ColumnRoshan Lal

پھر سے لانگ مارچ .. روشن لعل

روشن لعل

 

عمران خان ایک مزید لانگ مارچ پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کا آغاز کر چکے ہیں۔ عمران خان کے حالیہ لانگ مارچ کا مثبت یا منفی شکل میںکیا حتمی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اس پر مختلف مکاتب فکر کے لوگ اپنے اپنے فہم اور کسی حد تک خواہشوں کے مطابق رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ جس وقت یہ سطور رقم کی جارہی ہیں اس وقت تک کی صورتحال شاید عمران خان کیلئے زیادہ حوصلہ افز ا تصور نہیں کی جاسکتی۔ عمران خان اپنے لانگ مارچ کو حکومت پر قبل ازوقت انتخابات کے اعلان کیلئے دبائو ڈالنے سے جوڑ رہے ہیں جبکہ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے لانگ مارچ کا براہ راست تعلق نئے آرمی چیف کی تقرری موخر کرانے کی کوششوں سے ہے۔ ان مبصرین کا ماننا ہے کہ عمران خان جلد انتخابات اور نئے آرمی چیف کی تقرری موخر کرانے کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ قبل ازوقت انتخابات میں جیت کر وہ وزیر اعظم بنیں اور خود نئے آرمی چیف کا تقرر کریں۔ عمران خان کی اس خواہش کے آئینی و قانونی طور پر قابل جواز ہونے سے متعلق جس طرح ابہام موجود ہے اسی طرح لانگ مارچ کی کامیابی کا حصول بھی مبہم نظر آرہا ہے۔ عمران خان اور ان کے لانگ مارچ سے جڑے ابہاموں کا اونٹ آنے والے دنوں میں کس کروٹ بیٹھے گا ، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ لہٰذا زیادہ بہتر یہ ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کوئی پیش بینی کرنے کی بجائے یہ بتایا جائے کہ ماضی قریب میں جو لانگ مارچ ہوئے ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے اور مختلف لوگوں کی سیاسی زندگیوں پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔
لانگ مارچوں کے حوالے سے یہاں بات 2008 سے شروع کی جارہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میںیہاں جمہوریت کی ناتواں گاڑی کا سفر امید و یاس کے جھٹپٹے میں شروع ہواتھا۔اس وقت جمہوری نظام کے استحکام کی خواہش کی موجودگی کے باوجود وہ ایسا اہتمام بھی صاف نظر آرہا تھا جس کا مقصد اس طرح کی خواہشوں کو بے رحمی سے کچلنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت قائم ہونے کے فوراً بعد ججوں کی بحالی کے نام پر 12 جون2008 کو وہ لانگ مارچ شروع ہوا جس کی قیادت اعتزاز احسن نے کی ۔ وکلا تحریک کے دوران اعتزاز احسن اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری قریباً غیر متنازعہ قومی ہیرو بن کر ابھرے تھے۔ افتخار محمد چودھری تو کچھ عرصہ بعد زوال پذیر ہوئے مگر اعتزاز احسن کا بطور ہیرو ،بتدریج زوال 12 جون 2008 ء کے لانگ مارچ کے اختتام کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ جو لانگ مارچ افتخار محمد چودھری کی بحالی کے نعروں کے ساتھ شروع ہو اتھا اس میں شامل کچھ شرکاء کی خواہش ایک ماہ قبل منتخب ہونے والے صدر زرداری اور ان کی پارٹی کی حکومت کی رخصتی بھی تھی۔ اس طرح کی خواہش رکھنے والوں میںتحریک انصاف کے لوگوں کی تعداد اس لیے زیادہ تھی کیونکہ یہ جماعت 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے اسمبلیوں اور اقتدار سے باہر تھی۔ لہٰذا 2008 ء کے لانگ مارچ میں ان کی خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح ان کیلئے نئے انتخابات کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہو جائے۔ جب اس لانگ مارچ کے اختتام پر ان کی خواہشیں پوری ہونے کا امکان ختم ہو گیا تو انہوں نے اعتزاز احسن کو اپنے غصے کا نشانہ بنایا ۔ یوںلانگ مارچ کے آغاز پر جو اعتزاز ان کیلئے ہیرو تھا وہ چند گھنٹوں کے اندر زیرو بن گیا۔اس کے بعد مارچ 2009 کے لانگ مارچ کے دوران بھی تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کی خواہش تھی کہ افتخار محمد چودھری کی بحالی کے ساتھ ہی زرداری حکومت کا بھی خاتمہ ہوجائے۔ جب ان کی خواہشیں پوری کیے بغیر ہی اسلام آباد کی طرف رواں دواں مارچ گوجرانوالہ میں ختم ہو گیا تو پھر تحریک انصاف کی توپوں کا رخ اعتزاز احسن کے ساتھ میاں نواز شریف کی طرف بھی ہو گیا۔ وہ دن اور آج کا دن ، میاں نوازشریف تو بدستور تحریک انصاف کیلئے ولن ہیں مگر وہ اعتزاز احسن جسے قبل ازیں زیرو سمجھ لیا گیا تھا اب ضرورت کے مطابق دوبارہ ہیرو تصور کیا جانے لگا ہے۔
پیپلز پارٹی نے تو 2008 سے 2013 تک جیسے تیسے اپنے پانچ سال پورے کر لیے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے مسلسل درد سر بنے رہنے والے نوازشریف کیلئے عمران خان ان سے بھی زیادہ بڑا عذاب ثابت ہوئے۔عمران خان نے 2014 میں میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کا آغاز تو بڑے کروفر کے ساتھ کیا مگر خود کو حاصل بادشاہ گروں کی تمام تر امداد اور تعاون کے باوجود بھی وہ نواز حکومت کو نہ گرا سکے کیونکہ جمہوریت کے استحکام کے نام پر پارلیمنٹ میں زرداری کی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون سے بڑھ ان کی حکومت بچانے میں کردار ادا کیا۔عمران خان کے لانگ مارچ اور 126 روزہ دھرنے کا انجام بہت بری ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوا مگر یہ ناکامی آرمی پبلک سکول کے اندوہناک دہشت گرد حملے کی آہ و بکا میں چھپ گئی تھی۔ اس کے بعد عمران خان نے نومبر 2016 میں پانامہ لیکس کی آڑ میں لانگ مارچ اور اسلام آباد کے لاک ڈائون کا اعلان کیا ۔ اس لانگ مارچ سے بھی نوازشریف حکومت کا براہ راست خاتمہ تو ممکن نہ ہوا مگر ایسے عدالتی عمل کا آغاز ضرور ہو گیا جو آخر کار میاں نوازشریف کی نااہلی پر منتج ہوا۔
میاں نوازشریف کی نااہلی کے باوجود مسلم لیگ نون کی حکومت ختم نہیں ہو سکی تھی اور شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ میں اس جماعت نے اپنی پانچ سالہ حکومت کا باقی ماندہ عرصہ پورا کیا ۔ نون لیگ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کو اسی طرح دھاندلی کے الزامات کے تحت متازعہ بنایا گیا جس طرح انہوں نے میاں نوازشریف کی حکومت کو بنایا تھا۔ عمران خان کی اس حکومت کے خاتمہ کو مقصد بنا کر مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر 2019 کو کراچی سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔ 13 نومبر 2019 تک جاری رہنے والا یہ لانگ مارچ بھی سابقہ لانگ مارچوں کی طرح اپنا اعلان کردہ مقصد حاصل کیے بغیر ختم ہوگیا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی عمران خان کے خلاف لانگ مارچ کیے مگر ان لانگ مارچوں کا مقصد کسی غیر آئینی طریقے سے تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ نہیں تھا۔ ان لانگ مارچوں کے دبائو کی صورت میں عمران خان کی حکومت کا آئینی طور پر خاتمہ ممکن ہوا ۔
اپریل میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے مئی میں بھی ایک لانگ مارچ کیا جو بری طرح ناکام رہا۔ سابقہ ناکام لانگ مارچوں کے تناظر میں غور کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے موجودہ لانگ مارچ کی کامیابی کے امکانات کس حد تک ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button