ColumnNasir Sherazi

سیاسی فلم کا کلائمیکس .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

پاکستان فلم انڈسٹری کے زمانہ عروج میں فلمسازوں کے درمیان مقابلے کا رحجان تھا، اچھی سے اچھی اور جلد سے جلد فلم بنانے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔ مقابلے کی خواہش نے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے ہر حد سے گذر جانے کو جائز قراردے دیا تھا،بعض فلمسازوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایک ہی کہانی پر ایک ہی کاسٹ کے ساتھ بنائی ایسی فلمیں ایک ماہ کی قلیل مدت میں تیار ہوئیں۔ کم سے کم مدت میں فلم تیار کرنے کا ریکارڈ پندرہ دن کا ہے۔ پنجابی فلم کا نام تھا’’ کونج وچھڑگئی ڈاروں‘‘ اس کی ہیروئن اداکارہ نغمہ تھیں، اس زمانے کے فلمی رحجان کے مطابق ہیروئن اپنے زمانہ بچپن میں اپنے بھائی کے ساتھ میلہ دیکھنے آتی ہے اور بچھڑ جاتی ہے۔ مذکورہ فلم میں نغمہ میلے میں بچھڑ جاتی ہے تمام فلم پھر اسی کے گرد گھومتے گھومتے آگے بڑھتی ہے۔ اسی کہانی، اسی کاسٹ کے ساتھ ایک اور فلم ساز نے بھی فلم تیار کی، دونوں فلمیں ایک دوسرے کے مقابلے پر لگائی گئیں دونوں فلمیں اپنی لاگت بھی پوری نہ کرسکیں۔ اس قسم کی ایڈونچر کا انجام ایسا ہی ہونا تھا۔ فلم انڈسٹری کا بچہ بچہ یہ بات جانتا تھا سوائے ان دو فلم سازوں کے جو ایک دوسرے کی کاروباری رقابت میں یہ کام کررہے تھے۔
سیاسی میلہ گذشتہ چار برس سے جاری ہے، خدشہ ہے اس میلے میں گم ہونے والا شاید پھر کسی کو تمام تر تلاش کے باوجود نہ مل سکے۔ کہہ سکتے ہیں ایک سیاسی کونج اپنے غول سے بچھڑنے والی ہے۔
ریکارڈ ٹائم میں تیار ہونے والی سیاسی فلم ’’ اسمبلیاں توڑ دوں گا‘‘ کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی، ایک ماہ سے کھڑکی توڑ ہفتہ چل رہا تھا، فلم بین جوق درجوق کھینچے چلے آرہے تھے۔ مخالف گروپ نے اسی کہانی کو اسی کاسٹ کے ساتھ لیکر نئی فلم مقابلے میں لگادی ہے، فلم کا نام ہے ’’اسمبلیاں نہیں توڑیں گے’’ یہ پی ڈی ایم پروڈکشن کی کاوش ہے، نئی فلم نے پہلی فلم کا رش کھینچ لیا ہے، اب انصاف پروڈکشن والے سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ اچھا بھلا بزنس کرتی فلم اچانک کیوں بیٹھ گئی۔ اب عالم یہ ہے کہ ہال بھی پورا نہیں بھرتا، گیلری اور باکس تو پہلے بھی خالی ہی تھے۔ اس کلاس کے فلم بینوں کو یہ فلم پسند نہیں آئی تھی، لیکن عوامی کلاس نے اسے پذیرائی ضرور بخشی، انہی کے دم رونق میلہ قائم تھا۔ پی ڈی ایم پروڈکشن نے جو چال چلی وہ یہ تھی کہ انہوں نے فلم دیکھنے والوں کے لیے انٹرول میں کولڈ ڈرنک اور چپس کا پیکٹ مفت کردیا، پس اُدھر کا رش اِدھر آگیا، دونوں فلموں کی کہانی اور اداکار تو ایک جیسے ہی تھے، حتیٰ کہ ہیرو بھی ایک ہی تھا، فرق
صرف ڈائریکٹر کا تھا، ڈائریکٹر نے رسک لیا اور کامیاب رہا۔ مال تو انصاف پروڈکشن کے پاس بھی بہت ہے لیکن اُس میں خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ وہ صرف چائے بسکٹ پر یقین رکھتے ہیں، وہ بھی پلے سے نہیں، سرکاری خرچے پر، سیاسی فلمیں بنانے، انہیں چلانے اور کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لیے دل کھول کر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ کنجوسی کرنے سے اچھی فلم نہیں بنتی، بن جائے تو نہیں چلتی، سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔
اس دھندے میں ’’کم خرچ بالانشین‘‘کی سوچ رکھنے والوں کو یہ کام چھوڑ کر صرف پیری مریدی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کام میں نقصان کا احتمال نہیں ہوتا، مرید غریب سے غریب بھی ہوگا تو خالی ہاتھ نہیں حاضر ہوگا، جاتے ہوئے کچھ دے کر ہی جائے گا۔ اب تو سید وٹووں کے مرید ہونے لگے ہیں، تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سید زلفی بخاری اس سلسلے کے پہلے مرید ہیں، ان کی لیک ہونے والی آڈیو سے تصدیق ہوچکی کہ وہ وٹو خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو مرشد مان چکے ہیں، ان جیسے متمول دو چار مرید میسر آجائیں تو پھر کسی چیز کی حاجت نہیں رہتی۔ ہم آپ شاید یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ ہیں۔ ابھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، زمانہ ملاوٹ کا ہے، کوئی خالص شے دستیاب نہیں، اصلی ڈھونڈے سے نہیں ملتا، ہر طرف بناسپتی کا راج ہے، عجب گھڑی تھی، عجب
گھڑی ہے، یوں بکی ہے کہ ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ جیسے محاورے کا مطلب سمجھا گئی ہے، مالک کھلے دل کے تھے، دل پھینک تو تھے ہی، مال بہت سستابیچ گئے، اگر چور یہ قیمتی گھڑی چرا کر لے جاتے تو یقیناً کچھ مہنگی بیچتے۔
ماضی میں فلم کا رش ٹوٹ جانے پر درجن بھر تانگے لیکر ان پر فلم کے بڑے بڑے بورڈ لگاکر ڈھول ڈھمکے والے اندر بٹھاکر پورے شہر میں پھرائے جاتے، بورڈ پر جلی حروف میں لکھا ہوتا’’ ٹیکس معاف‘‘ اس کامطلب ہوتا کہ ٹکٹ سستی ملے گی، سیاسی فلم کا رش ٹوٹ جائے تو اب ریلیاں نکالی جاتی ہیں، آئندہ گیارہ دنوں میں گیارہ سیاسی ریلیوں کا پروگرام دیا گیا ہے لیکن مسئلہ ریلو کٹوں کا ہے، جو کبھی ایک طرف ہوتے ہیں کبھی دوسری طرف، اسمبلیاں توڑنے کے حوالے سے مشاورتی اجلاس کے بعد خان کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے، ممبران صوبائی اسمبلی کی کثیر تعداد نے اظہارخیال کرتے ہوئے رائے دی ہے کہ اسمبلیاں نہ توڑی جائیں پون پاکستان پر تحریک انصاف کی حکومت ہے، حکومت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے مگر خان بضد ہے کہ اسمبلیاں توڑو، ملک سنوارو۔ اپنی سوچ کے اعتبار سے سچا ہے، اس کی جماعت اور اس کے اتحادی سب کسی نہ کسی کام میں لگے ہیں، خان گھر بیٹھا ہے، اسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھنا گوارا نہیں وہ مصروف ہونا چاہتا ہے، اب اگر اسمبلیاں نہیں توڑی جاتیں تو سال بھر یوںبیٹھنا مشکل ہے، لہو گرم رکھنے کا کوئی بہانہ نہ ملا تو موسم سرما میں خون جم جانے کا خطرہ ہے۔
دوسری طرف وہ مقدمات اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں جن میں نااہلی کے بعد سزا کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، اس حوالے سے اہم ترین مقدمہ خان کی مبینہ بیٹی ٹیرن کے حوالے سے ہوگا، خان مخالفین کا کہنا ہے کہ اپنے خاندان کی تفصیلات میں ٹیرن کا زکر نہیں کیا جو حقائق چھپانے کے زمرے میں آتا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بعض صحافیوں نے کچھ تفصیلات پیش کی ہیں جن کے مطابق یہ مقدمہ خان کی سیاسی زندگی اور سیاسی سفر کا فیصلہ کرسکتا ہے کہ سفر ختم ہوگا یا جاری رہے گا، قانونی ماہرین کی نظر میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ ایک غریب ملک میں چلنے والے مقدمے میں ولدیت ثابت کرنے یا اس سے انکار کو درست ماننے کے لیے عدالت نے ڈی این اے کرانے کا کہا تھا جو نہیں کرایاگیا، اگر ہماری عدالتوں میں یہ مقدمہ شروع ہوگیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے ڈی این اے کرانے کا حکم آسکتا ہے، پھر یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا ایسا مقدمہ ہوگا جس میں عدالت ہی کو فیصلہ کرنا ہوگا، عدالت کے باہر اس حوالے سے کسی سے بھی کوئی تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ سیاسی فلم کا کلائمیکس یہی ہے، فیصلہ ہیرو کے خلاف آیا تو ہیرو روتا نظر آئے گا لیکن سنیما سے باہر نکلنے والے فلم بین اسے روتا دیکھ کر خود نہیں روئیں گے، ماضی میں ہیروئن پر ظلم و ستم دیکھ کر خواتین پھوٹ پھوٹ کر رویا کرتی تھیں مگر اب نہیں، خواتین سمجھدار ہوچکی ہیں، ہر عورت پہلے کسی کی بیٹی ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button