Ahmad NaveedColumn

سیاست سے ہٹ کر ! .. احمد نوید

احمد نوید

 

آئیں سیاست کی کج بحثی سے ہٹ کر کچھ کام کی بات کر لیتے ہیں ، بات کرتے ہیں ’’سونے کی چڑیا کی ‘‘۔ کسی بھی ملک کا متوسط طبقہ سونے کی چڑیا ہوتا ہے ۔ یہ مڈل کلاس طبقہ ترقی کا انجن بن سکتاہے اگر ملک کی معیشت کو چلانے والے وژن رکھتے ہوں ۔ یہ کارنامہ پہلے چین نے سر انجام دیا اور اب ہندوستان اپنے متوسط طبقے کی تعداد میں اضافہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے ۔
ورلڈ ڈیٹا لیب کے مطابق چین کی آبادی ایک ارب 40کروڑ اور دوسری جانب ہندوستان کی آبادی ایک ارب 39کروڑ کے لگ بھگ ہے جو دنیا کی آبادی کا 36فیصد بنتا ہے جبکہ پورے یورپ میں آبادی کا 9فیصد حصہ آباد ہے ۔ چین نو سو ملین سے زیادہ لوگوں کے ساتھ عالمی سطح پر مڈل کلاس طبقے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے ۔ یہ طبقہ چین میں روزانہ کی بنیاد پر 22ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جو ٹویٹر کے کل اثاثوں کی موجود قیمت سے دوگنا ہے ۔ اگلے سالوں میں چین میں مڈل کلاس طبقے کی آبادی میں مزید اضافہ متوقع ہے ، جو 2030تک ایک ارب 20کروڑ سے زیادہ افراد تک پہنچ جائے گا ۔ یہ کارنامہ صرف چین نے ہی سر انجام نہیں دیا بلکہ اُس کے نقش قدم پربھارت بھی پیش قدمی کر رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کے مقابلے میں بھارت کا مڈل کلاس طبقہ چینیوں سے بھی زیادہ متحرک ہے ۔ آج ہندوستان میں قریباً 40کروڑ لوگ متوسط طبقے میں کھڑے ہیں اورقریباً آٹھ سالوں میں یعنی 2030تک بھارت میں 80کروڑ سے زیادہ آبادی مڈل کلاس کے دائرے میں داخل ہو جائے گی ۔ دنیا بھر میں مڈل کلاس طبقے کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ طبقہ ہر ملک میں چھوٹے کاروبا ر ، زراعت ، بچت کی سکیموں اور افرادی قوت فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ دوسری جانب یہ مڈل کلا س طبقہ ہی اشیاء کے صارفین کی سب سے بڑی تعداد پیدا کرتا ہے ، جو کاروں ، مو ٹر سائیکلوں ، ٹیلی ویژنوں ، ائیر کنڈیشنرز ، موبائل فونز اور دیگر اہم مصنوعات کی مینو فیکچرنگ میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ متوسط طبقہ ہی ہے جو اپنی ریٹائرمنٹ ، رہائش ، بچوں کی تعلیم اور شادیوں کیلئے بچت کے ذریعے ملک میں کیپٹل کیلے وسائل فراہم کرتا ہے ۔
چین اور بھارت کا متوسط طبقہ جو آج اِن دونوں ممالک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈ ی کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ یہ اچانک اور ایسے ہی اُن کے ہاتھ نہیں لگا ۔ اِن دونوں ممالک نے اپنے غریب طبقے کو غربت سے نکالنے اور اُنہیں مڈل کلاس طبقے میں شامل کرنے کیلئے بہت محنت کی ہے ۔ ہندوستان کی پوری تاریخ میں وہاں کے لوگوں کی اکثریت نے انتہائی غربت دیکھی ہے ۔ زیادہ پیچھے بھی اگر نہ جائیں تو 1985تک بھی بھارت کی 90فیصد آبادی صر ف ایک ڈالر سے بھی کم پر یومیہ زندگی گزارنے پر مجبور تھی ۔ مگر دوسے تین دھائیوں میں وہاں مڈل کلاس طبقے میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا کہ جس نے ہندوستان کو دنیا کی پانچویں سب سے بڑی صارف منڈی بناد ہا ہے ۔
چین کی ترقی اگر حیران کن ہے تو اُس سے بھی کہیں زیادہ حیران کن ہندوستان کی ترقی ہے ۔ نوے کی دھائی میں اور پھر 2002کے بعد ہندوستان نے دنیا کی بہت سی معیشتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اس تبدیلی اور ترقی نے ہندوستان کے کروڑوں خاندانوں کو نئی شکل اور پہچان دی ۔ ہم پاکستانیوں کو ہمیشہ سے ہی پڑھایا گیا ہے کہ آبادی میں اضافہ ایٹم بم سے کم نہیں ہے ۔ واقعی آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح ایٹم بم سے زیادہ خوفناک ہے اگر وہ آبادی ملکی معیشت پر بوجھ بن کر غربت میں یا غربت کی سطح سے نیچے ہی بلکتی ، سسکتی یا تڑپتی ہے ۔ چین اور بھارت نے اپنی آبادی کے بیشتر حصے کو غربت سے نکال کر اپنی ترقی کا وسیلہ بنایا ہے ۔
صد افسوس کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کی طرح اپنے غریب طبقے کو غربت کی سطح سے نکالنے میں کامیاب نہیں رہا ۔ پاکستان میں یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق 2008میں پاکستان میں متوسط طبقے کی شرح 42فیصد تھی جو 2018تک کم ہو کر 36فیصد رہ گئی تھی ، تاہم کمتری کی جانب یہ افسوس ناک سفر ابھی بھی رکا نہیں ۔ آج پاکستان کا متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ کوویڈ 19اور پھر اُس کے بعد شدید ترین مہنگائی سے متاثر پاکستان کا مڈل کلاس طبقہ حالیہ سیاسی بحران سے بھی پریشان ہے ، کیونکہ معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ سیاسی انتشار بھی متوسط اور غریب طبقے کی آمدنی کو متاثر اور ذرائع کو محدود کر رہے ہیں ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
ہم بھی آخر ہیں یکے از متوسط طبقہ
موت کے بعد بھی بیمار سمجھئے ہم کو
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر چین اور بھارت نے یہ کارنامہ سرانجام دے دیا ہے تو پاکستان کیوں اُن کے نقش قدم پر نہیں چل پا رہا۔ اُس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتیں ہمیشہ سیاستدانوں ، دولت مندوں اور طاقتوروں کو رقوم اور مختلف مراعات سے نواز تی آئی ہیں ۔یہ اشرافیہ کا وہ طبقہ ہے جو اگر غیر قانونی طورپر بھی ملکی دولت اور وسائل پر قابض ہے تو کوئی ان کے اس قبضے کو کمزور نہیں کر سکتا۔ پچھلی پانچ دھائیوں سے خسارے کا بجٹ آرہا ہے ۔ اُس سے قبل بھی پاکستان میں کوئی دو دھ کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں ۔ تاہم پچاس اور ساٹھ کی دھائی میں ایک روپے کی ویلیو ایک ڈالر کے برابر ہی تھی ۔ بھارت کی کرنسی ہم سے کمزور تھی ۔ دوسرے امیر ممالک کی کرنسیوں کا بھی روپے کے مقابلے میں زمین آسمان کا فرق نہیں تھا۔ بس پھر ہر طرف سے ہمیں مار پڑنے لگی ۔ ہم ٹوٹتے بکھرتے گئے ۔ معیشت کمزورتر ہوتی گئی ۔ قرض بڑھتا گیا۔ ہم آئی ایم ایف کے غلام ہو تے گئے ۔ بہت سی فاش غلطیاں ہم نے خود بھی کیں ۔ ہم مے مذہبی انتہا پسندی کو بڑھنے دیا۔ ہم ملک کو تعلیم یافتہ کرنے میں ناکام رہے ۔ ہم نے آئی ٹی میں کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا ٹرانسفارم ہو رہی ہے ۔ ہم ہر چیز کو لے کر منتشر اور کنفیوز رہے ۔ ہمیں آج تک یہ نہیں پتہ کہ ہماری آبادی کتنی ہے ۔ ہم آج تک یہ پتہ نہیں چلا سکے ، ہمارے وسائل کیا ہیں ۔ ہمارے مسائل کیا ہیں ۔ ہم لکھاری تھک گئے لکھ لکھ کر ۔ بیچارے قاری تھک گئے پڑھ پڑھ کر ۔ اگر نہیں تھکے تو ہمارے سیاستدان نہیں تھکے اپنی الٹی سیدھی حرکتوں سے !
خدارا ! اب تو کچھ ملک کا سوچ لیں ۔ کچھ ایسی مضبوط معاشی پلاننگ کرلیں ، جسے بدلتی ، بنتی حکومتیں بھی اگلے تیس چالیس سالوں تک جاری رکھے ۔ کیونکہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button