ColumnNasir Naqvi

تاریخ کے بڑے فیصلے ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

ستمبر دعووں اورنعروں کے باوجود ستمگر ثابت نہیںہو سکا،البتہ سیاسی ہنگامہ خیزی بھی ہوئی اور معاشی اتار چڑھائو بھی کھل کر سامنے آ یالیکن ہم نے تو نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے ملاقاتوں کے شور میں بھی حالات بگڑتے سنبھلتے محسوس ہوئے، اکتوبر نے سیاستدانوں کے طوطے اڑا دئیے، سیاسی کبوتر بھی موسمی تبدیلی کو پرکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، دیکھیں2023 میں انتخابات سے پہلے کونسا سیاسی کبوتر کس چھتری کا انتخاب کرتا ہے، تاہم 2022 اکتوبر تین بڑے فیصلوں کے حوالے سے ہمیشہ پاکستانی تاریخ میں زیر بحث رہے گا ،پہلا فیصلہ الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے بقول عمران خان ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور مقبول ترین لیڈر کو ناجائز طور پر نا اہل کرناہے، اس جانبداری پروہ عدالت جا کر اپنی بے گناہی ثابت کر یں گے۔ کیونکہ توشہ خانے کے پہلے چور آ صف علی زرداری اور نواز شریف کے خلاف کوئی کارروائی نہیںہوئی، تاہم یہ بات دلچسپ ہے کہ انھوں نے اپنی چوری سے انکاری نہیں کی،ردعمل میں پورے ملک کے طول وعرض میں مظاہرے ہوئے لیکن عمران نے ردعمل نہ ہونے پر مظاہرے ملتوی کر کے لانگ مارچ کی تیاری کی ہدایت کرتے ہوئے عہد کیا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں حقیقی آ زادی کی تحریک کو جہاد سمجھ کر جاری رکھیں گے اور انھیں توقع ہے کہ ان کی کال پر قوم تاریخی مارچ کرکے امپورٹڈ حکومت کا دھڑن تختہ کر دے گی ان کا دعویٰ ہے کہ ایسا احتجاج نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی اسکے بعد کوئی کر سکے گا اس نااہلی کے بعدعمران خان پاکستان کے تیسرے نااہل وزیراعظم کا اعزاز پانے والوں میں شامل ہو گئے ہیں مستقبل میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمی انہیں کس حد تک ریلیف دے گی یا نہیں،یہ وقت بتائے گا ان سے پہلے نااہلی کا اعزاز نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی پا چکے ہیں اس فیصلے کے بعد پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیوں کا نااہلی سکور ایک ایک سے برابر ہو گیا ہے۔
اکتوبر 2022 کادوسرا بڑا فیصلہ سپہ سالار پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے جنہوں نے ایک تقریب میں یہ اعلان کیا کہ میں اپنے عہدے کی توسیع نہیں لوں گا پانچ ہفتوں میں ریٹائر ہو جائوں گااور جلد نیا سپہ سالار سامنے آ جائے گا،اس فیصلے کے بعد بہت سے لوگوں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی کیونکہ لمحہ موجود میں فوج اور جنرل باجوہ پر کی جانے والی تنقید کے دروازے بند ہو گئے باجوہ صاحب نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ فوج اب سیاست کوئی کردار ادا نہیں کرے گی بلکہ یہ بھی بتا دیاکہ امن وسلامتی صرف قانون کی حکمرانی اور ریاستی رٹ سے حاصل ہو سکتی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے سے قوم اور سیاست کس حد تک کچھ سیکھتے ہیں اسی لیے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی نااہلی تاریخ کا اہم سبق ہے استحکام پاکستان ،جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے اور سیاسی بحران کاحل صرف اور صرف مذاکرات میں پنہاں ہے تاہم ایک بات جو ذہن نشین کرنے کی ہے اس سے اختلاف مشکل ہے کہ ہر دور میں فوج کا کردار انتہائی اہم رہا اگر وطن عزیز کی 75 سالہ تاریخ کو دیکھیں تو آمریت ہرصورت
جمہوریت سے مضبوط دکھائی دے گی ہمارے ہاں ایک خصوصی منصوبہ بندی اور یقین دھانی کے بعد جمہوریت کا تیسرا دور اپنے انجام کی طرف بڑھ رہاہے،لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان پندرہ سالوں میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آ ئینی مدت پوری نہیں کرسکااورہردور میں سیاسی بحران میں مداخلت کی ضرورت پیش آ ئی،کبھی اس کا شور مچا کبھی معاملہ پس پردہ رہا،پھر ہر دور میں کسی بھی سیاسی و معاشی بحران میں،سپہ سالارسے معاونت بھی حاصل کی گئی،جنرل ایوب خان سے لے کراب تک ہر بڑے منصوبوں اور غیر ملکی معاہدوںمیں بھی، ضمانت، فوج سے ہی مانگی گئی،سی پیک خطے کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ، طالبان بحران،افغانستان تعلقات اور استحکام ہی نہیں آ ئی ایم ایف اور عالمی اداروں سے قرضوں کے حصول میں بھی جنرل باجوہ بلکہ ان سے پہلے بھی،سپہ سالاراپنا اپنا کردار کرتے رہے ہیں اس کی حقیقی وجہ پاکستان کی غیر مستحکم جمہوریت اور متضاد خیالات رکھنے والے سیاستدان ہیں جب تک وطن عزیز میں جمہوری پالیمانی نظام مضبوط نہیں ہو گا نہ قومی ادارے اپنی آ زاد حیثیت قائم رکھ سکیں گے اور نہ ہی اداروں میں مداخلت کا سلسلہ ختم ہو سکے گا اس کیلئے سیاستدانوں کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ پالیمانی نظام کی موجودگی میں بھی سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں حقیقی سیاسی کردار ادا کرنے کی بجائے مفادات اوراپنے حریفوں کو نیچا دکھانے کیلئے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ پائی جاتی ہیں،اگر منتخب نمائندے اپنی تمام تر سیاسی سرگرمیاں پارلیمنٹ سے 73 کے آئین سے مطابق جوڑلیں تو قومی اداروں کے سربراہوں کی میرٹ پر تعیناتی ہی نہیں ان کا استحکام بھی حقیقی انداز میں کیاجاسکتا ہے۔اگر اجتماعی اور قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آئین سازی اور آئینی ترامیم کو شعار بنا لیاجائے تو معاملات میں بہتری آسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں توبنیادی جمہوری اصول کے تحت کوئی جمہوری حکومت بلدیاتی انتخابات میں بھی دلچسپی نہیں لیتی،تو حالات کیسے سدھر سکتے ہیں؟
تیسرا بڑا فیصلہ اکتوبر2022کا یہ ہے کہ پاکستان فیٹف گرے لسٹ سے خارج ہوگیا ہے اب غیرملکی فنڈنگ میں قدرے آسانی میسر ہوجائے گی عمرانی حکومت ہوکہ موجودہ شہبازی، سب نے اپنی اپنی جگہ زور لگایا ہے لیکن اس مسئلے پر بھی وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم آرمی چیف ،اتحادی جماعتوں کے تعاون اور وزیرخارجہ،متعلقہ اداروں،وزارتوں ،افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ ڈی جی ایم اوسمیت تمام ٹیم کو مبارکباد ۔ اب بات سمجھ آجانی چاہیے کہ جمہوری دور میں سپہ سالار کی بھاگ دوڑ کی ضرورت ضمانتی بطور ہر حکومت کو پڑتی ہے اس لیے کہ ہماری جمہوریت بکھری ہوئی ہے ابھی تک عمران خان کن سلیکٹرز اور طاقتوں کے ذریعے اقتدار کی سیڑھی چڑھے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔انہیں سیاسی کھیل میں واک اور محض اس لیے ملا بلکہ دیاگیا کہ لوگ دو سیاسی پارٹی نظام سے مطمئن نہیں تھے،لیکن تیسری پارٹی نے جمہوریت اور سیاست کے رنگ میں بھنگ ڈال کر منظرہی دھندلا کردیا۔اقتدار گیا تو ہوش کھو بیٹھے اور جوش میں وہ کچھ کربیٹھے جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا یوٹرن کے بادشاہ نے پہلے پچیس مئی کے دھرنے سے حالات کے باعث منہ موڑا پھر نااہلی کے پھیکے ردعمل میں مظاہرے بند کرنے کی اپیل کی اور لانگ مارچ وعدہ فرداں کرلیا،پنڈی بوائے اور فواد چودھری بڑے جذباتی ہیں یہ دونوں ڈیوٹی فل شخصیات ہرحال میں حکومت سے ٹکرانے کیلئے فوری لانگ مارچ کے خواہشمند ہیں۔ شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ حکومت وینٹی لیٹرپر اور پی ڈی ایم کومے میں ہے، وزرا کی فوج ظفرنے قوم کو مہنگائی سے نجات نہیں دلائی بلکہ مشکلات میں اضافہ کردیا، اب پی ڈی ایم مائنس ون کا خواب بھول جائے۔عمران خان تیس اکتوبر سے پہلے ایک تاریخی لانگ مارچ کرکے مائنس آل کردیں گے جبکہ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کشور دلشاد کہتے ہیں اگر پارٹی سربراہ کرپٹ پریکٹس میں آجائے تو وہ سربراہ نہیں رہ سکتا۔بدعنوانی پر سیشن کورٹ تین سال سزا دے سکتی ہےجبکہ سپریم کورٹ نواز شریف فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ نااہل پارٹی سربراہ نہیں رہ سکتالہٰذا یہ سمجھا جائے کہ ابھی عمران کی مشکلات کم نہیں ہوئیں انہیں جارحانہ کھیلنے کا مشورہ دے کر تصادم سے پرہیزکا پیغام دیاجاچکاہے۔وقت بتائے گا کہ وہ صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں یااپنے بیانیے پرقائم رہتے ہیں تاہم ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ نااہلی سے عمران خان کو نقصان سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اسی صورت میں جب عمران خاں سیاست سمجھ کرکوئی فیصلہ کریں گے اسے کرکٹ کا میدان سمجھنا چھوڑدیں گے۔ورنہ گیم ان اوور؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button