ColumnJabaar Ch

معافی ! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

جب کسی خبرکے درست نہ ہونے پر کوئی شخص ہتک عزت کا دعویٰ کرتا ہے تواخباراگر اس نتیجے پرپہنچ جائے کہ خبر واقعی درست نہیں یا اس کو ثابت کرنے کیلئے اخبار کے پاس اتنے ثبوت نہیں ہیں یا وہ سمجھتا ہے کہ خبر دینے والا رپورٹرکسی کے ہاتھوں استعمال ہو گیا ہے،جھوٹ پر اعتبار کربیٹھا ہے ،کسی لالچ کے تحت خبر شائع کربیٹھا ہے اور وہ ادارہ اس خبر پرمعافی مانگ کراس کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹادیتا ہے تو یہ دعویٰ دائر کرنے والے کی جیت کہلاتی ہے۔ ہتک عزت کے دعوے کی اتنی ہی کہانی ہے باقی سب زیب داستان ہے۔
برطانوی’’ٹیبلوائیڈ‘‘ڈیلی میل دعویدار شہباز شریف سے معافی مانگ کر اپنے اخبار میں اسی طرح شائع کرچکا ہے جس طرح اس نے وہ خبر شائع کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ہی چھاپی گئی خبر کو اپنی سائٹ سے ڈیلیٹ بھی کرچکا ہے۔اب اس واقعہ کو کسی بھی طرح سے بیان کرلیں ،کوئی بھی تشریح کرلیں یہ والا سچ اور حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی۔اس پر کیے جانے والے سب تجزیے تبصرے صرف اپنے فین کلب کی تسلی اور تشفی کیلئے ہیں۔مجھے شہبازشریف کے گناہگار ہونے یا بے گناہ ہونے سے کوئی سروکار فی الحال نہیں ہے۔وہ گناہگار ہیں تو یہاں پاکستان میں بھی عدالتیں موجود ہیں ان کے خلاف مقدمات چل بھی رہے ہیں۔ انہیں یہاں سزامل جائے گی لیکن برطانوی اخبار کی معافی کو عجیب رنگ دینے کی ناکام کوشش قبول نہیں کی جاسکتی۔
میں بائیس سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہوں ۔سینئر نہ سہی اتنا تجربہ تو ضرور ہے کہ خبروں کی تردیداور ہتک عزت کے دعووں کو کس طرح ڈیل کیا جاتا ہے۔دعویدار کی جیت کا آغازاسی دن ہوجا تا ہے جب وہ اپنے خلاف چھپی خبر کولے کر اس میڈیا ہاؤس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹادیتا ہے،کیونکہ دعویٰ کرنے والا اگر سب سے بہتر حقیقت جانتا ہے تو خبر شائع کرنے والا اخبار اورخبر دینے والے رپورٹر کو بھی مکمل ادراک ہوتا ہے کہ خبر کہاں سے آئی ہے ،اس میں کتنی سچائی ہےاور کیا اس سچائی کو ثابت کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ہتک عزت ہو یا توہین عدالت کا کیس،دونوں ہی مقدمات میں معافی مانگنے اور قبول کیے جانے کا امکان اور موقع ہر وقت ہی موجود رہتا ہے ۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے دوہزار انیس میں خبرشائع کی کہ شہبازشریف نے برطانیہ کی طرف سے دی گئی امداد میں کرپشن کی ہے۔اس خبر کے شائع ہونے کے بعد شہبازشریف نے طویل پریس کانفرنس کی تھی اور میں اس پریس کانفرنس میں موجود بھی تھا۔انہوں نے اس خبر کو جھوٹا قراردے کربرطانوی عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس پرعمران خان صاحب نے کہا تھا کہ شہبازشریف کبھی عدالت نہیں جائے گا۔ مرزاشہزاداکبر نے بھی انہیں چیلنج کیا تھا کہ اگروہ برطانوی عدالت نہیں گئے تومیں انہیں وہاں لے کر جاؤں گا۔شہبازشریف نے چیلنج قبول کیا اوردعویٰ دائر کردیا۔اس کے بعد سب تاریخ کا حصہ ہے۔
جب برطانوی عدالت کے معافی مانگنے کی خبر آئی تو پاکستان میں کچھ لوگوں کیلئے حیران کن اور زیادہ کیلئے پریشان کن تھی۔اس کی ایک وجہ تو سیاسی تقسیم ہے دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے یہاں کسی کو اپنی غلطی تسلیم کرتے یا معافی مانگتے کبھی دیکھا ہی کب ہے۔یہاں تولوگ افواہوں اور خواہشوں کو خبروں کا روپ دے کر اچھالے جاتے ہیں، الزامات لگاؤ اورآگے بڑھ جاؤ کا فارمولہ ہے اس لیے اس معافی کویہاں قبول کرنے کی بجائے اس کو مشوک بنانے کیلئے سردھڑکی بازی لگائی جارہی ہے۔
میں شاید اس موضوع پریہ کالم نہ لکھتا لیکن میرے دیرینہ دوست سردارجاوید حیات سدوزئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اخبار نے معافی میرٹ پر مانگی ہے۔سردارجاوید حیات میرے پنجاب یونیورسٹی کے کلاس فیلو ہیں۔ا ب وہ باہر جاکر کینیڈامیں سیٹل ہوچکے ہیں اس لیے انہیں پاکستان کی فکر کچھ زیادہ ہی لاحق رہتی ہے ۔پنجاب یونیورسٹی میں،میں جاوید، طارق رانا اور عامرظہیرمل کرایک میگزین بھی شائع کرتے تھے۔جاوید حیات یہاں لاہور میں تھے تو خود بھی کافی شریف تھے لیکن جب سے باہرگئے ہیں ’’شریفوں‘‘سے انہیں چڑ ہوگئی ہے۔جاوید حیات کہتے ہیں کہ شہبازشریف نے اخبار کو پیسے دے کر معافی منگوائی ہے۔میں انہیں کہتا ہوں کہ اگر یہ راستہ آسان ہے تو عمران خان صاحب کے خلاف برطانوی اخبارفنانشل ٹائمز نے ایک خبر شائع کی تھی جس میں عمران خان پر چندہ چوری کا الزام تھا لیکن عمران خان نے آج تک اس اخبار کے خلاف کوئی دعویٰ دائر نہیں کیا۔سردارجاوید حیات کو چاہیے کہ اوورسیزپاکستانیوں سے اپیل کرکے پیسے جمع کریں اور اس اخبار کے خلاف عمران خان کی طرف سے ہتک عزت کا دعویٰ کردیں۔معافی لے کر خان صاحب کو سرخروئی کا موقع دیدیں۔امید ہے سردار جاوید حیات خان سدوزئی ایسا کرگزریں گے کیونکہ ان کویہ راز معلوم ہے کہ برطانوی اخبار کس طرح پیسے لے کر معافیاں مانگ لیتے ہیں اور پھر وہ خبر ڈیلیٹ بھی کردیتے ہیں۔
ایک تازہ خبر یہ بھی آچکی ہے کہ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کو پاکستان کی عدالت نے ہیروئن کیس میں بری کردیاہے۔اب اگر کوئی چاہے تو اس بریت کو بھی کوئی من چاہا رنگ دے سکتا ہے۔اس کو من پسند رنگ دینے کیلئے شہریارآفریدی سے چند مزید قسمیں بھی اُدھار لی جاسکتی ہیں۔انہوں نے جان تو اب بھی اللہ کوہی دینی ہے لیکن جس بے دردی سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قسموں کا استعمال کیا تھا وہ لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ انسان کا اگر ایمان پکا ہے کہ اس نے جان اللہ کو دینی ہے توپھر وقتی فائدے کیلئے کسی کے ہاتھوں میں استعمال ہونے سے گریز بہتر ہے۔
خیر شہبازشریف کو تو معافی مل گئی ہے لیکن اب یہ بائیس کروڑ لوگ حکمرانوں سے معافیاں مانگنے لگے ہیں۔اس وقت پاکستان کی معاشی صورتحال یہ ہے کہ ہم نے اس سال بیس ارب ڈالر قرض دنیا کو واپس کرنا ہے اور آج کے دن ہمارے خزانے میں صرف سات ارب ڈالر موجود ہیں۔سوچیں کیا حالت ہے۔اب ہم نے باقی ڈالر کہیں سے کماکر پورے نہیں کرنے بلکہ مزید قرضہ اٹھانا ہے ۔سعودی عرب کے ترلے ہوچکے ہیں چین بھی مجبور ہوگا کہ ہمیں ڈیفالٹ سے بچائے کیونکہ خدا نخواستہ ڈیفالٹ کے بعد بھی انہوں نے ہی پیسہ دینا ہے۔شنید ہے کہ دنیا میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں اوراس لحاظ سے پاکستان میں بھی تیل کی قیمتیں اب کم ہونی چاہئیں، یہ کمی ہوگی یا ڈار صاحب خود ہی کمائی جاری رکھیں گے یہ بڑا سوال ہے۔آئی ایم ایف کا پروگرام ایک بار پھر معطل ہواچاہتا ہے۔مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔لوگ مشکل میں ہیں لیکن یہاں ہر کسی کو اقتدار کے جھولے میں پڑے رہنے کا لالچ ہے۔یہاں حکومت کو ذمہ داری نہیں اختیارات اورعیاشی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔سوچیں اگر کسی مہذب ملک میں معیشت کا یہ حال ہوتا کہ بیس ارب ڈالر کی ضرورت ہواور ہاتھ میں صرف سات ارب ڈالر ہوں تو کون حکومت لے کر ذلیل ہونا چاہتا؟ لیکن یہ پاکستان ہے اور یہاں حکومت اقتدار ہوتی ہے ذمہ داری نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button