ColumnZameer Afaqi

فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ترقی کی ضمانت .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

ہماری ترجیحات کا اندزاہ اس سے لگا لیجیے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور اس کے سد باب کیلئے کوششوں کو تیز کیا جارہا ہے اور اس کوشش میں پاکستانی حکومت بھی پیش پیش ہے لیکن دوسری طرف ملک بھر میں ایک جماعت لانگ مارچ دھرنوں اور احتجاج کے دوران ٹائروں کو آگ لگا کر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، حکومت پنجاب کی جانب سے اخبارات میں ایک اشتہار روزانہ جاری کیا جارہا ہے جس میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے اقدامات کے ساتھ اسے پھیلانے والوں کیلئے تادیبی کاروائیوں کی بات کی گئی ہے۔ کیا پنجاب حکومت کو پنجاب بھر میں ٹائر جلا کر ماحول کو آلودہ کرنے والے لوگ نظر نہیں آرہے جبکہ دھواں تو دور تک دکھائی دیتا ہے۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں اور انسانوں کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ کس طرح سوچتے ہیںپر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ معاشرے انسان کو مستقبل میں کن چیلنجز اورمسائل کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے اور ان سے کیسے عہدہ براہ ہو اجاسکتا ہے یا اس ان مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کیا لائحہ عمل مرتب کیا جانا چاہیے، اس ضمن میں دیکھا گیا ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں کے انسان مستقبل میں پیش آنے والے واقعات، چیلنجز اور مسائل پر نہ صرف نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنی حکومتوں کو بھی مجبور کرتے ہیں کہ وہ آنے والے چیلنجزسے نبٹنے کیلئے پہلے سے اقدامات کریں جبکہ ہم جیسے معاشروں کے انسانوں کی سوچ پر پر سر سری سی نظر ڈالی جائے تو ہمیں آنے والے مسائل اور چیلنجز سے کوئی سروکار ہی نہیں ہمیں تو ہمارا آج کا دن گزارنا ہے وہ جیسے تیسے بھی گزرے،حالانکہ ہمارے لیے حالیہ چیلنجز اور مسائل ہی اتنے گمبھیر ہیں کہ اگر ہم قوم کے معیار پر پورا اترتے ہوں تو یقیناً ہم سوچ بچار سے بھی کام لیتے ہوئے ان پر تھوڑا ہی سہی کچھ غور تو کرتے ہم بحیثیت معاشرہ انتہائی انحطاط کا شکار ہیں معاشرتی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے جبکہ انسانی اقدار جن کے بغیر معاشروں کا زندہ رہنا محال ہوتا ہے ان سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔پا کستان کا شماردنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کوحفاظتی ٹیکے لگانے کا رجحان کم ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے رجحان کو 100فی صد کرکے جان لیوا بیماریوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن ہم اتنے لاپرواہ ہیں کہ پولیو پر بھی ابھی تک قابو نہیں پا سکے، بلکہ پولیو کے سدباب کیلئے چلائی جانے والی مہم کے خلاف طرح طرح کی تاولیں تراش کر اپنے ہی ملک کے بچوں کو اپاہج بنانے میں پیش پیش ہیں۔ حیرت ہے دنیا میں پسماندہ ترین ملک بھی جان لیوا بیماریوں سے نجات حاصل کر چکے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پولیو کے کیسوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ دنیا بھر میں نوزائیدہ بچوں اور حاملہ عورتوں کی شرح اموات کے حوالے سے بھی ہم سب سے آگے ہیں۔ سردی اور گرمی کے بڑھنے کی وجوہات کا کھوج لگانا تو بڑے دور کی بات ہم موسموں کی شدت اور حدت سے تڑپنے کے باوجود ان سے ہم آہنگ ہونے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کر رہے ۔کہا جاتا ہے کہ فطرت کے ساتھ لڑنے والے ہار جاتے ہیں اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے والے کامیاب ہوتے ہیںیہ سبق ترقی یافتہ ممالک کے انسانوںنے سیکھ کر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا سیکھ لیا ہے اس لیے وہاں منفی درجہ حرارت بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑتا اور گرمی کی شدت سے بھی وہ ہماری طرح متاثر نہیں ہوتے۔
دنیا بھر کے نوجوان آمدہ مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے جلسے کرتے ہیں جلوس نکالتے ہیں تاکہ دنیا نوٹس لے ہمارے ہاں نکلنے والے جلوس اور جلسے ذاتی مفادات سے شروع ہوتے ہیں اور ذات پر ختم ہو جاتے ہیں ہمارے سوچنے اور غور و فکر کرنے کے راستے مسدود کرنے میں ہماری حکومتیں اور ادارے بھی پیش پیش ہیں ۔ یہاں صرف ایک طبقے کو بولنے جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کی کھلم کھلا اجازت ہے جبکہ جو یہاں انسانی سوچ و فکر کی آزادی ،انسانی حقوق اور مساوت کی بات کرے گا اس کا ناطقہ بند کرنے کیلئے سارے ادارے لٹھ لے کر دوڑ پڑتے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر کے انسانوں ،ملکوں اور معاشروں کو پانی، ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی میدان میں پیدا ہونے والے چیلنجز اورکرہ ارض کو اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی شدت کا سامنا ہے۔ جس سے عہدہ براہ ہونے کیلئے وہاں کی حکومتیں اور شہری اپنا کردار ادا کرنے کیلئے بے چین رہتے ہیں۔ جس کا اظہار ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے جس کے مطابق حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پہلی مرتبہ رواں برس تحفظ ماحول کیلئے عالمی سطح پر بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔سن 2019 کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مظاہروں میں دنیا بھر کے بچے خاص طور پر شریک ہوئے۔ اس کی وجہ سویڈش ٹین ایجر گریٹا تھنبرگ کی تحریک ‘فرائیڈیز فار فیوچر کو قرار دیا گیا ہے۔ اسی تحریک کی وجہ سے انہیں کئی حلقے اور تنظیمیں امن کے نوبل انعام کیلئے بھی نامزد کر بیٹھی تھیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تھنبرگ کی تحریک ہی سے سن 2019 کے اہم مسائل و معاملات میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مختلف تنظیموں نے تو سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا بھی مشورہ دیا لیکن اس خیال کو پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ اس تناظر میں کہا گیا کہ جب امید مرنے لگتی ہے تو عمل شروع ہوتا ہے لہٰذا اقوام عالم سے ماحولیات کو بہتر کرنے کی توقعات کم ہونے کے بعد ہی ایمرجنسی کی صورت حال کے تناظر میں عوامی احتجاج نے سر اٹھایا۔
سن 2015 کی پیرس کلائمٹ ڈیل میں طے پایا تھا کہ زمین کے درجہ حرارت میں کم از کم دو ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی لانا ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے چار ہی سال بعد ماحولیاتی ایمرجنسی کی صورت میں اب درجہ حرارت 1.5 ڈگری کی حد تک کم کرنے کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔ زمین کے درجہ حرارت میں سن 2018 کے مقابلے میں ایک ڈگری کا اضافہ ہو چکا ہے۔ماحولیاتی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ نصف ڈگری کی زیادتی بھی اب زمین کے ماحول کیلئے خطرناک ہو گی اور اس وجہ سے زمین پر ناقابل تلافی تبدیلیاں رونما ہونے کا قوی امکان ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق کہنے کو یہ نصف ڈگری ہے لیکن اس کے منفی اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ اْن کا حساب لگانا قریباً ناممکن ہو سکتا ہے۔
سن2019میں ماحول دوستوں کے مظاہروں میں طلبہ کی کثیر تعداد نے بھی حصہ لیا فرانس سے تعلق رکھنے والی ماحول دوست کورین لیکوئر کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ تیس برسوں سے ماحولیاتی معاملات سے جڑی ہیں لیکن انتیس برس اْن کے کام کو اہمیت نہیں دی گئی لیکن سن 2019 میں وہ اور اْن کے ساتھی اطمینان پانے میں کامیاب رہے کہ ان کی برسوں کی محنت لاحاصل نہیں رہی اور اب اْن کی کاوشوں کو مختلف حکومتوں نے اہمیت دینا شروع کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے سن 2030 تک کاربن کے اخراج میں 7.6 فیصد کی لازمی کمی کو اہم قرار دیا ہے اور ایسا کرنے سے امکان ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں 1.5 فیصد کی کمی ہو جائے گی۔ ختم ہونے والے سال میں اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل کلائمٹ کانفرنس میں بڑے فیصلے تو نہیں ہو سکے لیکن ترقی یافتہ اور غریب ممالک میں ماحول کو بہتر بنانے کے معاملے پر کمپرومائز ضرور ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آپسی سر پھٹول سے باہر نکل کر آج کے نوجوان کو مثبت راستہ دکھائیں انہیں جلائو گھیرائو کی تعلیم نہ دیں اور نہ ان سے ٹائر جلوائیں بلکہ ان کے جنون کو ڈائریکشن دیں تا کہ یہ نوجوان اپنے ملک اور معاشرے کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button