ColumnImtiaz Aasi

جوڈیشل کمیشن اور معظم کا خون .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

وزیراعظم شہباز شریف نے سانحہ وزیرآباد کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کر دیا ہے ۔عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو سراہتے ہوئے ان تین افراد کو اپنے عہدوں سے ہٹانے کی شرط برقرار رکھی ہے جن کے نام انہوں نے ایف آئی آر میں درج کرنے کے لیے دیئے تھے ۔ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر معمولی بات نہیںمقدمہ کے اندراج میں غیر ضروری تاخیر سے فوجداری مقدمات کی قانونی حیثیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک کارکن معظم کی موت کے اتنے روز گذرنے کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہوسکا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے معظم کے لواحقین کی مالی امداد کرکے اچھااقدام کیا ہے ۔عام طور پر پولیس اس طرح کے واقعات میں کوئی مدعی نہ بھی ہو تو مدعی خود بن جاتی ہے قتل کا مقدمہ اسٹیٹ کیس ہوتا ہے۔ تعجب ہے معظم کی نعش کا پوسٹمارٹم ہو نے کے باوجود اس کی موت کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا ۔چلیں عمران خان اور ان کی جماعت کے دوسرے لوگ اس واقعے میں زخمی ہوئے ہیں اللہ تعالی نے انہیں بچا لیا ہے۔وقوعہ کے چند گھنٹے بعد ملزم کا اعترافی بیان سب نے سن لیا جس کے بعد ایف آئی آر میں تاخیر کی وجہ سمجھ سے باہر ہے ۔انسانی خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے ایک شخص دن دھاڑے قتل ہو گیا اور ملزم کی گرفتاری کے باوجودمقدمہ درج نہیں ہو سکا۔
عام طور کہا جاتا ہے کہ عدالتیں ملزمان کو بری کر دیتی ہیں کسی نے اس اہم پہلو کی طرف غور کیا؟ پولیس مقدمات کے چالان میںبہت سے قانونی پہلووں کو نظر انداز کر دیتی ہے جس کا نتیجہ ملزمان کی بریت کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ویسے تو نہیں کہتے کہ ہمارا ملک پولیس اسٹیٹ ہے ۔معظم کیس میں کئی روز گذرنے کے باوجود ابتدائی رپورٹ درج نہیں ہو سکی ہے آخر میں نتیجہ کیانکلے گا۔عمران خان نے اس واقعے کے بعددوبارہ لانگ مارچ شروع کرنے کے ساتھ راولپنڈی پہنچنے کے بعد مارچ کی قیادت خود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس میں دو آراء نہیں عوام عمران خان کے ساتھ ہیںآخر لوگ کب تک سٹرکوں پر رہیں گے اور لاٹھیاں کھا کر آنسو گیس سے اپنی آنکھوں کو معطر کرتے رہیں گے۔ملک میں کوئی ذمہ دار ایسا نہیں جو حکومت اور عمران خان سے بات چیت کر سکے۔ مہنگائی اور بے روز گاری کے مارے لوگ ایک نئی صبح کے انتظار میں کب تک قتل ہوتے رہیں گے۔ لاہور سے گوجرانولہ تک مارچ کے دوران کئی لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔معظم کے قتل سے ہمیں ایک واقعہ یاد آیا۔ایک شخص اپنی اہلیہ کو قتل کرنے کے بعد اس کی نعش سمیت تھانے چلا گیا۔موقع کاکوئی گواہ نہیں تھا۔پولیس نے ایف آئی آر درج کرتے وقت جوکہانی لکھی اس کا خلاصہ یہ ہے ۔ہم دونوں بھائی اپنی بہن کو ملنے اس کے گھر گئے تو ہماری بہن اور بہنوئی کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بہنوئی نے اس دو فائر مار دیئے جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی۔ قارئین یقین کیجئے مقتولہ کے دونوں بھائیوں نے عدالت میں اسی طرح گواہی دی جس کے بعد ملزم کو موت کی سزا ہو گئی۔آخر تمام عدالتوں سے اس کی اپیل مسترد ہونے کے بعد ایک روز اسے پھانسی دے دی گئی۔اس ساری کہانی کے لکھنے کا مقصد یہ بتانا مقصود تھا کہ پولیس کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں اسے جھوٹ کوسچ اورسچ کوجھوٹ میں بدلنے کاملکہ ہے۔
حکومت نے انتخابات کو اپنی اناء کا مسئلہ بنایا ہوا ہے عمران خان ہیں وہ جلد سے جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ ہم عمران خان کی باتوں سے متفق ہیں
جب وہ وزیراعظم تھے انہوںنے کرپشن میں ملوث لوگوں کو سزائیںدلونے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی۔چیف جسٹس کے احکامات کے باوجود وہ احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر سکے۔ وہ اتنے بے بس تھے انہیں اقتدار چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ عمران خان کو صبر سے کام لینا چاہیے کرپٹ سیاست دانوںکے خلاف ان کے بیانیے نے انہیں عوام میں مقبولیت دی ہے نواز شریف اور زرداری کے لیے عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنا محال ہو گیاہے۔ ضمنی الیکشن کانتیجہ سب سے سامنے ہے۔ پارا چنار جو افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ عمران خان کو پارا چنار کے عوام ووٹ دے کر کامیاب کر سکتے ہیں تو کیا باقی صوبوں کے لوگ انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔درحقیقت عمران خان بے صبرے واقع ہوئے ہیں۔بقول شیخ رشید وہ عمران خان سے اسلام آباد کے جلسہ میں اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیتے رہے جس پر انہوں نے کان نہیں دھرا۔اب بھی وہ کے پی کے،پنجاب کے علاوہ گلگت بلتستان کی حکومت ختم کر دیں تو حکومت کے لیے انتخابات کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوگا۔سانحہ وزیرآباد کے بعدعمران خان کو اپنی سکیورٹی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔گو وہ ایک نڈر اور بے باک لیڈر واقع ہوئے ہیںاس کے ساتھ ہمارا دین اپنی حفاظت کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔
عمران خان کو حفظ ماتقدم کے طور پرکنٹینر پر بلٹ پروف شیشہ لگاناچاہیے۔ایک بات ضرور ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ نے حکومت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ایف سی،رینجرز ، سندھ پولیس اور اسلام آباد پولیس پر لانگ مارچ روکنے کے لیے کرڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ایک طرف ملک مقروض اور معاشی بدحالی کا شکار ہے اور دوسری طرف لانگ مارچ کواسلام آباد داخل ہونے سے روکنے پر اتنی بڑی رقم خرچ ہو رہی ہے۔لانگ مارچ اسلام آباد آجاتا تو کون سی قیامت آجاتی۔ وفاقی حکومت نے سانحہ وزیرآباد کے بعد وفاقی دارالحکومت سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری کی واپسی شروع کر دی ہے ۔عمران خان کے لانگ مارچ بارے تازہ ترین اعلان کے بعد وفاقی حکومت کو مختلف اداروں کی نفری دوبارہ بلانے پر کتنی رقم خرچ ہو گی ؟پنجاب پولیس کو معظم کے اہل خانہ سے اس کے قتل کی درخواست لے کر مقدمہ درج کرنے میں کون سی قانونی رکاوٹ تھی جو اب تک ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ہمیں معظم کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا ملال رہے گا۔ایف آئی آر کے اندراج کے ذمہ داروں کویادرکھنا چاہیے ایک روز انہیں معظم کے خون کاضرورحساب دینا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button