ColumnJabaar Ch

پریس کانفرنس .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

اُس پریس کانفرنس کی نوبت نہ آتی تو کہیں بہتر تھا۔یہ باتیں بھی پبلک میں نہ آتیں توکہیں بہترتھا لیکن جب کچھ ایسا ہوتا ہے تو اس کے منفی اور مثبت اثرات ہوتے ہیں اور اس اہم ترین پریس کانفرنس کے بھی ہوئے ہیں اور آگے بھی ہوں گے۔سوال تو یہی ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آرکا تو یہ معمول کا کام ہے لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کو سامنے کیوں آنا پڑا۔اس کی کچھ وضاحت تو ڈی جی آئی نے خود بھی کی بلکہ بار بار کی۔ جواز بہت واضح کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک طرف لوگوں کو الزمات لگانے،دن رات اپنی مرضی کی کہانیاں گھڑنے، فوجی قیادت پر گند پھینکنے کی نہ صرف آزادی بلکہ سہولت میسرہو۔ بڑے بڑے بھونپو دن رات الزامات لگاتے رہیں اور دوسری طرف خاموشی سے سب کچھ سہنے اور سننے پر مجبوررہو۔سوچیں کہ کتنی تکلیف پہنچارہے ہوں گے خان صاحب انہی لوگوں کو جن کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدارمیں آئے ۔جب اپنے ہاتھوں سے تراشے بُت بھگوان بننے کے دعویدار بن جائیں تو تکلیف توہوتی ہے۔یہی حال عمران خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے یارانے کا بھی ہوا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اورعمران خان کا یارانا یا محبت پاکستان کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ تھا۔اس سے پہلے نوازشریف کو بھی یہی درجہ حاصل تھا جب انہوں نے پرپرزے نکالے تو انہیں خودنکلنا پڑگیا تھا یہ دستور ہے کہ آپ جن کی مرضی سے آتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر ادھر ُادھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ڈی جی آئی ایس آئی کو اس لیے بھی خود آنا پڑا کہ خان صاحب جھوٹ اتنا زیادہ بول رہے تھے کہ لوگوں کو سچ کا گمان ہونے لگا تھا۔ یہ تو زیادتی ہے کہ ناں کہ آپ اپنا اقتداربچانے کیلئے ان کے گھٹنے پکڑکربیٹھے رہیں انہیں غیرمعینہ مدت تک کی توسیع کی پیشکش کرتے رہیں۔انہیں عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے لوگوں کودھمکانے کی بھیک مانگتے رہیں لیکن جب ادارہ کہے کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے گا۔ سیاسی لڑائیاں خود لڑیں ہمیں صرف آئینی کردارتک محدود رہنے دیں تو آپ انہی کو اپنا دشمن نمبرون قراردیں؟یہ تو زیادتی ہے نا ں کہ آرمی چیف آپ کو گیارہ مارچ کو امریکی سائفر دکھائیں اور اپنی تشویش کا اظہار کریں لائحہ عمل کے طلبگار ہوں لیکن آپ شان بے نیازی سے کہہ دیں کہ کوئی بات نہیں ایسے مراسلے آتے رہتے ہیں ۔اس پر آرمی قیادت اپنا فرض اداکرکے سکون میں آجائے اور آپ اس وزیراعظم ہاؤس میں سائفر پر’’کھیلنے ‘‘ کی خفیہ پلاننگ کرتے رہیں اوراچانک ستائیس مارچ کے جلسے میں جیب سے خط نکال کر لہرادیں کہ آپ کو نکالنے کیلئے امریکی سازش ہورہی ہے؟یہ بھی تو زیادتی ہے ناں کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد آپ اس کو اپنی ہار ماننے اوراگلے الیکشن کا انتظارکرنے کے بجائے اپنے ہی ملک کے خلاف لٹھ لے کر میدان میں نکل آئیں؟
یہ تو اس سے بھی بڑی زیادتی ہے کہ جب آپ سڑکوں کی خاک چھان کر ناکام ہوجائیں۔جلسے اس حکومت کو گرانہ سکیں۔ آپ کی عوامی مقبولیت آپ کو دوبارہ اقتدار کی کرسی پر نہ بٹھاسکے ۔آپ معاشرے کو تقسیم کرنے کی آخری حد تک ہر کوشش کردیکھیںاور ناکامی آپ کو پھر اسی درپرجانے پر مجبور کردے۔ آپ اپنے صدرعارف علوی کو درخواست کریں کہ ایک ملاقات کا سوال ہے بابا۔ وہ ملاقات مل جائے آپ پھر ’’ان‘‘سے کہیں کہ اقتدارکا سوال ہے۔ ایک بار پھر مجھے ہی کو گود لے لیں ۔اس حکومت کو کسی بھی طرح نکال باہر کریں۔جواب میں آپ کے غیر آئینی مطالبات کو ایک بار پھر ماننے سے ا نکار کردیا جائے اور کہا جائے کہ فوج غیرسیاسی ہے اپنے مسائل آپس میں حل کروتو آپ ایوان صدر سے رات کی تاریکی میں ناکام لوٹ کر آؤ تو صبح ہوتے ہی جلسے میں میر جعفر، میر صادق، چوکیدار ،مسٹر ایکس اور وائے کی گردان شروع کردو؟انسان کا کچھ تو کریکٹر ہونا چاہیے یا نہیں؟یہ کیا کریکٹر ہے کہ رات کو ملاقاتوں کی بھیک مانگواوردن میں انہیں غدارقراردو؟
ڈی جی آئی نے عمران خان کے جھوٹے بیانیوں کو صرف پنکچر ہی نہیں کیا بلکہ ٹیوب ہی پھاڑ ڈالی ہے۔اب دوبارہ جب وہ اس ٹیوب میں ہوا بھرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔اس کے نتائج سامنے بھی آرہے ہیں۔ عمران خان کا لانگ مارچ سات دن سڑکوں پر رہنے کے بعد اسلام آباد پہنچے گا تو دھرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔پہلے دن لاہور میں لوگوں کی وہ تعداد نہیں نکلی جس کی خان صاحب کو توقع تھی۔صرف دس سے بارہ ہزار افراد لانگ مارچ میں موجود تھے ان میں بھی لاہور سے ملتان تک سے لوگ لائے گئے تھے۔لاہور سے لوگوں کے نہ نکلنے پر اسد عمرکو حماد اظہرسے کنٹینرپر لڑتے ہم سب دیکھ چکے ہیں بس اس لڑائی سے سمجھ جائیں کہ لانگ مارچ کا پبلک رسپانس کیسا ہے اور پھر ایسا رسپانس کیوں نہ ہو جب موزے تُنگ بننے والے خان صاحب لانگ مارچ کو پہلے دن داتا دربار میں بے یارومددگار چھوڑکررات کو سونے کیلئے اپنے گھر زمان پارک میں تشریف لے جائیں؟
حکومت کو معلوم ہوچکا ہے کہ لانگ مارچ سے عمران خان کوکچھ نہیں ملے گا۔یہ بات عمران خان پہلے سے جانتے ہیں اور یہ لانگ مارچ کسی انقلاب کا پیش خیمہ ہے اور نہ ہی ملک میں عمران خان کی خواہش پر فوری الیکشن کا سبب بنے گا بلکہ یہ لانگ مارچ ایک سیاسی مجبوری کے سوا کچھ نہیں۔ اگر خان صاحب اب بھی لانگ مارچ نہ کرتے تو ان کے اس لانگ مارچ کی تاخیر پر بننے والے لطیفوں میں مزید تیزی آجاتی ۔لانگ مارچ شو ق نہیں مجبوری ہے۔ لانگ مارچ کیا ہے؟بس جی ٹی روڈ پر آنے والے مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے جلسے ہیں ۔ پہلے بھی ایک دن میں ایک جلسہ ہوتا تھا اب اس جلسے کے ساتھ ایک چھوٹی سی ریلی بھی جڑرہی ہے اور پھر جب لیڈر لانگ مارچ کے شرکاکے ساتھ رات سڑک پر گزارنے کو ترجیح نہ دے تو ایسا لانگ مارچ صرف انہی لوگوں کیلئے کامیاب ہے جو اپنے گھروں میں مہنگے سمارٹ فون سامنے رکھے سوشل میڈیاپرہی انقلاب لانے اور دیکھنے کے عادی ہیں۔
حکومت نے لانگ مارچ کے آغاز میں ہی کابینہ کی نو رکنی مذاکراتی کمیٹی بنادی ہے۔رانا ثنااللہ اس کے سربراہ ہیں ۔لانگ مارچ کے دوران یا اس کے اختتام پر مذاکرات کی نوبت آئے گی یہ طے ہے۔ حکومتی کمیٹی ایک طرح کی پیشکش بھی ہے کہ حکومت مذاکرات کیلئے تیار ہی نہیں بلکہ کمیٹی بھی ریڈی ہے۔ میری اطلاعات ہیں کہ بہت جلد حکومت اور مارچ کرنے والوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوجائیں گے ۔یہی وہ بات تھی جو فوجی قیات بار بار بلکہ ہر بار عمران خان کو سمجھاتی رہی کہ آپ کسی کو چور کہیں اچکا کہیں جب تک آئینی اورقانونی اعتبار سے کوئی حکمران ہے یا اسے سیاست کی اجازت ہے وہ اس ملک کا سٹیک ہولڈر ہے اور آپ کواس سے بات کرنی پڑے گی۔ایسا عملی طورپرممکن نہیں کہ خان صاحب کے سوا اس ملک میں ہر سیاستدان کو کھیل سے آؤٹ کردیا جائے اور بیٹ بھی عمران خان کے ہاتھ میں اور گیند بھی انہی کے پاس ہو وہ جس کو چاہیں اپنا وسیم اکرم کہہ کر کام پر لگادیں اور جس کو چاہیں وسیم اکرم پلس کہہ کر دل خوش کرتے رہیں اور اس ملک کی تباہی کا باعث بنتے رہیں ۔ اس ملک میں بہت سے سٹیک ہولڈر ہیں ۔اگر آپ نے کھیل کیلئے میدان میں آنا ہے تو جوبھی مخالف ہوگا اس کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑے گا اور ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ کیلئے کوئی اور مخالفین کو راستے سے ہٹائے اور جب میدان صاف ہوجائے تو آپ اپنی فتح کا اعلان کرنے میدان میں آجائیں۔خان صاحب حالات بدل چکے ۔آپ اقتدار میں کیسے آئے اس سوال کا جواب ڈی جی آئی ایس آئی پریس کانفرنس میں زیر لب مسکراکربہت وضاحت سے دے گئے ہیں۔اسی لیے میں سمجھتا ہوںاس پریس کانفرنس کی نوبت نہ آتی تو کہیں بہتر تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button