ColumnKashif Bashir Khan

آخری فیصلہ عوام کا ہی ہو گا .. کاشف بشیر خان‎‎

کاشف بشیر خان

 

راولپنڈی میں عمران خان نے 26 نومبر کوجو جلسہ کیا اس کی تعداد کے بارے میں لکھنا تو ممکن نہیں لیکن پاکستان میں جس طرح سے عوام سیاستدانوں سے متنفر ہو چکے ہیں اس تناظر میں عوام کی اس بہت بڑے جلسے میں شرکت فقید المثال تھی اور اس موقعہ پر بہت سے جذباتی مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔خیبر پختونخوا،بلوچستان،پنجاب،گلگت بلتستان،آزاد کشمیر اور ملک کے دوسرے علاقوں سے عوام کی عمران خان کی کال پر جوک در جوک شرکت وفاقی حکمرانوں کی نیندیں اڑا چکی تھی لیکن عمران خان کے اسلام آباد نہ جانے کے اعلان نے وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ دہرانے کے مذموم عزائم کی نہ صرف نفی کر دی بلکہ ایک قومی لیڈر کے طور پر ٹکراؤ کی سیاست سے اجتناب کر کے سب کو حیران کر دیا۔وزیر اعظم کے منصب سے معزولی کے بعد عمران خان کی غیر معمولی مقبولیت اور عوام میں پزیرائی غیر مثالی ہے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بینظیر بھٹو کی 1990 میں معزولی کے بعد عوام نے ان کو پزیرائی ضرور بخشی تھی لیکن وہ پزیرائی عمران خان کی موجودہ غیر معمولی عوامی مقبولیت کے عشر عشیر بھی نہیں تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1990 کے عام انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو کو بری طرح ہروا کر نواز شریف کو پہلی مرتبہ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے محمد خان جونیجو اور غلام مصطفی جتوئی کو نظر انداز کر کے وزیر اعظم بنوا دیا گیا تھالیکن بات عوامی مقبولیت اور پزیرائی کی ہو رہی تھی توجو مقبولیت آج عمران خان کو حاصل ہے، اس کا مزا ماضی میں کسی سیاستدان نے بھی نہیں لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین سیاسی رہنما ضرور رہے لیکن بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں ان کے شوہر نامدار اور خود ان پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے اور بعد میں انہیں کرپشن کے کیسوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ایسا ہی حال نواز شریف فیملی کا تھا بلکہ ہے کہ ہر دور میں ان پر میگا کرپشن کے الزامات اور کیس چلتے رہے۔ پاکستان کی تاریخ کا اس وقت کا سب سے بڑا میگا سکینڈل لاہور سے اسلام آباد کی موٹر وے کرپشن میں اربوں کی کمیشن کا تھا اور ڈائیو کے چیئرمین کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا رات کےوقت خود ایئر پورٹ جا کر استقبال کے بعد اپنے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس لے کر جانا اور پھر بعد میں موٹر وے کے منصوبے میں نوے کی دہائی میں اربوں کر کرپشن آج بھی تاریخ کے اووراق میں محفوظ ہے۔آج بھی عوام لاہور سے اسلام آباد براستہ موٹر وے جاتے ہوئےقریباً ایک سو کلومیٹر اضافی سفر کرنے پر صرف اس لئے مجبور ہیں کہ اس میگا پراجیکٹ میں کمیشن کا تناسب فی کلومیٹر تھا۔خیر پاکستان کی تاریخ کے تلخ ترین شب و روز کے اووراق میں اس ملک کو بے دردی سے لوٹنے کی اتنی داستانیں موجود ہیں کہ لکھنے والا لکھتا جائے اور عمر گزر جائے۔مختلف ادوار میں کبھی نیب ترامیم اور کبھی تحقیقاتی اداروں کا انہی لوٹنے والے مافیاز کے زیر اثر ہونا بلکہ انہی مافیاز کا پاکستان کا حکمران ہونا کسی بھی حقیقی احتساب کا ممکن نہیں ہونے دیتا رہا۔خیر بات ہو رہی تھی راولپنڈی میں تحریک انصاف کے بڑے جلسے کی، جس کے انعقاد سے پہلے گمان تھا کہ یہ اسلام آباد کی جانب لا
نگ مارچ کی شکل میں پہنچے گا اور اس کو روکنے کیلئے وفاقی وزیر داخلہ نے ملک بھر سے فورس اور حکومتی فنڈز سے جدید ڈرون،ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس وغیرہ اکٹھے کر لئے تھے۔سننے میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ان تیاریوں پر قریباً ایک ارب روپے سے زیادہ قومی خزانے سے لٹایا جا چکا تھا،لیکن عمران خان نے جلسے کے اختتام پر جو تقریر کی اس نے وفاقی حکومت کی نیندیں اڑا کر رکھ دیں۔جو اعلان عمران خان نے کیااس پر بات کرنے سے پہلے میں اپنے قارئین کو نوے کی دہائی میں لے جانا چاہتا ہوں جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان شدید ترین سیاسی چپقلش چل رہی تھی اور اس وقت کے گورنر پنجاب چودھری الطاف نے پنجاب اسمبلی توڑی تو نون لیگ عدالت چلی گئی تھی کہ جب اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دی گئ اس وقت تحریک عدم اعتماد آ چکی تھی لیکن پنجاب کی تاریخ کے ذہین ترین گورنر چودھری الطاف نے ہائی کورٹ سے اسمبلی بحال ہونے کے دو منٹ بعد پھر سے ایڈوائس جاری کر کے پنجاب اسمبلی توڑ دی تھی اور پھر 1993 میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہوئی تھی۔(اس وقت گورنر اور صدر پاکستان کے پاس 58بی ٹو کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ہوا کرتا تھا۔آج عمران خان کے ساتھ چودھری الطاف مرحوم کے بھتیجے فواد چودھری ہیں جو ڈپٹی سپیکر کی عدم اعتماد کے خلاف رولنگ کے خالق تھے جس نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا اور اس وقت اعلیٰ عدلیہ پارلیمنٹ کی حدود میں نہ گھستی تو آج بھی نون لیگ،پیپلزپارٹی اورمولوی فضل الرحمان وغیرہ بھٹک رہے ہوتے اور پاکستان کے وسائل اور معیشت کی وہ تباہی نہ ہوتی جو آج ہو رہی ہے۔
اب آتے ہیں عمران خان کے اس اعلان پر جس نے اتحادی جماعتوں کے سارے سپنے توڑ کر رکھ دیئے اور وفاق میں عنان اقتدار پر ان کی گرفت کو کمزور ترین کر دیا،عمران خان کا پاکستان کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کے اعلان نے بہت بری طرح غیر مقبول ہوتی ہوئی اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں کہ قومی اسمبلی سے پہلے ہی مستعفی تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد اگر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے ملا دی جائے تو یہ قریباً چھ سو کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اپوزیشن اس وقت اس لئے بھی تلملا رہی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جاسکتی کیونکہ وہاں اسمبلی کے اجلاس ہو رہے ہیں۔اسی طرح گورنر پنجاب و خیبر پختونخوا نہ تو وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان دونوں صوبوں میں گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔عمران خان کے دونوں صوبائی اسمبلیوں سے استعفے اور اسمبلیوں توڑنے کے اعلان سے قمر الزمان کائرہ جیسے سیاستدان(جو اب کونسلر کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے) کی چیخیں آسمان سے لگتی سنائی دے رہی ہیں۔ 70 وزراء اور مشیروں کی فوج کو اس وقت دکھائی دے رہا ہے کہ اس وقت انتخابات میں جانے کا مطلب صرف اور صرف ہار ہے۔قارئین بھولے نہیں ہوں گے کہ گزشتہ چند مہینوں میں وفاقی وزیر داخلہ و اطلاعات اور مریم صفدر وغیرہ ہر روز چینلز پر آکر اعلان کرتے تھے کہ اگر عمران خان عام انتخابات چاہتے ہیں تو دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں ہم فوری انتخابات کا اعلان کر دیں گے اور قارئین کو سمجھنا ہو گا کہ آج جب عمران خان نے اس نظام کے خلاف دونوں صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اصولی اعلان کیا ہے تو اس رجیم چینج کی بدولت برسر اقتدار اتحادی حکومت کے مصنوعی سیاسی غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اور ملکی بدترین معیشت اور سیاسی افراتفری سے نکلنے کے واحد راستے نئے انتخابات سے فرار ہونے کیلئےویسے ہی دونوں صوبائی اسمبلیوں کو اقلیت اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود سیاسی بڑکیں اور چھلانگیں لگا رہے ہیں جیسے تحریک انصاف کے سو سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی کے استعفے آج آٹھ ماہ کے بعد بھی روک کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن عمران خان کا یہ فیصلہ واپس نہیں ہونے والا اور تمام قانونی ماہرین اور بالخصوص سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کی عمران خان کے ساتھ ملکر بنائی ہوئی صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں اور انہیں ختم کرنے کے فیصلے کا واحد حل نئے عام انتخابات ہی ہیں اور اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا تو پھر معیشت کی ابتر ترین حالت اور وفاقی اتحادی اقلیتی حکومت کی نا اہلی اور ہوس اقتدار اس ملک کو وہاں پہنچا سکتی ہے جس کا تصور بھی کسی محب وطن کیلئے سوہان روح ہو سکتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام اتحادی جماعتوں کا دوبارہ اقتدار میں آنا ناممکنات میں سے ہے۔تحریک انصاف کی موجودہ سیاسی چال ایسی ہے جس کے وار سے نکلنا اتحادی اپوزیشن کیلئے ناممکن ہے، پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں حکومتی زعماء اور الیکشن کمیشن کا دو صوبوں اور قومی اسمبلی کی سو سے زائد نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانا ممکن ہی نہیں۔تحریک انصاف کو اپنے مستعفی اراکین قومی اسمبلی کو بھی قومی اسمبلی میں فردا ًفرداً بھیج کر قومی اسمبلی کے استعفے منظور کروانے چاہئیں جوسپیکر راجہ پرویز اشرف نے غیر آئینی اور غیر جمہوری طور پر روکے ہوئے ہیں۔ عوامی تائید سے عاری وفاقی اتحادی حکومت کو ہوس اقتدار چھوڑ کر پاکستان کا سوچنا اور نئے انتخابات کا اعلان کر کے فیصلہ عوام پر چھوڑنا ہو گا کہ اب آخری فیصلہ عوام کا ہی ہو گا۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button