ColumnM Anwar Griwal

اُستاد کو ہتھکڑی یا اُستاد کا احترام!! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر رات کے پچھلے پہر مذہبی منافرت پر مبنی پوسٹر لگا رہا تھا کہ پولیس کو مخبر نے اطلاع کر دی، پولیس موقع پر پہنچ گئی اور ملزم کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ اِس خبر کی بِھنک لوگوں کے کانوں میں پڑ گئی ، لوگ تھانے پر جمع ہونے لگے، رش کچھ بڑھا تو تھانے کو تالا لگا دیا گیا۔ اگلی صبح تحصیل بار کونسل نے مکمل ہڑتال کا اعلان کر دیا، پریس کلب نے بھی اظہارِ یکجہتی کیا۔ اُدھر ہیڈ ماسٹر کو ہتھکڑیاں لگا کر سول جج کی عدالت میں پیش کیا گیا، حسبِ روایت اگلے روز کی پیشی مل گئی اور ملزم کو جیل روانہ کر دیا گیا، جیل والوں نے دھوتی پہنے قیدی کو داخلے کی اجازت نہیں دی، یوں قانونی کارروائی پوری کرنے کیلئے لنڈے سے ایک شلوار خرید کرپہنوائی گئی۔ (جیل میں کیا واقعہ پیش آیا، اس کی روداد انشاء اللہ پھر کسی روز )۔ جیل میں پہلا دِن ہی تھا کہ ضمانت ہوگئی اور شام کو رہائی کا پروانہ مِل گیا۔ ایف آئی آر دراصل جھوٹ پر مبنی تھی۔ ملزم کوئی پوسٹر نہیں لگا رہا تھا، بلکہ گھر میں سویا پڑا تھا کہ پولیس نے رات گیارہ بجے زور دار دستک دی، باہر آنے پر پولیس نے ڈی ایس پی کے بلانے کی خبر دی، دو ڈالے بھی ساتھ تھے، چنانچہ معاملہ مشکوک تھا۔ تھانے پہنچنے پر بتایا گیا کہ آپ نے کوئی آرٹیکل لکھا ہے، جس میں مذہبی منافرت کے جذبات بڑھکانے کا عنصر شامل ہے۔
اقبال بیبرس خیر پور ٹامیوالی (بہاول پور کی چھوٹی اور پسماندہ تحصیل) کے مضافات میں ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں، پانچ برس قبل اُن کا تبادلہ وہاں ہوا تھا، تب یہ سکول مڈل تھا، دو برس قبل اِسے ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ سرکاری سکول محض تین کنال اراضی پر مشتمل ہے، مگر ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے ایک مشنری طریقے سے چلایا اور دوسروں کیلئے مثال بنا دیا۔ سکول میں داخل ہوتے ہی ایک قدِ آدم آئینہ موجود ہے، جس کے ساتھ رنگ برنگی کنگھیاں رکھی گئی ہیں، کہ ہر طالب علم داخل ہوتے ہی اپنی شخصیت پر نگاہ ڈالے، بال سنوارے، جوتے کو برش سے صاف کرے، تب اندر جائے۔ سکول میں تمام کمروں کی چھتیں فال سیلنگ سے آراستہ ہیں، حصہ پرائمری کے تمام کمروں کے دروازے شیشے کے ہیں، پلے گروپ یا نرسری کلاس کیلئے الگ ’’کِڈ روم‘‘ ہے، جس میں تمام دیواریں تصویروں اور بچوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پوری کر رہی ہیں، خوبصورت فرنیچر موجود ہے۔ سائنس کیلئے ملٹی میڈیا کی سہولت موجودہے، جو کہ بہاول پور کے ایک سابق اسسٹنٹ کمشنر رائو تسلیم نے لاہور سے سکول کیلئے عطیہ کیا۔ تمام کمروں کی فال سیلنگ مکمل طور پر لوگوں کے عطیات سے لگائی گئی ہیں، کمروں میں رنگ و روغن اور پنکھے تک کیلئے لوگوں کی ڈونیشن شامل ہے۔
سکول کی صفائی مثالی ہے، جبکہ درجہ چہارم کی تین سیٹیں عرصہ چار سال سے خالی پڑی ہیں، ایک موجود تھا وہ بھی تبادلہ کروا کے جا چکا ہے۔ باہر سے خاکروب کا بندوبست کیا گیا ہے، جو واش روم وغیرہ صاف کر جاتا ہے۔ پورے سکول میں ایک تنکا بھی کچرے کے ضمن میں دکھائی نہیں دے گا، کلاس روم اور برآمدوں میں بھی ڈسٹ بِن رکھی گئی ہیں۔ جو بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک پودا بھی سکول میں لگائے گا، جگہ کم ہونے کی وجہ سے اب درخت نہر کے کنارے پر لگائے جاتے ہیں، جو کہ سکول کے سامنے ہی واقع ہے۔ سکول میں بچوں کی دلچسپی کیلئے پرندے رکھے گئے ہیں، جن میں طوطے، کبوتر، سرخاب اور مور وغیرہ شامل ہیں۔ دن میں مور باہر چلتے پھرتے پائے جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو ڈسپلن، تربیت، احترام وغیرہ کے ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ پرندے آپ کے ہیں، بچوں کی اپنائیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بچے گھر سے چُوری اور کھانے کی دیگر چیزیں پرندوں کیلئے لے آتے ہیں، بچے سکول ا ور پرندوں سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیںکہ والدین کو انہیں واپس لے جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ پرندے سکول میں بچوں کے کندھے پر بھی آبیٹھتے ہیں۔ رمضان المبارک میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت پڑھنے پر پانچ بچوںکو سپورٹس سائیکل انعام دی گئیں۔ گزشتہ دنوں فیس بک پر تصویریں دیکھی گئیں،جن میں اس سکول کے بچوں کو سکول میں ہی مسواک کروائی گئی۔ سکول میں قرآن کارنر بنایا گیا ہے، جہاں قرآنی تعلیمات سمیت نماز کا اہتمام ہوتا ہے۔ تمام اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور محنتی ہیں، سٹاف کم ہونے کے باوجود اُن کی محنت اور لگن سے بچوں کی تعداد دُگنی ہو چکی ہے۔ مستحق بچوں کو مفت یونیفارم دیا جاتا ہے، 54بچوں کی یونیفارم الخدمت فائونڈیشن نے عطیہ کی ہے۔
کالم کی تنگ دامانی آڑے آرہی ہے، آئیے اب ملزم ہیڈ ماسٹر کی غیر نصابی اور سماجی سرگرمیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ جس پر مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام ہے، وہ خیر پور ٹامیوالی کی امن کمیٹی کا پندرہ برس سے ممبر ہیں، جن کی کوششوں سے شیعہ سُنی اتحاد ہوا، دونوں گروہوں کو اُنہوں نے ایک دسترخوان پر جمع کیا، دونوں کو شہر میں شِیر و شکر کیا۔ الخدمت فائونڈیشن کی سرپرستی بھی اُن کے پاس ہے، جس کی بنا پر وہ سماجی اور ادبی تقریبات کرتے اور مختلف شعبوںمیں خدمات سرانجام دینے والوں کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ اُن کی زندگی ایک مِشن ہے، آرام سے بیٹھنا اُن کیلئے جرم ہے۔ شہر کی سڑکوں پر درختوں کی دیکھ بھال میں بھی اُن کا تعاون شامل ہے۔ اُنہیں پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق ہے، اُن کی تحریر ہمیشہ بھونچال پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
اقبال بیبرس کی گرفتاری سے پورا شہر جذباتی ہوگیا۔ ہر کسی نے اظہارِ یکجہتی کیا۔ اُن کا جو مضمون وجہ نزاع بنا وہ خیر پور کے شاندار ماضی ، مخدوش حال اور تاریک مستقبل کے بارے میں تھا، کسی قبضہ مافیا پر بھی زد آئی، جو شہر کا ایک ناکام سیاستدان ہے، وکیل ہونے کا زعم بھی تھا۔ اس نے اپنی انا کی تسکین کیلئے جھوٹا مقدمہ کروایا۔ مگر شہر کے بچے بچے نے ہی نہیں، بڑوں نے بھی گواہی دی کہ اُن کا استاد ایک مثالی اور محترم استاد ہے، عوام کے اِس جذبے اور عمل سے اُستاد کا سَر بھی فخر سے بلند ہے، کہ کون کہتا ہے کہ استاد کا احترام ختم ہو گیا؟ اُستاد محترم کیلئے جمعۃ المبارک کو مساجد میں جہاں مذمت کی قرار دادیں منظور کی گئیں وہاں اُستاد کی صحت، سلامتی اور خیریت کی دعائیں بھی کی گئیں، اُدھر جھوٹی انا والے قبضہ مافیا اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہوں گے۔ یہی فرق ہے اِس جھوٹی ایف آئی آر کا ، اور اُستاد کے احترام کا!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button