ColumnQaisar Abbas

کچھ گھاؤ ہیں جو بھرتے ہی نہیں .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

کچھ زخم مندمل نہیں ہوتے۔ وہ زخم ہم نے خود اپنے وجود کو چھلنی کرنے کے لیے اپنی جھولی میں ڈالے تھے اور اس کے عوض آسائشیں حاصل کی تھیں۔ اپنی مٹی سے نکل کر در در کی خاک چھاننے کا فیصلہ ہمارا اپنا تھا ۔ درختوں کی چھاؤں کے بدلے ائر کنڈیشنر اور صاف و شفاف ہوائیں چھوڑ کر آلودگی ہمارا اپنا انتخاب تھا ۔جس آب و ہوا نے ہمیں ترتیب دیا تھا اور جگنوؤں کی روشنی میں شبنم کے الہام کے مناظر بخشے تھے ، ہم انہیں صرف اس لیے چھوڑ آئے کہ ایک بہتر مستقبل اپنی مٹھی میں قید کر سکیں۔ بند مٹھی سے ریت کی مانند ذرا ذرا بکھرتا جاتا مستقبل سانسوں کی گنتی گھٹاتا جاتا ہے ۔ ایک گھاؤ جسے بھرنے کی کوشش میں ہم تہی دست ہوتے جاتے ہیں ۔ اندر کے اندھیروں کو مرکری بلبوں سے شکست دینے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
اندر کے خالی پن کو روحانی وظائف اور کبھی کسی تسبیح سے وصول ہوتے سکون سے بھر دینے کی سعی کرتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں ۔ بدن سے اکھڑ چکی مٹی کی تہہ پر حالات کے سنگ مرمر کا لیپ چڑھاتے ہیں مگر مایوس رہتے ہیں ۔ بڑی بڑی تقریبات اور میلے منعقد کرتے ہیں کہ تنہائی مات کھائے مگر مزید تنہا ہو جاتے ہیں ۔ ہم نگری نگری اور ان دیکھے جہانوں کی طرف سفر کرتے ہیں کہ ادراک ذات کا کوئی زینہ نصیب ہو مگر برفیلے جہانوں سے آواز آتی ہے کہ نہیں تم اپنے اجسام کی بنیادی اکائی کو کہیں گم کر بیٹھے ہو تو یہاں کیا ڈھونڈتے ہو ؟
ہم نے جسم کی راحت کے لیے جو ذات کی نفی کرنے کی غلطی کی تھی ، اسی کے کفارے میں ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں ۔ نئی منزلیں کچھ دیر کے لیے سہی، راحت کا سبب بنتی ہیں ۔
اب کی بار بھی جب برف پگھلنے کے موسم آئے تو ہم بدن کی اکھڑتی تہہ کو برف اور پتھر کا لیپ دینے کے لیے ان مکانوں سے نکل پڑے جسے لوگ گھر کہتے ہیں۔ فوزیہ کا میرے ساتھ یہ پندرہواں سفر تھا اور عون کا چودھواں ۔ حجاب اور آیت بھی کئی سالوں سے شریک سفر تھیں ۔ راشد ، کنول اور عبداللہ ہم سے پہلے تیار تھے ۔
ناران میں ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی اور اسرار چودھری ، سحاب احمد اور نبیہا کو ساتھ لئے آن ملے ، انہوں نے تو شوگراں جانا تھا مگر اسی شام انہوں نے مشکل راہوں پر سفر کا فیصلہ کر لیا ۔
ناران میں جو بلندی ہے ، جیسے پہاڑ ہیں اور جتنی ندیاں ہیں ، کیا اس سے آگے کچھ مختلف ہے جس کی کشش آپ کو مشکل سفر کے عذاب میں مبتلا کرتی ہے ؟ ڈاکٹر عینی کا سوال دراصل آبلہ پائی کے خوف کا اظہار تھا۔
یہ پہاڑ انسان کی عادات سے مانوس ہو چکے ہیں ۔ چیخ و پکار ، ڈیزل کا دھواں ، مصنوعی روشنیاں اور غلاظت یہاں کی فطرت کو نگل چکی ہے اس لئے خود کلامی اور ادراک ذات کے لیے ہم نے وہاں جانا ہے جہاں یہ سب کچھ نہ ہو اور جو کچھ ہو وہ ہمارے جیسا ہو۔ کسی ندی کے پہلو میں ، پتھر بن چکی برف پر نصب خیمے میں ہم اپنی ہی سانسوں کی آوازیں سننے کے لیے وہاں جائیں گے جہاں مہذب لوگ نہ پہنچ سکتے ہوں کہ جدید تہذیب نے جگنو ، چاند ، ستارے اور ہواؤں کی سرگوشیاں چھین کر مصنوعی آلات ہماری زندگی کی شہ رگ پر گاڑھ دئیے ہیں ، جہاں وقت اس تیزی سے گزرتا ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانک بھی نہیں سکتے ۔ ہم ترقی کے نام پر اپنی ذات کی غربت میں دھکیلے جا چکے ہیں ۔ ہمارے اطراف میں جو میلا لگا ہے یہی ہمیں تنہا کرتا جاتا ہے ۔ ہم چند دن کے لیے غیر مہذب ہو کر ، فقیر بن کر ، جنگلی زندگی اوڑھ کر جینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہم وہاں جائیں گے جہاں راستے نہیں جاتے۔ میرے جواب پر انہوں نے سفر کا ارادہ کر لیا اور رنگ دی گئیں۔
ایک تنہا اور چھپی ہوئی وادی کی زیارت نے دنیا بھرکے مہذب ایوانوں میں ان کے لیے دعائیہ تقاریب کا انعقاد کیا تو ڈاکٹر عینی خود کلامی کے لمحات کی عطا کو تسلیم کر چکی تھیں ۔ نلتر وادی امریکہ ، برطانیہ سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کا موضوع تھی اور خراج کا رخ ان مسافروں کی طرف تھا جو چھپ کر ، چپ چاپ کسی تنہائی کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔
ہر بار کی طرح گمنام وادیوں نے وجود کے اکھڑتے ہوئے ذرات کو سمیٹ دیا تھا اور زندگی میں جینے کی آرزو انڈیل دی تھی ۔ کچھ دیر کے لیے سہی وہ گھاؤ مندمل ہوتا محسوس ہو رہا تھا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button