Column

جمہوریت اور سیاسی قائدین کی مقبولیت .. میاں انوار الحق رامے

میاں انوار الحق رامے

 

انسانوں نے صدیوں کے تجربات اور مشاہدات سے ایک عالمگیر نتیجہ نکالا ہے کہ جمہوریت نظم مملکت چلانے کیلئے بہترین نظام حکومت ہے۔ جس طرح ایک صحت مند انسان کو مختلف عوارض لاحق ہو سکتے ہیں اسی طرح جمہوریت کو بھی بیماری و ناتوانی کےوائرس لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا وائرس مقتدر اداروں کا دوسرے اداروں پر تغلب ہے۔ مغربی جمہوریت سیاست کے باب میں اس ہمہ جہت فکری تبدیلی کا ایک بنیادی اصول ہے جس میں عوام الناس کی بنیادی ضروریات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے مغرب میں تحریک تنویر کے زیر عنوان ایک مربوط صورت اختیار کی ۔ جمہوریت کا شجر اسی وقت پوری آب و تاب سے ثمر بار ہوتا ہے جب معاشرتی اور سماجی فضا اس کیلئے ساز گار ہو۔ دوسرے الفاظ میں جب تحریک تنویر سماجیات اور معیشت کے حوالے سے جو بنیادی اصلاحات تجویز کرتی ہے اس کے عمل درآمد سے ہی جمہوریت روح حیات بن جاتی ہے۔ جو معاشرے اس ہمہ جہت تبدیلی کو قبول نہیں کرتے ان کے ہاں آزاد جمہوریت متوقع نتائج پیدا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ جمہوریت کی برکات سے استفادہ کرنے کیلئے ایک مقامی ماڈل کی ضرورت ہوتی جس میں مقامی ثقافت، تہذیب و تمدن کے اجزا خیر شامل ہوتے ہیں۔ تحریک تنویر نے یورپ میں جنم لیا امریکہ سمیت تمام علاقوں کو متاثر کیا جسے آج ہم مغرب کے نام سے جانتے ہیں۔ 20ویں صدی کے آخر میں جب مشرقی یورپ کمیونزم کے چنگل سے آزاد ہوا تو لبرل
جمہوریت کی عالم گیر فتح کا اعلان عام تھا۔ یہی اجماع سیکولرازم کے بارے میں وجود میں آیا جو جمہوریت کا توام ہے۔ جمہوریت کو چند سال پیشتر ایک خطرناک وائرس لاحق ہو گیا جس کو مغربی دانش نے بہت حد تک ختم کر دیا تھا۔ جب انہوں نے ہٹلر اور مسولینی سے از خود اعلان برات کر دیا
تھا۔ یہ مقبولیت کا وائرس تھا جس نے فسطائیت کی صورت بد اختیار کر لی تھی۔ مغرب کے نظام فکر نے اسے مسترد کر دیا تھا عوامی تائید سے جنم لینا والا یہ سیاسی عمل نتائج کے اعتبار اس کی روح کے متصادم تھا۔ اب اس نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ برگِزٹ 2016ء میں امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی، فرانس میں نیشنل فرنٹ کیلئے عوامی تائید میں دوگنا اضافہ، اٹلی میں پانچ ستارہ تحریک کی نمو اور ہنگری میں آنے والی تبدیلی یہ سب جدید عصبیت اور مقبولیت کے مظاہرے ہیں۔ 20 ویںصدی میں جو جمہوریت کے بارے میں اتفاق رائے پیدا ہو ا اس پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا تھا۔ مگر جمہوری طور پر ایک سبک رفتار زندہ معاشرہ ہے وہ اپنے افکار اور طرز عمل پر نظر ثانی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ ارتقائی منازل بھی طے کرتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو حالات سے ہم آہنگ بھی رکھتا ہے۔
مغرب نے اجتماعی طور پر سیکولرازم کو بھی اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا لیکن مذہب کی سخت جانی نے سیکولرازم کے ہاتھوں مرنے سے انکار کر دیا تھا تو مغرب کے اہل دانش و فکر نے مذہب کو ایک حقیقت کے طور قبول کر لیا۔ اہل مغرب نے مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے لا دینی سیکو لرازم سے جزوی طور پر نجات حاصل کر لی تھی۔ مغربی اہل علم اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ جمہوریت کو مقبولیت اور ہیرو شپ کا عارضہ کیوں لاحق ہوجاتا ہے اور اس بیماری کا علاج کیا ہے۔ مغربی معاشروں کی بنیاد یکساں اصولوں پر اٹھائی گئی اور سب سے اہم عامل معیشت ہے۔ 20ویں صدی میں مغربی معاشروں میں نہ صرف استحکام تھا بلکہ امیر اور غریب طبقات کے درمیان زیادہ خلیج پیدا ہو رہی تھی۔ ایک تجزیہ یہ ہے کہ جمہوریت میں پالیسی سازی منتخب نمائندوں اور ماہرین کے ذریعے کی جاتی ہے ۔امر یکہ جیسے ممالک کے سرمایہ داروں نے مینو فکچرنگ کو چین جیسے ممالک میں منتقل کر دیا تھا اس کی وجہ سے مقامی طور پر عام آدمی کو بے روزگاری کا شکار ہونا پڑا تھا۔ اس سے بے چینی نے جنم لیا بالائی طبقات کے خلاف نفرت انگیز شدید جذبات پیدا ہوئے جن کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کرداروں نے اپنی مقبولیت کیلئے بے دردی سے استعمال کیا۔ اس طرح مقبول لیڈر عوام کے جذبات کو ایندھن بناتے ہوئے برسر اقتدار آگئے۔ پاکستان میں جمہوریت حقیقی معنوں میں کبھی تھی ہی نہیں۔ پاکستان میں مقتدرہ کی حکومت تھی، جس کے ساتھ اس کی مرضی سے منتخب ہونے عوامی نمائندے اور ماہرین شریک رہے۔ یہ نظام ناکام ہوا تو اس کے ایک حصہ عوامی نمائندوں نے اس نظام کو چیلنج کر دیا، ابتدا میں یہ نواز شریف تھے تاہم انہوں نے نظام کو برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کی یہ نیم دلانہ کوشش تھی جو ناکام ہو گئی تھی۔
دوسرا بڑا چیلنج عمران خان کی طرف سے چنگاڑتا ہوا سامنے آیا ہے۔ عمران خان بھی اسی نظام کا ایک اہم حصے تھے جنہوں نے اس نظام کے سب سے زیادہ طاقتور حلقے کو اپنے جارحانہ مقبولیت سے مملو اپنی تگ و دو کا نشانہ بنایا ہے۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نظام کے کھوکھلا پن کو خوب آشکار کیا ہے۔ مقتدر اداروں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔اس لیے اسلام آباد میں برسر اقتدار حکمران ہمیشہ لرزاں و ترسان رہتا ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور ہر پاکستان کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست قابل قبول نہیں ہے۔ نواز شریف جو تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے ان کو ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ وزیر اعظم کے علاوہ ملک کے اصل حکمران کوئی اور ہوتے ہیں۔ محترم عمران خان نے بھی شکوہ کیا ہے کہ بظاہر نظر آنے والا وزیر اعظم بے اختیار ہوتا ہے ذمہ داری وزیر اعظم کی اور طاقت کے چشمے کہیں اور جگہ ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنے حال و مستقبل اور بے اختیاری و بے توقیری کی فکر لاحق رہتی ہے اس کے اعصاب مضمحل رہتے ہیں۔ بیوروکریسی بھی شدید دباؤ کا شکار رہتی ہے الغرض فیصلہ سازی کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے خاص طور ان حالات میں جب اقتدار کی کشتی میں مختلف خیالات کے حامل لوگ شریک ہوں۔ ہر شریک خوان اقتدار سے زیادہ سےزیادہ سمیٹ لینے کی فکر میں سرگرداں ہو تو انجام نوشتہ دیوار بن جاتا ہے۔ چھوٹے پارلیمانی گروپ ہر وقت بلیک میل کرتے رہتے ہیں کیونکہ حکومت کی بقا ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگر یہ گروپ اپنی حمایت واپس لے لیں تو حکومت گر جاتی ہے۔ عمران خان نے بڑے حوصلے اور ہمت سے اتنا کچھ کہا ہے ان کا رعب و دبدبہ تو دورکی بات ہے بھرم بھی باقی نہیں رہا ہے۔
ماضی کے 75 سالوں میں مقتدرہ کے حوالے سے اس طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ مقتدرہ کو آئینی حدود میں پابند کرنے کا اعزاز بھی تاریخ میں عمران خان سر باندھا جائے گا۔ عمران خان نے ہمیشہ بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اعلی عدلیہ اداروں کے دائرہ کار و اختیارات میں توازن کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں تصور کر لیا گیا ہے کہ مقتدرہ اور عدلیہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں، اگر وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کریں تو ان کیلئے تحدید و توازن کا موثر نظام موجود نہیں ۔ پاکستان میں پارلیمان اور انتظامیہ کو تو ویسے ہی بے توقیر کر دیا گیا ہے۔عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ سے توقع کی جاتی ہے کہ اس ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیں گے۔ خداوند قدوس سے بصد اخلاص و عجز و نیاز دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب مکرم ص کے طفیل ہمارے ملک اور قوم کیلئے خیر کی صورت مقدر فرمائے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button