CM RizwanColumn

ایک اور صحافی کی حادثاتی موت ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

یہ بات تو اب بہت پرانی ہو کر ناقابل تردید تلخ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ پاکستان صحافیوں کیلئے محفوظ ملک نہیں۔ یہاں صحافت کرنا اس قدر قیمتی ہو گیاہے کہ یہاں بعض صحافیوں کو اکثر اپنی اور اپنے پیاروں کی جانیں قربان کرنا پڑ جاتی ہیں۔ ایک طرف یہ ظلم ہے کہ پاکستانی صحافی حادثاتی موت کا شکار ہو جاتے ہیں تو دوسرا اندھیر یہ ہے کہ بعد ازاں ان کے قتل یا حادثاتی موت کی وجوہات، اسباب اور قاتل یا سازشی چہرے بھی منظر عام پر نہیں آتے۔ جیسے ہی کوئی پاکستانی صحافی اپنے دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں سب دیکھ رہی ہیں تو نجانے کیوں اس کی آنکھیں بند کر دی جاتی ہیں۔ ایک انسان ہونے کے ناطے کوئی بھی صحافی کیسے زندہ رہ سکتا ہے جبکہ دنیا بھر میں شعور اور خبر کے دشمنوں کا نیٹ ورک انتہائی طاقتور طریقہ سے اس کے تعاقب میں ہو۔
گزشتہ رات کینیا کے شہر نیروبی میں ایک پاکستانی سینئر صحافی ارشد شریف کی حادثاتی موت بھی پہلے لمحے سے ہی متنازعہ ہو گئی ہے کہ بعض خبررساں اداروں نے شروع میں اسے حادثہ کے نتیجہ میں واقع ہونے کی خبر دی پھر کچھ اطلاعات یہ تھیں کہ انہیں مارا گیا ہے۔ پھر یہ اطلاع تھی کہ انہیں سر پر گولی مار کر شہید کردیا گیا۔
ممتاز صحافی اور اینکر ارشد شریف مبینہ طور پر کچھ عرصہ پہلے کینیا کے شہر نیروبی پہنچے تھے۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ارشد شریف کی وفات نیروبی میں حادثے کے دوران ہوئی، تاہم ابھی مکمل تفصیلات واضح نہیں ہوئیں۔ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے اپنے ایک ٹویٹ میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا ہے۔ جویریہ صدیق کا کہنا تھا کہ آج صبح پولیس نے آکر بتایا کہ ارشد شریف کو کینیا میں مار دیا گیا ہے، میری درخواست ہے کہ ارشد شریف کی کینیا کے مقامی ہسپتال میں لی جانے والی آخری تصویر کو شیئر نہ کیا جائے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ارشد شریف کے مبینہ قتل کی تحقیقات کیلئے درخواست پر سماعت بھی ہوئی ہے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور خارجہ سے ایک دن میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے انہیں ارشد شریف کے اہل خانہ سے رابطے کا حکم دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ سینئر صحافی ارشد شریف طویل عرصے سے ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ تھے، تاہم کچھ عرصہ قبل وہ خود ساختہ جلا وطنی کے دوران دبئی اور لندن میں مقیم رہے اور ان کی غیر موجودگی میں اس چینل نے اعلان کیا تھا کہ ارشد شریف اب ہماری ٹیم کا حصہ نہیں رہے۔ارشد شریف کے انتقال کی خبر پر وزیراعظم شہبازشریف، صدر عارف علوی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور دیگر سیاسی سماجی شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی حادثاتی موت کی خبر نشر ہوئی اس کے بعد پاکستان کے مقامی میڈیا نے بھی ذرائع سے ارشد شریف کی
موت کی خبر نشر کی۔ نجی ٹی وی چینل کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے تعزیتی ٹویٹ میں کہا کہ انہیں اس خبر پر یقین نہیں ہو رہا اور اس واقعے پر کہنے کو کوئی الفاظ نہیں مل رہے۔ پاکستان کے کئی نامور صحافی اور سماجی کارکن اس مبینہ قتل کی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو اس معاملے کی فوری اور شفاف تحقیقات کرانا ہوگی۔ صحافی مظہر عباس نے عالمی صحافتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے سینئر اینکر پرسن اور صحافی کی حادثاتی موت کی تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا جائے۔تاہم پاکستانی حکومت کو کینیا کے حکام پر فوراً یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ تحقیقات کریں۔ یادرہے کہ 2019 میں ارشد شریف کو صدر عارف علوی کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
نیروبی کینیا کا دارالحکومت ہے۔ 1899ء میں قائم ہونے والا یہ شہر 1907ء میں ممباسا کی جگہ ملک کا دارالحکومت بنا۔ یہ شہر جنوبی کینیا میں دریائے نیروبی کے کنارے واقع ہے۔ نیروبی آبادی کے لحاظ سے مشرقی افریقہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ جس کی آبادی 1999ء کی مردم شماری کے مطابق 30 سے 40 لاکھ کے درمیان ہے۔ 1899ء میں ایک ریلوے چھاؤنی کی حیثیت سے قائم ہونے والا یہ شہر ترقی پاتے ہوئے اب کینیا کا سب سے بڑا اور افریقہ کے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا ہے۔ نیروبی اقتصادی و سیاسی لحاظ سے افریقہ کے اہم شہروں میں شمار کیا
جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے عام شہروں کی طرح نیروبی کے نواح میں بھی کچی آبادیاں واقع ہیں جو زیادہ تر روزگار کی تلاش میں آنے والے دیہی علاقوں سے آنے والے افراد سے آباد ہیں۔ نیروبی جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث مسائل کا شکار ہے اور ایک خطرناک شہر کی حیثیت سے مشہور ہے۔2001ء میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی شہری خدمات کے ادارے نے نیروبی کو دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں میں شمار کیا تھا۔ شہر میں جرائم کی بڑی وجہ قرب و جوار کے علاقوں سے آنے والے افراد کو روزگار نہ ملنا سمجھی جاتی ہے جو کچی آبادیوں میں مقیم ہیں۔ شہر کے بیشتر بڑے گھروں میں چوکیدار اور محافظ کتے رکھے جاتے ہیں۔ سیاحوں کو بھی تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اپنی قیمتی اشیاء ظاہر نہ کریں اور رات کے وقت شہر کے مرکز میں نہ گھومیں۔ کچی آبادیوں کے علاوہ نیروبی کے بیشتر علاقے نسبتاً بہتر رہائشی سہولیات کے حامل ہیں۔ خصوصاً شہر کے مغربی
علاقے میں اچھے گھر واقع ہیں۔ برطانوی افراد نے لنگاٹا اور کیرن میں اپنی رہائش گاہیں بنائی تھیں اور آج درمیانی اور زیادہ آمدنی کے حامل افراد پارک لینڈز، ویسٹ لینڈز، ہرلنگھم، ملیمانی اور نیروبی ہل کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ شہر کی معروف قیام گاہوں میں ہلٹن، انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل، سفاری پارک، نیو اسٹین لے ہوٹل، گرینڈ ریجنسی اور نورفوک ہوٹل ہیں۔ آخر الذکر شہر کی قدیم ترین قیام گاہ ہے۔ پناری ہوٹل شہر کی پانچ ستارہ قیام گاہوں میں نیا اضافہ ہے جو 2006ء میں کھولا گیا۔
سب کو یاد ہے کہ سابقہ دور حکومت میں ارشد شریف سابق وزیراعظم عمران خان کے حامی اور ان کی پارٹی اور حکومت کی پالیسیوں کے حدی خوان رہے تھے۔ پھر ان کی عمران خان اور ان کی جماعت کے بیانیے سے وابستگی اور ان کی ترجمانی اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ گئی جب عمران خان کے خلاف اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ اس تحریک کے عروج پر عمران خان نے جب یہ بیانیہ لانچ کیا کہ ان کی حکومت کوگرانے کیلئے امریکہ اورمقامی افراد سازش کر رہے ہیںتو بھی ارشد شریف، عمران خان کی ترجمانی بھرپور طریقے سے کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب عمران خان جو بات مختلف اشاروں کنایوں سے کرتے ارشد شریف اپنے تجزیات اور تحریروں میں وہ بیان کردیتے ۔یہاں تک کہ ارشد شریف کا سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن جائے والا سوال’’ وہ کون تھا‘‘ دہائی دینے لگا کہ ارشد شریف نہ صرف ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے مستقل پروگرام میں عمران خان کے حق میں تجزیات اور تبصرے پیش کرتے ہیں بلکہ وہ ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر بھی اپنا مدعا بیان کرنے میں اپنے ہم خیال صحافیوں میں سب سے آگے ہیں۔ پھر یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ارشد شریف نے کہا تھا کہ مجھے پاکستان میں جان کا خطرہ ہے اور مجھے گمنام ٹیلی فون کالوں کے ذریعے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اسی بنا پر وہ چند ماہ قبل بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ایئر پورٹ سے بیرون ملک جاتے ہوئے ان کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور اس پر دونوں اطراف سے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین نے آرا دیں۔ چند روز قبل یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ ساؤتھ افریقہ روانہ ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ رات یہ روح فرسا اور تشویشناک خبر سننے کو ملی کہ وہ کینیا کے شہر نیروبی میں حادثاتی موت کا شکار ہو گئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button