Columnمحمد مبشر انوار

کڑا محاسبہ اور ترقی ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

بارہا ایک سوال ذہن میں گونجتا ہے اور میں کیاہر پاکستانی،اندرون ملک یا بیرون ملک مقیم ہو،کے ذہن میں یہ سوال مسلسل گونجتا ہے کیا پاکستان میں وسائل کی کمی ہے؟کیا پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے؟کیا پاکستان کی نوجوان نسل میں کچھ کرگذرنے کی خو موجود نہیں؟کیا پاکستانی قوم اپنے ملک میں امن و سکون اور ترقی کی خواہشمند نہیں؟بخدا جس طرح میرا ذہن مجھے جواب دیتا ہے،یقین واثق ہے کہ ہر پاکستانی کا جواب بھی قریباً یہی ہے کہ پاکستان میں ایسی کسی بھی چیز کی قطعاً کوئی کمی نہیں جو پاکستان میں امن و امان یا خوشحالی کی ضمانت نہ بن سکے البتہ اس عنصر کی شدید کمی نظر آتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ،جن کی اربوں کھربوں کی جائیدادیں اس ملک سے باہر ہیں،جو اسی ملک کے وسائل کو لوٹ کھسوٹ کر بنائی گئی ہیں،ان ارباب اختیار کا ریاست پاکستان پر اعتماد نہیںوگرنہ یہ ممکن نہیں کہ یہ ریاست کسی بھی دوسری ترقی پذیر ریاست کی نسبت کہیں تیزی سے ترقی کرتی اور یہاں ذریعہ معاش اور انفرادی ترقی کے مواقع میسر نہ ہوتے۔ ارباب اختیار کی عدم اعتمادی کے باعث پاکستان کا بنیادی نظام ہی اس قدر پراگندہ ہو چکا ہے کہ یہاں ہر شخص نہ صرف خود کو تیس مار خان سمجھتا ہے بلکہ اس کے نزدیک پاکستان کے وسائل فقط اس کے ذاتی مفادات کیلئے ہیں۔ ارباب اختیار نے لوٹ کھسوٹ کیلئے اس ملک کی ریاستی مشینری کو ذاتی غلاموں میں بدل رکھا ہے اور ایک مخصوص طبقہ ارباب اختیار کیلئے، قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یا ان میں موجود سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یا ان ارباب اختیار کو ایسے قوانین بنانے کی تجاویز دیتا نظر آتاہے کہ جس کے باعث اس ملک کے وسائل،ان حکمرانوں کی ذاتی تجوریوں میں جبکہ ملک و قوم مسائل کی تہہ درتہہ میں دبتی چلی جا رہی ہے۔حالیہ نیب قوانین میں کی گئی ترامیم اس بد نیتی کا واضح ثبوت ہیں کہ دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا مذاق دیکھنے یا سننے کو نہیں مل سکتا کہ حکمران اپنی لوٹ مار کو بچانے کیلئے ایسے قوانین بنائیں،حکمرانوں کا کام تو ملک و قوم کی بہتری کے چوری چکاری کے خلاف قوانین کو مزید سخت کرنا ہے تا کہ ملکی وسائل پرڈاکہ زنی کرنے والوں کو ہزار بار سوچنا پڑے کہ اس کا انجام کیا ہوگا بعینہ ویسے ہی جیسا چین میں قانون ہے کہ رشوت خور کو گولی مار دی جائے اوراس گولی کی قیمت بھی اس کے لواحقین سے وصول کی جائے۔
سول قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض منصبی تو یہ ہے کہ ایسی کسی بھی واردات پر ازخود حرکت میں آئیں اور ملزمان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے لیکن ہوتا کیا ہے؟پاکستان میں اولاً تو قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو آزادانہ کام کرنے کی ہی اجازت نہیں اور اگر کوئی بھی اہلکار قانون کے مطابق کام کرنا چاہے بھی،کسی مجرمانہ کارروائی کی تفتیش کرے بھی،اس کا سراغ لامحالہ کسی ایسی بااثر شخصیت تک پہنچتا ہے کہ ایوان ہل جاتے ہیں اور فی الفور ایسے اہلکار کی نہ صرف سرزنش کی جاتی ہے بلکہ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ بااثر شخصیت کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگی جائے بصورت دیگر انہیں کھڈے لائن لگانے کا اختیار انہی بااثر شخصیات کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ اہلکار،جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے فرائض منصبی کو سمجھنے اور ان کو ادا کرنے میں گذارتا ہے،کسی ایک ایسی بااثر شخصیت سے متھا لگانے کے بعد کسی کونے کھدرے میں باقی زندگی گذارتا نظر آتا ہے یا معافی تلافی کرکے اس غلیظ اور گندے نظام کا حصہ بنا نظر آتا ہے، کیا کوئی بھی ریاست اپنے ایسے اہلکاروں کو منصب سے ہٹا کر قانون کی عملداری یقینی بنا سکتی ہے یا مجرمان کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتی ہے یا معاشرے میں تحفظ کا احساس دلا سکتی ہے ؟قطعی نہیں!ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی بااثر کو قانون کی عملداری میں لائے بغیر ،معاشرے میں تحفظ کا احساس پیدا کیا جاسکے اور نہ ہی شہریوں کا اعتماد ایسی ریاست پر قائم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ چند دہائیوںبلکہ واضح طور پر کہا جائے تو پاکستان میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد،قانون کی ایسی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور ذاتی مفادات کی خاطر بااثر شخصیات کو ایسے نوازا گیا ہے ،جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی تاہم اس عرصہ میں کم ازکم ملکی وسائل کو لوٹنے کی روش کم نظر آتی ہے۔ غیر جماعتی انتخابات نے پاکستانی سیاسی افق کو نہ صرف گدلایا بلکہ اس کے نتیجہ میں منظر عام پر آنے والی قیادتوں نے اس ریاست کی ہر سمت ہی تہس نہس کردی ہے،سول انفراسٹرکچر میں بجائے بہتری لانے کے،اس کو قریباً زمین بوس کر دیا ہے۔
لوٹ مار کے اس نظام میں کسی بھی ادار ے کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو مقدم رکھتے ہوئے ،ریاستی مفادا ت کا تحفظ کرے بالفرض اگر کوئی محب الوطن کسٹم انسپکٹر اعجاز ایسی غلطی کر بھی لے، تو اس کا انجام دوسرے اہلکاروں کو ڈرانے، دھمکانے کیلئے کافی ہے لیکن خوف کا یہ ماحول کب تک قائم رہے گا؟خدانخواستہ جب تک بھیڑیوں کیلئے اس میں کچھ خون،کچھ گوشت باقی ہے پاکستان اسی طرح ان خون آشام بھیڑیوں کے ہاتھوں نچڑتا رہے گا؟اس کے بعد اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا بلکہ کیا یہ ملک بچے گا،خاکم بدہن،یہ بھیڑئیے تو یہی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس ملک کا وجود نوچ نوچ کر ختم کر دیںلیکن کیا ایسا ممکن ہو جائے گا؟مختلف حلقے اور اہل علم جو یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں ان کے نزدیک پاکستان کو نوچنے والوں کا انجام قریب ہے،میں نہیں جانتا کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ان کی یہ پیش گوئیاں کس حد تک درست ہیں لیکن بحیثیت مسلمان،ہمیشہ پرامید رہتا ہوں کہ ان شاء اللہ ،اللہ کریم اس ملک پر اپنا رحم و کرم ضرور کرے گا۔ ان پیش گوئیوں کے مطابق ،جو مختلف علوم پر مبنی ہیں،پاکستان پر مسلط بھیڑیوں کا دور ختم ہونے کو ہے،اس پر چھائے نحوست کے کالے بادل چھٹنے کو ہیں لیکن بظاہر ایسے کوئی آثار فی الوقت نظر نہیں آتے کہ جن سے امید بندھی رہے تاہم اسباب کی اس دنیا میں کب سبب کے امکانات بروئے کارآجائیں اور کب یہ امیدیں بر آئیں،یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کے آثار اسی وقت واضح ہونا شروع ہو جائیں گے کہ جب طاقتوروں نے یہ ٹھان لی کہ اب بہت ہو چکا،ریاست کو بہت لوٹا جا چکا او راب اس کا وجود ایسے ناسوروں سے پاک کرنا ازحد ضروری ہو چکا ہے کہ اس کی بقا ممکن ہو سکے تو حالات و واقعات اس کی خود بخود گواہی دینے لگے گے۔مرجھائے چہروں پر رونقیں بحال ہونا شروع ہو جائیں گی،کاروبار زندگی میں زندگی کی رمق سے بڑھ کر لہروں کی بے مستیاں ثبوت ہوںگی کہ پاکستان واپس اپنے اصل راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔پاکستانی قوم ان 75سالوں میں ایسے بے شمار سرابوں کو دیکھ چکی ہے ،ہر بار یہ آس لگاتی ہے کہ ہر نیا حکمران مسیحا ثابت ہو گا لیکن بدقسمتی سے یہ یا حکمران کی نیت میں کھوٹ آ جاتا ہے یا طاقتوروں کو حکمران راس نہیں آتا۔
بہرکیف یہ حقیقت طے ہے کہ جس دن حکمران اور طاقتوروں کی نیت پاکستان کو درست ڈگر پر ڈالنے کی ہوئی تب ایک ہی طریقہ روبہ عمل ہوتا نظر آئے گا کہ اولاً ادارے و محکمے مضبوط و طاقتور دکھائی دیں گے ،ایسے اہلکار جو نہ صرف قابل واہل ہونگے بلکہ ریاست کی طرف سے میسر طاقت کے بل بوتے پر بے خوف بھی ہوں گے،کسی بااثر کو قانون کے مطابق دھرنے پر بااختیارہوں گے ،تب بنجارہ لاد چلتا ہوا نظر آئے گا۔ اس ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف ایسی کارروائی ہوتی نظر آئے گی کہ ان کے بیرون ملک اثاثے تک واگذار ہوتے نظر آئیں گے،ایسا کڑا محاسبہ جس دن شروع ہوتا نظر آیا،ملکی ترقی یقینی ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button