CM RizwanColumn

سموگ اور حکومت کی غفلت .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

کاروبار زندگی کو بری طرح اور خاموشی کے ساتھ متاثر کرنے اور عوام کو مختلف بیماریوں کا شکار کرنے والا سموگ کا عذاب ایک بار پھر پچھلے تین ماہ سے لاہور اور کراچی کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست رکھے ہوئے ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق دھند کے ساتھ دھواں، گرد و غبار، صنعتی گیسز، گاڑیوں کا دھواں، زرعی سپرے، گھریلو ایندھن،(کوئلہ لکڑی وغیرہ) تھرمل پاور اسٹیشنز، کوڑے کی آگ، فصلوں کی باقیات کو جلانے، زہریلے کیمیکلز کے بخارات، معدنی گرد و غبار اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے ذرات دھند سے مل کر سردیوں کے موسم میں سموگ کو جنم دیتے ہیں۔ سائنسی طور پر اس طرح کی فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلاً کاربن مونوآکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔سموگ کا لفظ لاس اینجلس ٹائمز میں پہلی دفعہ استعمال ہوا۔ جب صنعتی انقلاب کے بعد امریکہ اور یورپ میں ہر طرف دھوئیں کے بادل منڈلانے لگے اور فضائی آلودگی نے پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ برطانیہ میں بھی یہ عذاب 1950 کی دہائی میں اس حد تک آیا کہ حکومت لرز کر رہ گئی مگر ان ممالک نے مؤثر قانون سازی کر کے اس آفت پر چند عشروں میں ہی قابو پا لیا۔
بدقسمتی سے پاکستان اور انڈیا جیسے ترقی پذیر ممالک میں سموگ کے پیدا ہونے کی وجوہات اور معاشرے پر ان کے اثرات کے حوالے سے خاطر خواہ کام آج تک نہیں کیا گیا۔ ان ممالک میں انڈسٹریل سیکٹر کو بے جا چھوٹ اور عوام الناس میں سموگ کی وجوہات کے تدارک اور بچاؤ کے بارے میں احتیاطی تدابیر سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ خاموش قاتل انسانوں کے زندہ رہنے کی اوسط شرح کو کم سے کم کررہا ہے مگر ان ممالک کے نااہل اور مفاد پرست حکمران طبقات اپنے مفادات سے آگے سوچنے کا تکف ہی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سموگ کے دنوں میں ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور اور ان کے گردونواح میں کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو جاتا ہے مگر روایتی اور قطعی غفلت کی بناء پر پاکستان کی سابقہ اور موجودہ حکومتیں سموگ کے خاتمے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کر سکی ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی کو جانچنے کیلئے ایئر کوالٹی مانیٹرز سسٹم نصب کر دیئے گئے ہیں جو 24 گھنٹے مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ فضا میں موجود آلودگی کے چند ایک عناصر کو ایک سطحی اور قدیم فارمولے کے تحت جانا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک ایئر کوالٹی انڈیکس نکلتا ہے جس سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ آلودگی کا تناسب کیا ہے۔ محکمہ ماحولیات کی گائیڈ لائنز کے مطابق اگر ایئر کوالٹی انڈیکس 200 تک ہو تو اس کو نارمل گردانا جاتا ہے۔ دو سو سے تین سو تک بھی صورت حال قابل قبول ہے لیکن یادرہے کہ یہ اقدام
صرف یہ معلوم کرنے میں مدد دیتا ہے کہ ہم تباہی کے کتنے قریب ہوئے ہیں اس کے علاوہ اس عذاب کو کم کرنے کے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سموگ کے اس ماحول میں رہنے والے ہر شہری کو آنکھوں میں ہلکی ہلکی جلن محسوس ہوتی ہے جبکہ سانس اور دل کے مریض بچے اور بوڑھے اس مقدار سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم تین سے چار سو انڈیکس ہونے پر زیادہ دیر آلودہ فضا میں رہنا مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے جبکہ چار سے پانچ سو تک انڈیکس آلودگی کی خطرناک حد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت لاہور کی فضا میں آلودگی کا تناسب دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ چند سال قبل لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سموگ کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس نے مکمل بحث و مباحثہ اور جدید تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی 17 تجاویز حکومت کو پیش کی تھیں جن پر عملدرآمد کر کے سموگ کے خطرے کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جاسکتا تھا۔ ان تجاویز کی روشنی میں حکومت پنجاب نے چند ایک عملی اقدامات کرتے ہوئے پنجاب کلین ایئر کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا اور سموگ سے بچاؤ کیلئے اقدامات کرنے کیلئے ضلعی اور تحصیل سطح پر خصوصی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں جو سموگ کنٹرول کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر عملدرآمد کروانے کی پابند تھیں۔ بھٹہ خشت سے پیدا ہونے والا دھواں جو سموگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس پر حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا تھا کہ گنجان آباد شہروں کے گردونواح میں موجود تمام بھٹہ خشت بند رہیں گے تاہم وہ تمام بھٹہ خشت جو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیے جا چکے ہیں انہیں بند نہیں کیا
جائے گا اور صوبہ بھر میں نئے بھٹہ خشت لگانے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی اور بھٹہ مالکان کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ وہ اپنے بھٹوں پر پرانی ٹیکنالوجی کوزیگ زیگ ٹیکنالوجی میں تبدیل کریں، جس سے نہ صرف سموگ کا خطرہ ٹل جائے گا بلکہ بھٹہ مالکان کو اس جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مالی فوائد بھی حاصل ہوں گے کیونکہ ایک عام سسٹم میں ایک بھٹہ دس لاکھ اینٹیں پچاس سے ساٹھ دنوں میں تیار کرتا ہے جبکہ اس جدید ٹیکنالوجی کی بدولت یہ اینٹیں صرف دس دنوں میں تیار ہو سکتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس جدید سسٹم کی بدولت پلوشن میں بھی ستر فیصد کمی واقع ہو سکتی تھی۔ سموگ کے خاتمے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایات کی روشنی میں صوبہ بھر میں دفعہ 144کا نفاذ کر کے کوڑا کرکٹ اور فصلوں کی باقیات جلانے پر بھی مکمل پابندی لگا دی تھی۔ اسی طرح سموگ کی روک تھام، انسانی صحت کے تحفظ اور ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کیلئے پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے، زگ زیگ ٹیکنالوجی کے بغیر بھٹوں، دھواں چھوڑتی گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔بزدار دور میں ہی پنجاب نیشنل کلائمیٹیز(ریلیف اینڈ پریوینشن)ایکٹ 1958ء کے تحت سموگ کو آفت قرار دیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے جاری ہدایات کی خلاف ورزی پر ایف آئی آرز کا اندراج، بھاری جرمانے اور قید کی سزا بھی مقرر کی گئی تھی۔ سموگ اور دیگر ماحولیاتی تغیرات سے بروقت آگاہی کیلئےمربوط سسٹم وضع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا تا کہ سموگ کی بروقت روک تھام کیلئے عملی اقدامات کئے جا سکیں۔ حکومت کی جانب سے عوام الناس کو سموگ سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں بھرپور آگاہی مہم چلانے کے دعوے بھی کئے گئے تھے مگر نہ تو وہ حکومت رہی اور نہ ہی اس کے اس ضمن میں کئے گئے اقدامات اور انتظامات کا تسلسل اب کہیں نظر آتا ہے۔پھر رواں سال کے وسط میں مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ بعد میں حمزہ شہباز شریف چند ماہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ ان دنوں چونکہ سموگ نہیں تھا لہٰذا نون لیگی حکومت اس حوالے سے کوئی دعویٰ نہیں کر سکتی جبکہ موجودہ چودھری پرویز الہٰی کی حکومت بھی اپنی دیگر ترجیحات کی بناء پر سموگ کے عذاب سے نجات کا کوئی مؤثر پروگرام متعارف نہیں کروا سکی۔ جہاں تک کراچی یا سندھ حکومت کا تعلق ہے تو وہاں بھی سوائے پیمائشی اقدامات کے سموگ کے تدارک کا کوئی مؤثر اور معقول بندوبست نظر نہیں آتا، حالانکہ ہر صوبائی اور مرکزی حکومت کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ فضائی آلودگی یا سموگ کم کرنے کیلئے شہروں سے نجی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم کرکے پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافہ کرنے، پلاسٹک بیگز پر مکمل پاپندی عائد کرنے، جنگلات کے کاٹنے اور جلانے پر پاپندی عائد کرنے، فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں کے اثر کو کم کرنے کیلئے فلٹرز کے استعمال کو یقینی بنانے، کیمیکل سے بنی اشیاء کے استعمال کو کم کرنے، اینٹوں کے روایتی بھٹوں کو دو ماہ (نومبر اور دسمبر) کیلئے بند کر دینے، زیادہ سے زیادہ درخت لگانے اور تمام گاڑیوں کو بجلی یا ہائبرڈ سسٹم پر لانے جیسے اقدامات فوری طور پر کرنا ضروری ہیں، کیونکہ سموگ ایک ایسا خاموش قاتل ہے کہ اب اگر اس پر موثر اور مستقل منصوبہ بندی کے تحت قابو نہ پایا گیا تو ہمارے لئے یہاں سانس لینا مشکل ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button