ColumnRoshan Lal

اسٹیبلشمنٹ اور سیاست .. روشن لعل

 

روشن لعل

کوئی تفصیل بیان کیے بغیر اگر پاکستان میں صرف اسٹیبلشمنٹ ہی لکھ دیا جائے تو لوگ پھر بھی سمجھ جاتے ہیں کہ کن کا نام لیا جارہا ہے۔ جن کا نام یہاں اسٹیبلشمنٹ رکھا گیا ہے کبھی وہ خود کو اس نام سے سرعام پکارا جانا پسند نہیں کیا کرتے تھے مگر پھر یہ تبدیلی رونما ہوئی یہ نام کسی حد تک قابل برداشت سمجھ لیا گیا۔ گو کہ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ پہلے کی طرح ایک غلاف ہی رہا مگر قابل برداشت ہونے کے بعد اسم اشارہ کیلئے غلاف کی صفت رکھنے والے کئی دوسرے الفاظ کا استعمال بھی ہونے لگا۔کچھ سیاستدانوں اور کچھ مین سٹریم میڈیا پرسنز کی طرف سے جو کام چھپ کر کیا جاتا تھا اسے سوشل میڈیا پر سرگرم کچھ لوگوں نے ناعاقبت اندیشی کی حد تک اس طرح کھلم کھلا کرنا شروع کردیا کہ جو باتیں قبل ازیں قابل برداشت تصور کی جانے لگی تھیں ان پر بھی ناقابل برداشت حد کی قدغنیں لگنے کے خدشات ظاہر کیے جانے لگے۔ عمران خان کے دور حکومت میں صرف اس طرح کے خدشے ہی ظاہر نہیں ہوئے بلکہ ان کے سچ ثابت ہونے کا خوف بھی پیدا ہو گیا تھا۔ اس طرح کا خوف ابھی گو مگو کی حالت میں ہی تھا کہ دوسروں پر خوف طاری کرنے والی عمران خان کی اپنی حکومت خود پر طاری چل چلائو کے خوف میں مبتلا دکھائی دینے لگی۔ عمران خان کی حکومت کے چل چلائو کا مرحلہ ابھی طے بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کے ترجمانوں اور خود عمران نے اسٹیبلشمنٹ کے متبادل کے طور پر ایسی ایسی اصطلاحات ایجاد کرنا شروع کردیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر ملفوف طعن و تشنیع کرنے والے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور ہوگئے۔ فروری 2022 میں شروع ہوکر بتدریج ترقی کرنے والا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پر کی جانے والی تنقید کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑنے والے عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر پابندیوں، پکڑ دھکڑ اور سختیوں کا وہ عشر عشیر بھی نظر نہیں آیا جو ماضی میں اس طرح کی بہت کم حجم کی سرگرمیوں پر ظاہر ہو جایا کرتا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ پر بہت تھوڑی تنقید کے بعد جو کچھ ماضی میں بہت زیادہ نظر آجایا کرتا تھا وہ اگر بہت زیادہ طعن و تشنیع کے باوجود تھوڑا سا بھی نظر نہیںآرہا تو مختلف حلقوں کی طرف سے اس کی مختلف توجیہات پیش کی جارہی ہیں۔ ان توجیہات میں سے ایک تو یہ ہے کہ عمران خان کو بپھرے ہوئے پرستاروںکی اس قدر حمایت حاصل ہے کہ اگر ان کے خلاف ماضی جیسے سخت اقدامات کیے گئے تو حالات اس حد تک خراب ہو سکتے ہیں کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔اس حوالے سے دوسری توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا ماضی کا کردار ترک کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اوراپنے اس فیصلے کے مطابق سیاسی کردار ادا کرنے یا انتظامی و قانونی معاملات میں مداخلت کرنے سے گریزاں ہے۔ ان دونوں توجیہات کے حق اور مخالفت میں مختلف قسم کے موقف سامنے آرہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کا کردار اس وقت حقیقت میں کیا ہے ، اس بات کا اگر سائنسی طرز فکر کے مطابق جائزہ لیا جائے تو پھر ہی معاملے کو درست طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا سائنسی طرز فکر کے مطابق جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ ماضی میں اس کا مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ کس قسم کا تعلق رہا۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رویہ یکساں نہیں رہا ۔ اگر ماضی کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک خاص لائن آف ایکشن کے مطابق اپنا سیاسی کردار ادا کیا اور اسی کے مطابق اس نے مختلف سیاسی جماعتوں کیلئے موافقانہ یا غیر موافقانہ رویہ اختیار کیے رکھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ تو مختلف سیاسی جماعتوں کیلئے مختلف رہا لیکن اس کیلئے وقت گزرنے کے ساتھ موافقت یا مخالفت کی شدت حسب سابق برقرار رکھنا ممکن نہ رہ سکا۔اس بات کی مثال یہ ہے کہ ضیا مارشل لا کے بعد اسٹیبلشمنٹ جس طرح سے 1988 اور 1990 کے انتخابات پر اثرانداز ہوئی اس کے بعد اس طرح سے کردار ادا نہ کر سکی ۔ اس کے بعد جو کردار تبدیل ہوا اسی کی وجہ سے بعدازاں منعقد ہونے والے انتخابات کو انجینئرڈ الیکشنز کا نام دیا جاتا ہے۔ کردار کی اس تبدیلی کو اس سائنسی اصول کے مطابق دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی محرک کا کردار ہمیشہ یکساں نہیں رہ سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی اس خفیف تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ مسلم لیگ نون جیسی پروردہ سیاسی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرنا شروع کردیا،جو جماعت پہلے تابعدار سمجھی جاتی تھی اس نے برابری کی سطح پر سودے بازی کرنا شروع کردی۔ مسلم لیگ نون کے اس رویے کا یہ حل نکالا گیا کہ1996 سے فاضل متبادل کے طور پر رکھی ہوئی تحریک انصاف کو مرکزی سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔ یہ موقع کس طرح فراہم کیا گیا اس کی واضح نشانیاںپی ٹی آئی کے اکتوبر 2011 کے جلسہ لاہور، نوازحکومت کے خلاف 2014 کے دھرنے اور جولائی 2018 کے انتخابات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ جس جماعت کی حکومت قائم کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ عنایتوں کی بارشیں کرتی رہی اس سے بہت زیادہ فاصلہ ہونے کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ تمام تر تعاون کے باوجود بھی اس حکومت کی کارکردگی انتہائی بری رہی بلکہ پس پردہ شاید ایسی وجوہات ہیں جو کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی منظر عام آئیں گی۔ عمران خان اور اس کی حکومت کے ساتھ تعاون کے تلخ ترین تجربے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا یہ بیانیہ سامنے آیا ہے کہ جو کچھ ماضی میں کیا گیا وہ ماضی کا حصہ بن چکا مگر اب حال اور مستقبل میں اس کا کردار آئین و قانون کے عین مطابق مطلق غیر سیاسی رہے گا۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا یہ موقف ماننے کو تیار نہیں ہیں ۔ عمران خان جو بھی کہیں مگر اس وقت جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ویسا کہیں نہیں ہو رہا جیسا جنرل(ر) اسلم بیگ نے کبھی سپریم کورٹ کو جونیجو حکومت بحال نہ کرنے کا پیغام دے کر کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ مطلق غیر سیاسی ہو چکی ہے یا نہیں اس کا درست اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس کی طرف سے جس حد تک برداشت کا مظاہر ہ کیا جارہا ہے وہ ایک واضح تبدیلی کی علامت ہے۔ سائنسی اصولوں کے مطابق مطلق تبدیلی کبھی بھی عبوری دور کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ تبدیلی سے قبل عبوری دور ، ایسا دورانیہ ہوتا ہے جس میں اگر متوقع نتائج حاصل نہ ہوں تو تبدیلی کا عمل واپس بھی ہو سکتا ہے۔ تبدیلی کا تاثر سامنے آنے کے بعد ایسے لگ رہا ہے جیسے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی تو احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہیں مگر عمران خان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عبوری دور مکمل ہونے سے پہلے اسٹیبلشمنٹ مطلق غیر سیاسی ہونے کا ارادہ تبدیل کر لے ، اس بات کی شہادت عمران خان کے اس بیان میں تلاش کی جاسکتی ہے جس میں انہوں نے یہ کہا کہ اگر ملک میں مارشل لا بھی لگ جائے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button