Columnمحمد مبشر انوار

راستہ! .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

عالمی برادری میں رہتے ہوئے اکثر اوقات ایسے مواقع؍لمحات آتے ہیں جب ملک و قوم یا اہم رہنما ان لمحات میں شدید ردعمل دیتے ہیں لیکن اس رد عمل میں بسا اوقات دو ممالک کے درمیان تعلقات کی گرمجوشی میں دراڑیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایسا کم ہی دیکھنے میں ملتا ہے کہ کسی ملک میں سیاسی قیادت ذاتی ناپسند کی بنیاد پر کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کو خراب کرے یا ایسا سوچے بھی،ایسی کسی بھی قیادت کو باشعور قیادت نہیں کہا جا سکتا۔دوسری اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت اپنی سوچ سے رجوع کرتی ہے یا حالات کا بہاؤ ایسے لمحات کو اپنے دامن میںیوں سمیٹ لیتا ہے کہ یا تو سیاسی قیادت کا وجود ہی نہیں رہتایا پھر سیاسی قیادت کو اس رد عمل کی ضرورت نہیں رہتی ۔ بدقسمتی سے یہ دونوں واقعات پاکستانی تاریخ میں رقم ہو چکے ہیں اور دونوں مواقع پر اس کا سامنا پاکستانیوں کو امریکہ بہادر کی طرف سے کرنا پڑا ہے کہ لمحہ موجود میںوہی ایک ایسی عالمی طاقت ہے جو دنیا بھر میں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے ہر حد سے گذر جانے میں ،خود کو حق بجانب تصور کرتی ہے۔ امریکی مفادات ،سرد جنگ یا ہم عصروں کے خلاف باخبر رہنے اور حریفوں کا مکو ٹھپنے کیلئے ،پاکستان اپنی جغرافیائی حدود کے باعث امریکہ کیلئے ہمیشہ سے انتہائی اہم رہا ہے تاہم کچھ انتہائی ’’باشعور‘‘ پاکستان کی اس حیثیت کو دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں۔لہٰذا امریکہ کی نظر التفات ایک طرف پاکستان پر رہتی ہے تو دوسری طرف اپنے مفادات کے حصول میں امریکی ہمیشہ ایک و اضح مؤقف رکھتے ہیں کہ اگر معاملہ گاجرکے عوض خوش اسلوبی سے طے نہیں ہوتا تو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دوسرے ہاتھ میں چھری رکھنا لازم ہے۔
پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ اس کے ایک طرف بھارت،جو روز اول سے پاکستان کو تسلیم کرنے کا ڈرامہ رچائے ہوئے ہے اور پاکستان کو ہمیشہ اس سے خطرہ رہا ہے،بالخصوص ستر کی دہائی میں جب بھارت نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی تو تب کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ میں عالمی برادری کے کردار اور امریکی مخالفت کے باوجود پاکستان ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔تاریخ میں یہ رقم ہے کہ امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کی واضح دھمکی دی اور اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ آخری حد تک گیا اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے معمار کو تختہ دار پر چڑھا کر دم لیا۔ بعد ازاں جنرل ضیا کی مثال ہمارے سامنے ہے جو افغان جنگ کی آڑ میں پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے بہرہ ور تو کر گیا لیکن جیسے ہی روسی افواج نے افغانستان کو چھوڑا، جنرل ضیا کی نعش کے ٹکڑے بھی دستیاب نہیں ہوئے اور نہ ہی آج تک اس کے قاتلوں کا پتا چل سکا۔ جیسے ہی حالات کے سخت ترین لمحات گذرتے ہیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی دختربے نظیر بھٹو 10اپریل 1986کو جلا وطنی ختم کرکے وطن واپسی سے پہلے امریکہ کا دورہ کرتی ہیں اور ماضی کو بھلا کر نئے سرے سے اپنی سیاست کا آغاز کرتی ہیں،اپنے محبوب ترین اور ذہین ترین والد کو کھو دینے کے بعد عالمی برادری میں نئے سرے سے تعلقات کا آغاز، پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ پالیسی سے رجوع کر کے کرتی ہیں۔امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انمٹ باب ہے اور یہ صورتحال مسلسل چلتی رہتی ہے کہ جیسے ہی امریکی مفادات کے خلاف کوئی بھی سیاسی قیادت یا آمر جاتاہے ،امریکہ کا رویہ یہی رہا ہے اور یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ کئی ایک دوسرے ممالک کے ساتھ بھی رہا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے قبل ،انہوں نے بھی اپنے ایک عوامی جلسے میں امریکی مراسلہ لہرایا اور حسب توقع پاکستانی ان کے گرد دیوانہ وار جمع ہو گئے کہ یہی تو وہ نعرہ مستانہ تھا ،جس کی والہانہ عقیدت ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانیوں سے سمیٹی تھی،کیسے ممکن تھا کہ پا کستانی جو پاکستان کی ہرمشکل کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھتے ہیں،اس نعرے کے گرد اکٹھے نہ ہوتے۔یہ الگ بات کہ امریکی اس معاملے میں انتہائی واضح ہیں کہ وہ ہر کام کا معاوضہ دینے میں فیاض ہیں لیکن کام ایک نمبر کا چاہتے ہیںالبتہ اپنا کام نکلنے کے بعد،دوسرا کس مشکل میں ہے،اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہتا۔ ان کے نزدیک یہ ڈیل کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کیسی ڈیل کرتا ہے اگر مشتری ہوشیار باش ہے تو وہ ڈیل کے مابعد نتائج کو ڈیل سے پہلے سمجھنے کی اہلیت رکھنا ضروری ہے وگرنہ امریکہ اس کا ذمہ دار قطعی نہیں۔بہرکیف عمران خان پر اس وقت یہ الزام ہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت جانے کے بعد امریکی سازش کا جو بیانیہ اپنایا تھا۔
آج عمران خان اس سے منحرف ہو رہے ہیں۔حیرت ہوتی ہے ایسے بیانات پر ،ایسی توجیحات پر کہ پاکستانی سکیورٹی کمیٹی اس مراسلے کو مداخلت تسلیم کر چکی ہے،اس کے باوجود عمران خان مخالفین عمران خان کے موجودہ مؤقف کو انحراف سمجھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سخت ترین لمحات گذر چکے اور عمران خان کو اس کے نتیجہ میں جو عوامی تائید حاصل ہو چکی ہے،اس کے بعد اس بیانیہ کو مسلسل دہرا نے کے چنداں ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ اب اس سے آگے دیکھنے کے ضرورت ہے کہ بوقت اقتدار عالمی برادری سے تعلقات کس طرح منظم و مستحکم کئے جائیں گے؟عمران حکومت میں رہتے ہوئے اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد ایک ہی بات تواتر سے کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کو غلام نہیں دیکھنا چاہتا،وہ امریکہ سے تعلقات کا مخالف نہیں لیکن اسے غلامی قبول نہیں۔ویسے عمران خان نے ہمیشہ پاکستانی آزاد خارجہ پالیسی کی ہی بات کی تھی یہ الگ بات ہے کہ اقتدار سے نکالے جانے پر،عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ واقعی عمران پاکستانی مفادات کے مطابق پالیسیاں ترتیب دے رہا تھا۔
دوران اقتدار یقینی طور پر عمران خان سے سفارتی محاذ پر چند ایک ذاتی غلطیاں ضرور ہوئی ہیں، جن میں یو این او اجلاس کے بعد کی ملاقاتیں اور ایک اہم نشریاتی چینل کے حوالے سے قائم اتحاد، اس اتحاد پر ایک دوست ملک کے تحفظات اور ان تحفظات کا ذکر ایک دوسرے سربراہ مملکت کے ساتھ،اس سربراہ مملکت کا سرعام ان تحفظات کا دہرا کر سبکی پیدا کرنا،دوست ملک کی طرف سے ملنے والے تحفہ کو قانونی طورپر حاصل کرکے اس کا استعمال،ایسی غلطیوں کی توقع کم ازکم عمران خان سے نہیں تھی ۔بہرطور یہ سب لمحات بھی بتدریج گذر رہے ہیں اور ان کا تاثر بھی یقینی طور پر زائل ہو جائے گا کہ پاکستان کے ان دوست ممالک کے ساتھ تعلقات ایسی غلطیوں کی وجہ سے خراب نہیں ہو سکتے کہ پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ دفاعی تعلقات کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور درحقیقت یہ دفاعی تعلقات ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ دوست ممالک ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ تعلقات کے حوالے سے برسبیل تذکرہ یہ حقیقت بھی تحریر ہو گئی،اصل مدعا یہ ہے کہ گذشتہ دہائی میں جب نواز شریف کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا تو ان کی سیاست محاذ آرائی پر استوار ہوئی،جو درحقیقت نوے کی دہائی میں خود نواز شریف کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ محاذ آرائی کے چمپئن ہیں،جبکہ 2018کے انتخابی نتائج کے بعد سے مسلم لیگ نون محاذ آرائی ہی کی سیاست کرتی رہی ہے اور پاکستانی سیاست کا یہ مخصوص طرز عمل واضح رہا ہے کہ جس حکمران کو بھی اقتدار سے الگ کیا گیا ہے،اس نے محاذ آرائی کے ذریعہ اقتدار میں واپسی کا راستہ تلاش کیا ہے۔ مریم نواز کے مفروضے کے مطابق کہ مزاحمت سے مفاہمت کا راستہ نکلتا ہے،عمران خان نے مریم نواز سے کہیں زیادہ مزاحمت کر دکھائی ہے،گولیاں کھا کر بھی میدان میں موجود ہے اور کہیں سے بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ وہ میدان چھوڑ دے گا۔یہ ایک طرف موجودہ حکومت کی کارکردگی ہے تودوسری طرف اس کی مزاحمت ہی ہے کہ اس کے روابط پھر سے بحال ہو چکے ہیں اور شنید تو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مطالبات منوانے میں بھی کامیاب ہو جائے گا کم از کم موجودہ حکمرانوں کو گھر بھیج کر ہی دم لے گا،روم میں وہی کروہ جو رومن کرتے ہیں یعنی عمران خان مزاحمت سے مفاہمت کا ’’راستہ ‘‘نکالنے میں کامیاب ہو گیا ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button