ColumnImtiaz Aasi

چہ مگوئیوں کا خاتمہ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

آخر آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا،ساتھ تقرری سے متعلق طرح طرح کی جنم لینے والی چہ مگوئیوں کا خاتمہ بھی ہوگیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع تھا نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے سیاست دانوں نے اتنا شور غوغا کیا،ورنہ ماضی میں اس عہدے پرتعیناتی کا اتنا پرچار نہیں ہوتا تھا۔ سیاست دانوں نے سنیارٹی سے ہٹ کر آرمی چیف کی تقرری کا ماضی میں کئی بار تجربہ کیا اور اس کے نتائج سے سبق حاصل کر لیا تھا ۔سنیئر موسٹ جنرل کو آرمی چیف مقرر کرنے سے نہ تو کوئی افسر سپر سیڈ ہوا ہے اور نہ کسی کو رٹیائرمنٹ پر جانا پڑے گا۔نئے آرمی چیف کی تقرری سے پہلے عوام ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار تھے جو اب ختم ہوگئی ہے ۔ ملکی سیاست میں جو افراتفری کا ماحول پیدا ہو چکا تھا،آرمی چیف کی تقرری سے اس کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی ۔ملک میں جب کبھی آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ آیا سنیئر افسران کو نظر انداز کرکے کسی جونیئر افسر کو سپہ سالار بنایاگیا تو اس کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں آیا۔درحقیقت سیاست دانوں کا سنیارٹی سے ہٹ کرمن پسند افسر کوآرمی چیف بنانے کامقصد اپنے مفادات کا حصول ہوتا ہے ایک عسکری سربراہ کی حیثیت سے چیف آف آرمی سٹاف کو ہر صورت میں ملکی مفاد کو ترجیح دنیا ہوتا ہے نہ کہ سیاست دانوں کی خواہش کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینا ہوتے ہیں۔
ایک عمومی تاثر تھا کہ مقتدرہ سیاسی امور میں دخل اندازی کرتی ہے، عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد عسکری قیادت نے سیاسی معاملات سے ہاتھ اٹھانے کا عندیہ دیااس کا عملی مظاہر ہ عوام نے ضمنی الیکشن میں دیکھ لیا۔شاید اسی لیے کسی ہارنے والے امیدوار کی طرف سے دھاندلی کا الزام سامنے نہیں آیا ۔جیسا کہ ہم ایک کالم میں بیان کر چکے ہیں غیر ملکی ایجنسیاںجب ہمارے سیاسی معاملات میں اپنااثر ورسوخ استعمال کرتی ہیں تومقتدرہ ایسے معاملات سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی بلکہ اسے بیرونی قوتوں کا توڑ کرنا پڑتا ہے۔
چلیں ضمنی الیکشن سے ثابت ہوگیاہے کہ ادارے اب غیرجانبدار ہو چکے ہیں البتہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کو شتربے مہار بھی نہیں چھوڑا جا سکتاجووہ چاہیں ملک کے ساتھ
کرتی پھریں۔آج کے سیاست دانوں نے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ملک کی معاشی صورت حال پر پوری قوم افسردہ ہے۔سیاست دانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک اٹیمی قوت ہونے کے باوجود معاشی طورپر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی جس کا پراسیس جنرل ضیاء الحق کے دورمیں مکمل ہوا۔عسکری قیادت ایٹمی پروگرام کے بارے میں اس حد تک محتاط ہے کہ کسی وزیراعظم کو بھی ایٹمی معالا ت کی خبر نہیں ہونے دیتی ۔آرمی چیف کی تقرری کے بعد اب سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کریں اور اپنے فیصلے خود کریں نہ کہ وہ کسی اور کی طرف دیکھیں۔جب ادارے نیوٹرل ہوگئے ہیں تو انہیں سیاست میں دھکیلنے کی کوشش سے اجتناب کرنا سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے۔
عمران خان نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد اداروں کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا قابل افسوس ہے۔وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کاملال انہیں ضرور ہے اس کا مطلب یہ نہیں وہ اپنی ناکامیوںکا ملبہ کسی ادارے پرڈالتے پھریں ۔اگر آئندہ ہونے والے انتخابات میں عوام نے انہیں منتخب کیااور ان کا طرز حکمرانی پہلے جیسا رہا توانہیں ایک مرتبہ پھر اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا جس سے وہ آج کل دوچار ہیں۔اگرچہ یہ بات نواز شریف کے بارے میں مشہور تھی وہ وزراء اور ارکان اسمبلی کو وقت نہیں دیتے تھے، عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد ارکان اسمبلی سے اسی طرح کا رویہ اختیار کیا ۔ان کے اسی طرز عمل سے ان کے خلاف لاوا پکتا رہا اور کچھ بیساکھیوں کی مدد سے اپوزیشن جماعتوںنے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر انہیں وزارت عظمیٰ سے محروم کر دیا۔کیا ہی اچھا ہوتاکہ عدم اعتماد کے بعد عمران خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایوان میں رہ کر حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ۔ اسمبلی سے باہر رہ کر جلسے جلوس اور لانگ مارچ کرکے ابھی تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔اب ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں نے سنیارٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں تقرریاں کی ہیں جو خوش آئندہے۔نئے آرمی چیف کی تقرری سے ہمارا ملک جو گذشتہ کئی ماہ سے ہیجانی صورت حال کا شکار تھا اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سیاست دانوں کویہ بات ذہین نشین رکھنی چاہیے کہ آرمی چیف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہ سکتے اور نہ ملک کو کلی طور پر سیاست دانوں کے رحم وکرم پرچھوڑ سکتے ہیں۔ سیاست دان ہی عسکری قیادت کو سیاسی معاملات میں قدم رکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ہماراماضی گواہ ہے کہ جب کبھی ملک میں مارشل لاء لگا وہ سیاست دانوںکی اپنی غلطیوں کا شاخسانہ تھا۔نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر مسلح افواج میں اہم ترین عہدوں پر کام کر چکے ہیںجس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے دور میں سرحدوں کی حفاظت اورملک کے داخلی امن وامان کے قیام کیلئے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے پیش رو، کے اس عہد کی پوری پاسداری کریں گے جس میں انہوں نے مقتدرہ کو مستقبل میں سیاسی معاملات سے دور رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔وقت گذرنے کے ساتھ اس امر کا پتا چلے گاکہ نئے آرمی چیف اپنے پیش رو کے تازہ ترین نظریہ جو عسکری ادارے کو سیاست سے دور رکھنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں، پرپوری طر ح اس پر کاربند رہیںگے ۔عوام کو امید ہے کہ نئے آرمی چیف ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے بھی کوئی حکمت عملی اختیار کریں گے تاکہ ہمارا ملک جوکہ دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر ہے، معاشی طور پر بھی مستحکم ہو سکے۔سیاست دانوںکوبھی چاہیے وہ اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشی معاملات پر یکسو ہو جائیں تاکہ ہمارا ملک ترقی کر سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button