ColumnImtiaz Aasi

پاک افغان تعلقات اور سفارت خانے پر حملہ ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

یہ ان دنوں کی بات ہے جب افغانستان میں سردار عبدالرحمان خان کی حکومت تھی۔انگریز سرکار نے متحدہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی اور سفارتی تعلقات کوفروغ دینے کیلئے 1893 میں ایک انگریز سفارت کار Mortimer Durand کے ذریعے افغانستان اور متحدہ ہندوستان کے درمیان سرحدوں کی تقسیم کا ایک معاہدہ طے کیا جسے اسی سفارت کار کے نام کی مناسبت سے ڈیورنڈ لائن کا نام دیا گیا۔ایک سال بعد 1894 میں ایک سروئے کے تحت خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے علاقے متحدہ ہندوستان کے حصے میں آئے جبکہ شمالی مشرقی اور جنوبی علاقے افغانستان کا حصہ قرار دیئے گئے اور بارڈر کے دونوں اطراف رہنے والے پشتون، بلوچوں اور دوسرے لسانی گروپوں کو دو حصوں میںتقسیم کر دیا گیا۔ بین الااقومی طور ڈیورنڈ لائن باقاعدہ تسلیم شدہ ہونے کے باوجود افغانستان اسے تسلیم نہیںکرتا۔وقت گذرنے کے ساتھ افغانستان کے صدر سردار محمد دائود خان نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور باقاعدہ اس کے خلاف پراپیگنڈہ مہم چلائی۔مئی 1919 برٹش انڈین حکومت کی رائل ائر فورس کے طیاروں نے کابل اور جلال آباد پر بمباری کی، جس کے بعد 1919 ،1921 اور 1930 کے معاہدے تشکیل پائے جس کے تحت افغانستان کی حکومت نے ڈیورنڈلائن کو تسلیم کر لیا۔تقسیم ہند کے وقت پاکستان کو 1893کا معاہدہ اور اس کے بعد ہونے معاہدے وراثت میں ملے جس کے بعد نہ تو افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی معاہدہ طے پایا اور نہ اس کی توسیع ہوئی ۔ان بین الااقومی معاہدوں کے بعدپاکستان کا موقف ہے کسی نئے معاہدے کی ضرورت نہیں ہے اس طرح کسی ایک فریق کی ان معاہدوں سے اعلان علیحدگی کی کوئی حیثیت نہیں۔تقسیم ہند کے وقت افغانستان کے بارڈر پر رہنے والے پشتونوں کو یہ آپشن دیا گیا تھا کہ چاہیں تو ہندوستان اور پاکستان میں کسی ایک ملک جا سکتے ہیں۔تحریک آزادی کے دوران ممتاز پشتون قوم پرست رہنما عبدالغفار خان اور اس کی خدائی خدمت گار تحریک نے متحدہ ہندوستان کی حمایت کی نہ کہ متحدہ افغانستان کی ۔چنانچہ 2017 افغان صدر حامد کرزئی نے واضح طور پر کہا کہ ان کا ملک ڈیورنڈ لائن دونوںملکوں کے درمیان کبھی بارڈر تسلیم نہیں کرے گا۔
اس سے پہلے قیام پاکستان کے وقت افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ جولائی 1949 میں پاک افغانستان میں کشیدگی بڑھ گئی توپاکستان ائر فورس نے ڈیورنڈ لائن کی دوسری طرف افغانستان کے ایک گائوں پر بمباری کی جس کی وجہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کی جانب فائرنگ تھی۔جس کے جواب میں افغان حکومت نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ ڈیورنڈ یا اس طرح کی کسی تصوراتی لائن کو تسلیم نہیں کرے گا اور گذشتہ ڈیورنڈ لائن سے متعلق گذشتہ تمام معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں۔افغان حکومت کا اس معاہدے بارے موقف تھا اس ڈیورنڈ لسانی تقسیم کوہم پر مسلط کیا گیا تھاجس کی ٹھوس وجوہات میںوہ اس معاہدے کو اقوام متحدہ میں نہ لے جانا قرار دیتے ہیں۔گویا پاک افغان تعلقات کی تاریخ بڑی تلخ ہے اس کے باوجود روس نے افغانستا ن پرجارحیت کی تو پاکستان نے چالیس لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی۔ اگرچہ افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد نے ایران کی طرف بھی نقل مکانی کی جہاں انہیں آج تک مہاجرکیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے جب کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں افغان باشندے آزادی سے نہ صرف نقل وحرکت کرتے ہیں بلکہ بڑے بڑے کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں۔امریکی افواج کے انخلاء کے بعد مہاجرین کی کچھ تعداد نے افغانستان کی طرف نقل مکانی کی جو آٹے میں نمک کے برابر تھی اور ایک محتاط اندازے کے تیس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین اس وقت بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔توجہ طلب پہلو یہ ہے ان مہاجرین میں خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے پاس نہ تو اقوام متحدہ کے پی آر او کارڈ ہیں اور نہ ہی اور کوئی دستیاویز ہے۔البتہ افغان باشندوں کی بہت بڑی تعداد نے مبینہ ملی بھگت سے
پاکستان کے قومی شناختی کارڈ بنالئے ہیں ۔طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو امید تھی سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوگی لیکن اب وقفے وقفے سے ہمارے ہاں سرحد پار سے دھماکے اس امر کا غماز ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کے پس پردہ طالبان کی حکومت بھی شامل ہے۔اس وقت پاکستانی عدالتوں میں پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈا افغانستان کی حکومت کے حوالے کرنے کا تنازعہ بھی زیر سماعت ہے۔ عدالت کے روبرو یہ موقف اختیار کی گیا ہے انگور اڈا حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیرافغانستان کودیاگیاہے۔دراصل امریکی افوا ج کے خلاف افغان طالبان اور تحریک طالبان دونوں کے باہم مل کر جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں امریکہ کو افغانستان کو خیر آباد کہنا پڑا۔اگرچہ طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی حامی ہے اس کے باوجود اس تاثر کورد نہیں کیا جا سکتا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے افغان طالبان کی حکومت لاعلم ہے۔کابل میں پاکستان کے سفارت خانے پر حملے کا واقعہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اس حملے میں طالبان حکومت پوری طرح ملوث ہے۔تاریخ گواہ ہے قیام پاکستان سے لے کر اب تک افغانستان میں قائم ہونے والی حکومتوںکا جھکائو دشمن ملک بھارت کی طرف رہا ہے۔ افغان مہاجرین کے مملکت میں قیام سے نہ صرف جرائم میں اضافہ ہوا ہے بلکہ سماجی مسائل میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔کابل میں پاکستان کے سفارت خانے پر حملے سے یہ واضح ہوگیا ہے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں سردمہری بدستورموجود ہے۔اب وقت آگیا ہے پاکستان کی موجودہ حکومت افغان مہاجرین کے مملکت میں قیام بارے کوئی واضح پالیسی کا اعلان کرئے اور کئی عشروں سے یہاںرہنے والے افغانوں کو ان کے وطن واپسی کی کوئی راہ نکالیں۔اس وقت کئی لاکھ افغان بلوچستان میں رہ رہے ہیں بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اور عمران خان کی حکومت میں تنازعہ کی اہم وجہ بلوچستان سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی بھی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button