Editorial

توشہ خانہ کیس کا فیصلہ

 

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو نااہل قرار دیدیاہے ۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان رکن قومی اسمبلی نہیں رہے، عمران خان کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب درست نہیں تھا، عمران خان کرپٹ پریکٹس میں ملوث رہے ہیں، ان کی قومی اسمبلی کی نشست کو خالی قرار دیا جاتا ہے۔ عمران خان صادق اور امین نہیں رہے ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔الیکشن کمیشن کے فیصلے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین تاحیات یا پانچ سال کے لیے نا اہل نہیں ہوئے،بلکہ مذکورہ اسمبلی کی باقی ماندہ مدت کے لیے نا اہل ہوئے ہیںاور سابق وزیراعظم کو ترسیٹھ ون پی کے تحت نا اہل کیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے نا اہلی کے فیصلے کے بعد کارکنوں کو ہدایت کی کہ پر امن احتجاج کریں اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کارکنوں نے ملک بھر میں احتجاج کے ساتھ ساتھ اہم شاہراؤں کو بند کرنا شروع کر دیا۔ مختلف شہروں میں موٹروے اور اہم سڑکیں بند ہونے سے غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی، حکومت کی جانب سے ملک بھر میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کو الرٹ کردیا گیا۔ پشاور موٹر وے انٹر چینج ایم ون بند ، فیض آباد سے زیرو پوائنٹ ہائی وے بلاک کردی ہے، لیڈی ریڈنگ ہسپتال جانے والا راستہ بھی بند کر دیاگیا۔صوبائی دارالحکومت لاہور کے مختلف علاقوں میں احتجاج ہوا ، کارکنوں نے میٹرو بس سروس بھی بند کردی ، فیض آباد چوک میں ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی گئی۔دوسری طرف ملک کے دیگر شہروں رحیم یار خان، ساہیوال، گوجرانوالا، ملتان، فیصل آباد، کراچی سمیت دیگر شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاج شروع کر دیا۔نااہلی کے کیس کے پس منظر پر بات کی جائے تو قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اگست کے اوائل میں توشہ خانہ کیس کی روشنی میں عمران خان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا، جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی اور اس کیس میں بالآخر عمران خان کو جمعہ کے روز نااہل قرار دے دیاگیا۔ ایک طرف عمران خان کی کال پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور بے یقینی کی صورت حال ہے تو دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ نون لیگ کی تمام تنظیمیں اور پارلیمنٹیرینز پرامن طور پر الیکشن کمیشن سے اظہار یکجہتی کے لیے باہر نکلیں۔پاکستان تحریک انصاف نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ہے،
مختلف ذرائع سے آمدہ اطلاعات کے مطابق احتجاج کا دائرہ پنجاب میں خیبر پختونخوا کے کم و بیش تمام شہروں میں پھیل چکا ہے اور آمد و رفت کے راستے بھی زیادہ تر بند کئے جاچکے ہیں اور لوگوں کو نقل و حرکت ہی نہیں بلکہ نقل و حمل میں بھی شدید مشکلات کا سامنا تھا اورمسافراپنی منزل پہ پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ہے اور اگر پی ٹی آئی کی قیادت ہائیکورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتی تو وہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرسکتی ہے یہی نہیں سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کی جاسکتی ہے، پس پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے ایک سے زائد مواقعے موجود ہیں، پس جو لوگ احتجاج میں شریک ہیں انہیں ملک و قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی پرامن رہ کر اپنا احتجاج درج کرانا چاہیے، احتجاج کرنا جمہوری حق ہے اور کسی سے بھی نہیں چھینا جاسکتا لیکن احتجاج کے دوران خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ پر امن احتجاج پرتشدد واقعات میں تبدیل نہ ہو، کیونکہ ماضی میں ایسے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ ایک طرف ہم پی ٹی آئی کی مرکزی اور مقامی قیادت سے ملتمس ہیں کہ احتجاج ضرور درج کرائیں لیکن پرامن احتجاج کو پرامن ہی رہنے دیا جائے اور نظر رکھی جائے کہ کوئی اِس صورت حال کا فائدہ نہ اٹھائے ، یہی التماس حزب اقتدار کی شخصیات سے بھی ہے کہ وہ ملکی حالات خصوصاً ملک کے وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاج کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ایسے سیاسی بیانات سے گریز کریں جن کے نتیجے میں احتجاج کرنے والے مشتعل ہوں اور صورت حال خراب ہو ، خصوصاً ایسی صورت حال میں پی ٹی آئی کے حامیوں کے مدمقابل اپنے حامی لانے کے فیصلے پر غور کیا جانا چاہیے کہ اِس سے تصادم کا خطرات ہوں گے اور اِن کا نتیجہ قطعی قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ پہلے ہی ہم سیاسی اور معاشی جن حالات سے گذر رہے ہیں ہم کسی بھی انتشار کے متحمل نہیں ہوسکے بلکہ ہم تو سیاسی قیادت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ میثاق معیشت کے لیے خدارا اپنے اختلافات ختم کرکے متحد ہوجائیں، مرکز میں اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے پاس صوبائی حکومت ہے، اس کے برعکس خیبر پختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتیں انتظامی امور چلانے میں وفاقی حکومت کی طرف سے بعض رکاوٹیں پیدا کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں، غرضیکہ ریاست میں بہت اوپر سے بہت نیچے تک تقسیم واضح طور پر نظر بھی آرہی ہے اور محسوس بھی کی جارہی ہے، اِس لیے سبھی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کو مزید انتشار سے بچائیں کیونکہ یہی حالات اور پاکستانیت کا تقاضا ہے۔ ان سطور میں ہم اداروں سے یہ بھی گذارش کرنا چاہیں گے کہ انصاف کا معیار اور قواعد سبھی کے لیے برابر ہونے چاہئیں تاکہ کسی کو کسی فیصلے پر تنقید کا موقعہ نہ ملے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button