ColumnJabaar Ch

سہاگن وہی جو پیا من بھائے! ۔۔ جبار چوہدری

جبار چوہدری

 

الیکشن کمیشن میں دائرتوشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آگیا۔یہ فیصلہ اتنا سخت نہیں جتنا کہا جارہا تھا۔عمران خان کو اس کیس میں ڈی سیٹ کردیا گیا ہے۔فیصلے کی مزیدتشریح تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہی ممکن ہے لیکن اب تک کے فیصلے سے یہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ وہ اس سیٹ سے نااہل ہوئے ہیں لیکن اگر وہ کل کو دوبارہ اسی نشست سے ضمنی الیکشن لڑنا چاہیں تو لڑسکیں گے۔ہاں ایک سوال اور بھی ہوسکتا ہے کہ جو چھ نشستیں انہوں نے حال ہی میں جیتی ہیں ان کااسٹیٹس کیا ہوگا؟
سب کو لگتا بھی یہی تھا اور سچ پوچھیں تو بنتابھی یہی تھا کہ سات میں سے چھ حلقوں میں جیتنے کے بعد عمران خان اور زیادہ ’’خطرناک‘‘ ہوجاتے۔ وہ شیر کی طرح دھاڑتے،چنگھارتے اور ہارنے والوں کو للکارتے لیکن انہوں نے اپنے حامیوں کی امیدوں پرپانی ہی پھیر دیا ۔ویسے یہاں تک امیدوں پر پورا اترنے والی بات ہے تو وہ تو عمران خان صاحب کا ڈی این اے ہی شاید نہیں ہے۔ وہ چار سال اس ملک کے حکمران رہے تب عوام کی امیدوں پر کھرے نہ اتر سکے۔ان کی لاپرواہی اور نااہلی کے سبب پاکستان ہتھے سے ایسا اکھڑا ہے کہ واپس اپنی جگہ لانے کیلئے شاید مزید چار سال درکار ہوں گے۔انہوں نے صرف لینا سیکھا ہے اورخود کو لینے والا ہی بنایا اور بتایا ہے ۔الزام ہی یہی ہے سیاست بھی اے ٹی ایمز کے سرپر ہی کرتے ہیںیافارن فنڈنگ کے بل پرانجام دیتے ہیں۔اپنے پاس توجیب بھی نہیں رکھتے۔
بات ان کی ضمنی الیکشن میں جیت کے بعد ردعمل کی کررہا تھا تو پیر کے روزخان صاحب نے پریس کانفرنس کی ۔توقع تھی کہ وہ اس جیت کے بعد لانگ مارچ اوراسلام آباد پرچڑھائی کا اعلان کرتے لیکن انہوں نے تو یہ انکشاف کردیا کہ وہ بھی کسی ڈیل کے متلاشی ہیں ۔ پردوں کے پیچھے اور بند کمرے ،جن کو وہ بہت ہی برا خیال کرتے ہیں ان بند کمروں میں وہ ’’کسی ‘‘سے مذاکرات کررہے ہیں لیکن ان کو کلیرٹی نہیں مل پارہی ۔ وہ یہ مذاکرات کس سے کررہے ہیں یہ بات بھی انہوں نے اگلے ہی سانس میں صاف کردی جب انہوںنے کہا کہ وہ اداروں سے کہتے ہیں کہ میرامطالبہ مان لیں،الیکشن کروادیں،میں مزید مہلت دیتا ہوں ۔
یہ حقیقت ہے کہ جب آپ کسی کام میں بہت زیادہ تاخیرکرتے ہیں اور بارباراعلان کرکے اعلان نہیں کرتے تو اس کے دو ہی معنی ہوتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ آپ میں وہ کام کرنے کی ہمت نہیں ہے۔آپ کی تیاری نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ آپ کو کسی سے امید ہے کہ آپ کو بھی ڈیل یا این آرومل جائے گا۔خان صاحب کے لانگ مارچ کو آگے سے آگے لے جانے میں ایک نہیں یہ دونوں عوامل ہی کارفرما ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ لانگ مارچ ایک بار پھر ان کے ترکش میں آخری تیر ہی بچ گیا ہے۔ اس کو جب تک بچاسکیں بچالیں لیکن صورتحال یہ بن چکی ہے کہ خان صاحب کو یہ آخری کارڈ بھی پھینکنا ہی پڑے گاکیونکہ کوئی بھی ان کی بات سننے کو تیار نہیں ۔نہ وہ جن سے وہ مذاکرات نہیں کررہے اور نہ ہی ’’وہ‘‘ جن سے وہ بندکمروں میں بات چیت اور ملاقاتوں کی بات کررہے ہیں۔خان صاحب بارے مشہور ہے کہ وہ جس چیز کو جلسوں میں بہت برا کہہ رہے ہوتے ہیں اپنے لیے وہی کام کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔وہ بندکمروں کے فیصلوں کے مخالف ہیں لیکن جلسوں کی حد تک۔ خود صبح شام انہی بند کمروں کی سرگوشیوں میں لگے رہتے ہیں۔لیکن خبریں تو یہی ہیں کہ یہ بند کمرے ان کیلئے فی الحال بند ہوچکے ہیں اور وہ جس لانگ مارچ کو چھ دن میں واپس لانے کا کہہ کر اسلام آباد سے گئے تھے اس کو اب چھ ماہ بعد لانا ایک مجبوری سے زیادہ کچھ نہیں ۔
اگر کسی کو یہ امید ہے کہ لانگ مارچ سے انقلاب آجائے گا تو یہ بھی شاید فی الحال ممکن نہ ہوسکے۔ انقلاب توکچھ دوست خان صاحب کے اس الیکشن لڑنے اور جیت جانے سے بھی لگائے بیٹھے تھے لیکن آج الیکشن کو ہوئے چھٹا دن ہے اورخان صاحب کے حمایتیوں کی حالت بھی منٹو کے اس کردار ’’منگو‘‘ جیسی ہورہی ہے جس نے نیا قانون نافذ ہونے کے یقین کے ساتھ ایک گورا صاحب کو نہ صرف اپنے ٹانگے پر بٹھا نے سے انکارکردیا تھا بلکہ ان کی مار پیٹ بھی کردی تھی اور پھر جیل یاتراکرنی پڑی تھی۔ ویسے تو ہم سب ہی کسی نہ کسی طرح منگو ہی ہیں ان حکمرانوں کیلئے کہ ہمیں لگتا ہے کہ نیا قانون آگیا ہے جس میں ہم اور ہمارے بچوں کو سکون کی زندگی نصیب ہوگی لیکن ہماری آنکھیں اس وقت کھل جاتی ہیں جب کسی ’’براؤن گورا‘‘صاحب سے اونچی آوازمیں بات کرلیں تو وہ سیدھا دفتر سے باہر نکال دیتا ہے۔
اس ضمنی الیکشن کا’’ نیٹ گین‘‘ یا حاصل وصول یہ ہے کہ حکومت کی دو قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ گئی ہیں ۔پارلیمانی جمہوریت میں لوگوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں اس لیے وہ حکومت جو پہلے دوووٹوں کی اکثریت پر کھڑی تھی اب چار ووٹوں پر چلی گئی ہے۔ عمران خا ن صاحب نے سات یا نوسیٹوں پر الیکشن لڑکر کیا حاصل کیا اس کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ گزشتہ اتوار کو ہوئے الیکشن میں پی ٹی آئی کو آٹھ حلقوں میں اپنے مخالفین سے کم ووٹ ملے اس کوبھی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ جو ان الیکشن کے نتیجے میں ملک میں انقلاب آنے کی توقع کررہے تھے ان کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔جن کو یہ زعم تھا کہ عمران خان اس قدر مقبول ہوچکاہے کہ اس کے خلاف کوئی بھی شخص ووٹ دینا گناہ ہی سمجھ لے گا ان کو بھی چھوڑدیتے ہیں۔وہ کراچی کے ایک حلقے سے بری طرح ہارگئے اس کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ ننکانہ صاحب کے حلقے میں ان کے مخالف امیدواروں کو عمران خان سے دس ہزار ووٹ زیادہ ملے اور مردان میں ان کے مخالف امیدواروں کو تیس ووٹ ان سے زیادہ ملے اس کو بھی چھوڑدیتے ہیں ۔ملتان قومی اسمبلی کی وہ واحد نشست جس پر پی ٹی آئی تو تھی لیکن عمران خان امیدوار نہیں تھے وہ سیٹ پچیس ہزار کی لیڈ سے پی ٹی آئی ہار گئی کیا اس کو بھی چھوڑ دیں؟ پی ٹی آئی کے حمایتی اس ملتا ن کی شکست کو موروثی سیاست اور ٹکٹ کے غلط انتخاب کی مٹی کے نیچے چھپانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن اگر یہ موروثی سیاست ہے تو کیا اس ٹکٹ کا فیصلہ کیا نوازشریف اور زرداری نے کیا تھا یا مولانانے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کو الیکشن لڑوایا تھا؟کیا اس ٹکٹ کا فیصلہ ملک میں سب سے بڑے موروثی سیاست کے ظاہر ی مخالف عمران خان نے نہیں کیا تھا؟کیا شاہ محمود کی بیٹی کے علاوہ ملتان میں کوئی اس قابل نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑسکتا؟ویسے تو خان صاحب نے پورے ملک میں کسی بھی پارٹی ورکرکو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ الیکشن لڑسکے تو یہاں نو حلقوں سے شروع ہوئے تھے وہاں دس کرلیتے ۔ملتا ن سے بھی خود لڑ لیتے ؟لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ اس موروثی سیاست کے مخالف ہیں جو ان کے مخالفین کرتے ہیں ۔اپنی پارٹی کی موروثی سیاست انہیں پسند ہے۔اگر جھگڑاصرف موروثی سیاست کاہی ہوتا تو پرویز خٹک کا سارا خاندان اسمبلیوں میں نہ ہوتا۔پریس کانفرنس میں یہ سوال بھی ان سے ہوا لیکن انہوں نے موروثی والی بات کا جواب تک نہیں دیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ملتان سے شاہ محمود کا خاندان ہی لڑے گا ۔
سوال یہ ہے کہ اس جیت اور ان نتائج کا حاصل وصول کیا ہے اگر خان صاحب نے پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہی الیکشن کی بھیک مانگنی ہے ؟کیا عمران خان صاحب کو اپنے جلسوں میں آنے والی اورانہیں ووٹ دے کرکامیاب بنانے والی عوام پر اتنا بھی بھروسہ نہیں کہ وہ ایک بار عوام کے لاڈلے بننے پر یقین کرلیں؟ یا پھر وہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں عوام کے لاڈلے ہمیشہ اقتدار سے باہر ہی رہے ہیں اور اقتدار صرف انہیں ہی ملتا ہے جو ’’ان‘‘ کے لاڈلے ہوں؟اوریہی کڑواسچ ہے کہ ’’جو پیا من بھائے وہی سہاگن‘‘ اور حالات و واقعات سے لگ رہا ہے کہ فی الحال عمران خان پیا کے من کو بالکل نہیں بھا رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button