CM RizwanColumn

وطن پہ انائیں قربان کر دیں ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ فل کورٹ پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن بنائیں تاکہ عمران خان نے خودپر قاتلانہ حملہ کے سلسلہ میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اورایک افسر پر اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا جو الزام لگایا ہے، اس کی اصل حقیقت عوام کے سامنے آ سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اب یہ اقدام نہ اٹھایا گیا تو آئندہ سوالات اٹھتے رہیں گے۔ بظاہر تو یہ ایک مناسب مطالبہ معلوم ہوتا ہے لیکن آنے والے حالات و واقعات کیا ہوں گے یہ کچھ پتا نہیں کیونکہ اس وقت ملکی سیاسی صورتحال نہایت غیر یقینی کا شکارہے۔ سیاسی مخالفت آگے بڑھ کر نفرت، گالی اور گولی تک جا پہنچی ہے اور اس کار عداوت میں دونوں اطراف سے طاقتیں اور سرمایہ خرچ ہورہا ہے۔ جو پیسے اور وسائل عوام پر خرچ ہونا تھے، انتہائی بدنصیبی اور بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ ان دونوں متحارب سیاسی طاقتوں کی فتح و شکست پر خرچ ہو رہے ہیں۔ عمران خان پر حملہ کی حقیقت کیا ہے یہ تو مکمل تحقیقات اور تفتیش کے بعد ہی معلوم ہو گا۔ اس لیے سردست وزیر اعظم کی اس بات سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ ہی شاید وہ واحد قومی فورم بچا ہے جس کی کہی ہوئی بات کو وسیع تر پذیرائی نصیب ہو سکتی ہے۔ ملک میں الزام تراشی اور عدم احترام و اعتبار کا جو ماحول موجود ہے، اس میں تمام ادارے اور افراد کسی نہ کسی گروہ، فریق یا جماعت کی نظر میں مشکوک اور ناقابل اعتبار قرار دیئے جانے کے قوی خدشات ہیں۔ موجودہ بحران میں کسی تصادم سے بچنے کیلئے سپریم کورٹ ایسے فورم کے طور پر ضرور موجود ہے جس پر وزیر اعظم بھی اعتبار کر رہے ہیں اور عمران خان نے بھی حالیہ دنوں میں متعدد معاملات میں چیف جسٹس سے سو موٹو نوٹس لینے اور داد رسی کی اپیل کر رکھی ہے لیکن اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اب عمران خان اس امر سے بھی انکار کر دیں۔ عمران خان نے اگر وزیر اعظم کی اس تجویز کی تائید کی تو چیف جسٹس کیلئے ایسا کمیشن بنانا آسان ہو جائے گا ورنہ موجودہ سیاسی تنائو کے ماحول میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایسے میں چیف جسٹس کیلئے یک طرفہ طور پر کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ معاملات کو پیچیدہ کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یوں بھی سپریم کورٹ کوئی تحقیقاتی فورم نہیں ہے جیساکہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر چیف جسٹس وزیر اعظم کی تجویز پر فل کورٹ کمیشن بنا بھی دیں تو بھی عمران خان پر حملہ جیسے جرم کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے پاس براہ راست کوئی مہارت موجود نہیں ہے۔ عدالت کے ججوں کو یہ ساری معلومات متعلقہ اداروں، پولیس اہلکاروں، پنجاب حکومت کے عہدیداران اور موقع پر موجود گواہوں کے بیانات سے ہی حاصل کرنا ہوں گی۔ اس پیچیدہ اور مشکل کام میں طویل مدت صرف ہو سکتی ہے۔ اس دوران الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہے گا جو سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کرتا رہے گا۔
وزیر اعظم کی تجویز اس تناظر میں تو معقول کہی جا سکتی ہے کہ عمران خان نے براہ راست وزیر اعظم و وزیر داخلہ کے علاوہ ایک اعلیٰ فوجی افسر پر سازش کا الزام عائد کیا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت جو بھی اقدام کرے، تحریک انصاف اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ اس لیے شاید عدالت ہی وہ واحد فورم ہے جس پر اتفاق رائے کی صورت میں غیر جانبدارانہ یا کم از کم فریقین کیلئے قابل قبول تحقیقات ممکن بنائی جا سکتی ہیں کیونکہ جس طرح ایک گرفتار مبینہ ملزم کے بیانات کی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں اور ان پر اعتراض سامنے آ چکے ہیں۔ پولیس کی روایتی تفتیش باعث مذاق ہی قرار پائے گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ کل کلاں چیف جسٹس اگر کسی آئینی نکتہ کی بنیاد پر اس تجویز کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کے چند ججوں پر مشتمل کمیشن بنادیا جاتا ہے تو بھی معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کا فل کورٹ کا عندیہ اس حوالے سے بھی مناسب ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے بعض ججوں کے بارے میں مختلف حلقوں میں تحفظات موجود ہیں۔ ماضی میں مختلف امور پر قائم ہونے والے بغض بنچز اور سینئر ججوں کو نظر انداز کرنے اور ان پر نکتہ چینی سامنے آتی رہی ہے۔ تاہم اگر انہوں نے کمیشن کی تجویز مان لی لیکن اپنی پسند کے ججوں پر مشتمل کوئی ایسا کمیشن بنایا جس پر وسیع تر اعتماد کا ماحول موجود نہ ہوا تو اس کا نتیجہ خواہ کچھ بھی برآمد ہو لیکن اس پر اختلافات ضرور سامنے آئیں گے۔
وزیر اعظم نے اپنی پریس کانفرنس میں حال ہی میں کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے معاملہ کی تحقیقات کا معاملہ بھی اس کمیشن کے دائرہ اختیار میں دینے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے بظاہر یہ تجویز ارشد شریف کے خاندان کی طرف سے سرکاری تحقیقات پر عدم اعتماد کے اظہار کے پیش نظر دی ہے۔ البتہ وزیر اعظم کے اس طرز عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتِ یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ کے اختیار میں دے کر خود غیر جانبدار ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔ غیر جانبدار ہونے اور اعلیٰ جمہوری روایات کے فروغ کیلئے ایک اور حکومتی کوشش اسی روز یہ بھی سامنے آئی جب پیمرا نے عمران خان کی تقریروں اور پریس کانفرنسوں کو ٹی وی چینلز پر نشر یا نشر مکرر کرنے کی ممانعت کا نوٹس جاری کیا تو تھوڑی دیر بعد ہی حکومت نے خصوصی اختیار استعمال کرتے ہوئے اس حکم کو معطل کرنے کا حکم آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت جاری کر دیا۔ اس حوالے سے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا بیان قابل صد ستائش ہے کہ حکومت نے اپنے سیاسی مخالف کو بھی اپنے اوپر شدید تنقید کے یقین کے باوجود اظہار رائے کی آزادی فراہم کی ہے۔ اس کو پی ٹی آئی قیادت تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ اچھی روایت ہے جو حکومت نے قائم کی ہے۔ ایک اور المناک اور افسوسناک معاملہ سینیٹر اعظم سواتی کی پریس کانفرنس میں سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے روتے ہوئے اطلاع دی کہ کسی نامعلوم نمبر سے ان کی اہلیہ کو ان کی ازدواجی زندگی کی ویڈیو شیئرکی گئی جس کے سبب ان کا پورا خاندان شدید صدمے کا شکار ہوا۔ یہ ویڈیو ملنے کے بعد اعظم سواتی کے مطابق ان کی اہلیہ اور بچے فوراً امریکہ روانہ ہو گئے۔ اعظم سواتی کے ساتھ یہ ایک زیادتی ہے لیکن اس کے پیچھے کون سا ہاتھ ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس سے پہلے جب آرمی چیف کے خلاف ٹویٹ کرنے پر اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا تھا تو انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اس دوران ان کے ساتھ انسانیت سوز تشدد کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ بھی اب سپریم کورٹ کے زیر غور ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کی نجی ویڈیو نشر کرنے کی دھمکی دینا یا اہل خاندان کو شیئر کرنا انتہائی کربناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس دوران ایف آئی اے نے زیر بحث ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایا ہے کہ یہ ویڈیو جعلی ہے اور اسے فوٹو شاپ کے ذریعے جعلی طریقے سے بنایا گیا ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں کہ یہ ویڈیو کن عناصر نے تیار کی اور کس نے اعظم سواتی کی اہلیہ کو بھیجی ہے۔ اعظم سواتی کا دعویٰ ہے کہ یہ ویڈیو ان کے دورہ کوئٹہ کے دوران بنائی گئی ہوگی جب وہ چیئرمین سینیٹ کے انتظام میں سپریم کورٹ کے جوڈیشل لاجز میں ٹھہرے تھے۔ پھر یہ جاننا بھی ضروری ہو گا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو ایسی رہائش گاہوں پر ریکارڈنگ کرنے کی دسترس رکھتے ہیں۔ جہاں عدالت عظمیٰ کے جج قیام کرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ معاملہ ایک سینیٹر کی پرائیویسی سے بڑھ کر ملک کے بااختیار اداروں کی دسترس اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز لوگوں کی حفاظت سے متعلق ہوجاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی اس معاملہ پر غیر جانبدارانہ تحقیقات اہم ہیں تاکہ ملکی نظام میں خفیہ نگرانی کے نامناسب کلچر کا خاتمہ کیا جا سکے۔ بہتر ہو گا کہ چیف جسٹس اگر وزیر اعظم کی درخواست پر کوئی تحقیقاتی کمیشن بنائیں تو وہ اعظم سواتی کے الزامات کا جواب بھی تلاش کرے،تاہم عمران خان نے وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ فوج کو خود پر حملہ میں فریق بنا کر ملک دشمن عناصر کو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا جو نایاب موقع فراہم کیا ہے۔ اس کا ڈراپ سین ہونا چاہیے اور تمام حقائق منظر عام پر لائے جائیں تاکہ کسی سیاسی تنازع کو ملکی سلامتی اور اس کے اداروں کی شہرت کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ بند ہو سکے،کیونکہ اس حوالے سے ایک فطری سوال سامنے آتا ہے کہ کون عمران خان کو مروانا چاہتا ہے؟تحریک انصاف کے بیانیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارے اور حکومت اس میں ملوث ہے لیکن ایک تو یہ الزام محض قیاس آرائی ہے، دوسرے یہ واضح نہیں ہے کہ کوئی کیوں عمران خان کو مروانا چاہے گی؟ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ لانگ مارچ سے پریشان تھے،حالانکہ عمران خان کا یہ لانگ مارچ ایک ناکام کوشش تھی اور لوگوں کی بہت معمولی تعداد اس میں شریک تھی۔ یوں بھی یہ لانگ مارچ نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر منعقد ہونے والا سیاسی شو تھا جس میں صرف متعلقہ علاقے کے لوگ ہی شامل ہوتے تھے۔ یہ بھی سوچ مناسب ہے کہ تحریک انصاف کو اس ناکامی کا احساس ہو چکا تھا، اس لیے اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ میں ایک ہفتہ کی توسیع کی گئی تھی۔ عمران خان کی کوشش تھی کہ انہیں کوئی فیس سیونگ مل جائے اور ان کا کوئی مطالبہ جزوی طور سے ہی تسلیم کر لیا جائے لیکن نواز شریف کے سخت موقف کے بعد حکومت نے کسی بھی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا تھا۔ یوں عمران خان پر حملہ کے بعد تحریک انصاف کو لانگ مارچ ملتوی کرنے کا بہانہ مل گیا ہے۔ تاہم اب اس سانحہ کے بعد سی سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر کی وفاقی حکومت کی جانب سے معطلی کے احکامات اور بعد ازاں ڈی آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کا ذاتی وجوہات کی بناء پر استعفیٰ دے دینا معاملات کو مزید معنی خیز اور پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ ان حالات میں ملک کے وسیع تر مفاد میں دونوں اطراف کی اعلیٰ سیاسی قیادت ایک ایک قدم پیچھے آکر اپنی اناؤں کو وطن عزیز کے وسیع تر مفاد کیلئے قربان کر کے مذاکرات اور اجتماعی مفاد کا کوئی راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔ ورنہ عوام تو دیکھ رہے ہیں کہ دونوں اطراف سے ان کے قومی وسائل اور ان کے تفویض کئے گئے اختیارات ہی باہم دست و گریباں ہیں۔ ان حالات اور معاملات کو دونوں اطراف سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کرنے کا طریقہ اب ملک میں سیاسی تقسیم کی بنیاد پر نفرت میں مزید اضافہ کرے گا اور دونوں طرف سے بے بنیاد الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایسے میں عمران خان اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کروانے سے انکار کر کے مناسب تحقیقات کا راستہ خود ہی مسدود کر رہے ہیں حالانکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور اس حملہ کے حقیقی عوامل تک پہنچنے میں کوئی عملی رکاوٹ حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اب اگر ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش جاری رکھی گئی تو ملکی سیاسی ماحول میں کشیدگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button