ColumnImtiaz Aasi

بحران کا واحد حل مذاکرات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

حالات وواقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت جلد انتخابات کے انعقاد پر کسی صورت رضامند دکھائی نہیں دیتی۔پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے واضح کر دیا ہے انتخابی اور نیب اصلاحات تک انتخابات ممکن نہیں ۔نیب قوانین میں ترامیم تو ہو چکی ہیں جانے اور کون سی اصلاحات ابھی باقی ہیںالبتہ انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔مقتدرہ نے غیر جابندار ہو نے کا اعلان کر رکھا ہے جس کا عملی مظاہرہ عوام نے ضمنی الیکشن میں دیکھ لیا ہے۔ہمیں یاد نہیں ملکی تاریخ میں کبھی ایسا موڑ آیا ہو جب تمام سیاست دان یکسو ہوکر ملکی معاملات کے حل کرنے طرف آئے ہوں۔دیکھتے ہیں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی اس سلسلے میں کاوشیں کس حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔امیرجماعت نے تمام پارلیمانی جماعتوں کو آئین کی بالادستی، انتخابی اصلاحات اور پارلیمانی سیاست میں مقتدرہ کی مداخلت کے خاتمے کے لئے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ان کا کہنا ہے مقتدرہ کو اپنے عہد پر قائم رہنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو اگے بڑھنا ہوگا انہیں اس بات کی بھی شکایت ہے حکومت میں آنے کے بعد سیاست دانوں کی کوشش ہوتی ہے عدلیہ اور الیکشن کمشن ان کے زیر اثر ہوںاور اسٹیبلشمنٹ ان کی سرپرستی کرئے۔در اصل 1985 کے بعد ملک میں جس طرز کی سیاست کا آغازہوا اس نے ملکی ترقی کی راہیں مسدود کرنے کے ساتھ کرپشن کو فروغ دیا۔جماعت اسلامی کے امیر کی یہ تجویز اچھی ہے تمام سیاسی جماعتیں ان نکات پرعمل درآمد کے لئے چارٹر بنا لیں تاکہ پارلیمانی نظام کے تحت حکومت میں آنے کے بعد
بغیر کسی کی پشت پناہی کے حکومت کر سکیں۔بدقسمتی سے آج کے سیاست دانوں میں ذولفقار علی بھٹو، مفتی محموداور نواب زادہ نصر اللہ خان جیسا وژن نہیں۔اقتدار میں دو بڑی پارٹیوں نے طویل عرصہ کی حکمرانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مبینہ طور کرپشن کو اپنا مطمع نظر بنا لیا۔بادی النظر میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نوجوان نسل کو وژن دیاجس سے آج کی نوجوان نسل اپنی اپنی جماعتوں میں اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن سمجھتی ہے اس کے برعکس شریف خاندان اور آصف علی زردری جیسے سیاست دان
پارٹی پالیسی کے خلاف بیان بازی کوناپسند کرتے ہیں۔حال ہی میں پیپلز پارٹی کے نوجوان سنیٹیر مصطفیٰ نواز کھوکھرنے سنیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے کر اچھی مثال قائم کی ہے۔بدقسمتی سے ملک طویل عرصے تک مارشل لاء کے زیر اثررہا اس دوران جو لوگ سیاست میںآئے وہ اسٹبلیشمنٹ کی حمایت کے بغیر حکومت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔شائد اسی لئے بہت سی جماعتیں پارلیمانی نظام میں اداروں کی پشت پناہی کی خواہش مند ہوتی ہیںتاکہ ایک طرف وہ جہاں اپنی کرپشن چھپا سکیں اور دوسری طرف مقتدرہ کی آشیر باد سے اپنے اقتدار کو طول دے سکیں۔ پارلیمانی سیاست میں ابھی تک کوئی حکومت ایسی نہیں بنی جو مقتدرہ کی حمایت کے بغیر بنی ہوالبتہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعدسپہ سالار کے کئی مواقع پر اس طرف اشارہ دیا مقتدرہ نے اپنے آپ کو سیاسی معاملات سے الگ تھلگ کر لیاہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے ضمنی الیکشن میں کسی جماعت نے دھاندلی کی بات نہیں کی جو خوش آئند بات ہے۔ہم امیر جماعت اسلامی کی اس تجویز سے متفق ہیں عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیںتاکہ کسی فریق کو انتخابات میں دھاندلی کا شائبہ نہ رہے۔یہ حکومت پر منحصر ہے وہ اس کام کو کس رفتار سے آگے بڑھاتی ہے یا اس کام کو غیر ضروری طوالت دیتی ہے۔چلیں
عمران خان والی ایم وی ای نہ سہی دھاندلی کوروکنے کے لئے کوئی اور مییکنزم متعارف کرا یا جانا چاہیے ۔صاف اور شفاف انتخابات اسی صورت میں ممکن ہیں جب سیاست دان اور عوام الیکشن کمشن پر بھرپور اعتماد کریں نہ کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے کے بعد اسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے ایسی صورت میں صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہے۔افسوناک پہلو یہ ہے ہمارے ہاں کچھ اس طرح کا ماحول پروان چڑھا ہے ہارنے والا فریق شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا جس سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کی تین نقاتی ایجنڈے پر سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت کے بعد دیکھتے ہیںسیاست دان اس معاملے میں کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔درحقیقت سیاست دان وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔بہت سے سیاست دان کامیابی کے بعد اپنے حلقوں میں جانے کا نام نہیں لیتے ۔اب وقت آگیا ہے عوام ایسے روایتی سیاست دانوں کو مسترد کردیں ۔گذشتہ عام انتخابات میں بہت سے روایتی سیاست دانوں کو عوام نے مسترد کر دیا آنے والے وقتوں میں پشت در پشت پارلیمان میں آنے والے سیاست دانوں کو عوام مسترد کریں گے جس کی وجہ عوام باشعور ہو چکے ہیںانہیں اچھے اور برے سیاست دانوں کی پہچان ہو چکی ہے ۔ہم سابق وزیراعظم عمران خان کواس ضمن میں کریڈٹ دیئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوںنے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں عوام میں کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف شعور بیدار کر کے سیاسی عمل میں نوجوان نسل کی آمد کی راہیں پیدا کر دی ہیں۔تعجب ہے موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد انتخابی اصلاحات پر کام کرنے کا عندیہ دیالیکن انتخابی اصلاحات کی بجائے نیب قوانین میں من پسند ترامیم بغیر وقت ضائع کئے بغیرکر دی گئی ۔حکومت انتخابی اصلاحات کی بات کرتی ہے عملی طور پر ابھی تک کچھ نہیں ہو سکا ہے جو اس امر کا غماز ہے حکومت کسی نہ کسی بہانے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی خواہاں ہے۔عمران خان جلد انتخابات کے انعقاد کے لئے حکومت پر دبائو بڑھا رہے ہیں ان کے لانگ مارچ کا مقصد جلد انتخابات ہیں ۔نواز شریف نے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو کسی قسم کے دبائو میں نہ آنے کو کہا ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے حکومت جلد انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر کی تین نقات پر سیاسی جماعتوں کو بات چیت کے لئے یکجا ہونے کی تجویز پرتمام سیاسی جماعتیں صدق دل سے متفق ہو جائیں نہ تو کسی کی مداخلت کا کوئی امکان رہ جائے گا اور نہ ہی جمہوریت پر کوئی شب خون مارسکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button