطمئن ہوں مگر ان کے مخالف غیر مطمئن ہو کر اب بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ برطانوی اخبار کی خبر جھوٹ ثابت ہونے پر اس کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیوں دائر نہیں کیا جارہا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ قبل ازیں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی میلانیا اور پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ سٹیو مورگن جیسی شخصیات اپنے خلاف لکھی گئی ’’ ڈیلی میل‘‘ کی کہانیوں کو عدالت میں چیلنج کر کے نہ صرف اس اخبار کو معافی مانگنے پر مجبور کیا بلکہ ہرجانے کی مد میں بھاری رقم بھی وصول کی۔
جو لوگ شہباز شریف کو ڈیل میل کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے پر اُکسا رہے ہیں وہ درپردہ عمران خان کی ہمدردی میں ایسا کر رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ حقیقت میں عمران خان کے ہمدرد ہیں تو انہیںکسی اور کو کچھ کرنے پر اُکسانے کی بجائے اپنے محبوب لیڈر سے یہ کہنا چاہیے کہ جس طرح شہباز شریف نے ڈیلی میل کے خلاف کیس دائر کیا اسی طرح وہ بھی بدعنوانی کے ان الزامات کو چیلنج کرتے ہوئے فنانشل ٹائم کے خلاف ہتک عزت کے ساتھ ہرجانے کا دعویٰ دائر کر یں جو الزامات اس اخبار نے کچھ ماہ قبل ان پر عائدکیے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button