ColumnHabib Ullah Qamar

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یاد میں ۔۔ حبیب الله قمر

حبیب اللہ قمر

 

محسن پاکستان وملت اسلامیہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کو ایک سال گزر گیالیکن محب وطن پاکستانی عوام ابھی تک غم کی کیفیت میں ہے۔بلاشبہ وہ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوںکیلئے عزت اور وقار کی علامت تھے۔ خاص طور پر پاکستان کا بچہ بچہ انہیں ایسا قومی ہیرو سمجھتا ہے جس نے ازلی دشمن بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی قومی سلامتی اور دفاع کو مضبوط اور ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔معروف جوہری سائنسدان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق تھے جنہوںنے صرف وطن عزیز سے محبت اوراسے مضبوط و مستحکم دیکھنے کی خواہش میں پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سترہ ستمبر 1974ء کی بات ہے جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھ کر پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنانے کیلئے اپنی خدمات فراہم کرنے کی پیش کش کی۔ انہوںنے واضح طور پر کہا کہ ان کے پاس یہ مہارت ہے اور وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر اے کیو خان کا یہ خط ذوالفقار علی بھٹو کو ملا تو انہوںنے اس پر خوشی کاا ظہا رکیا کیوں کہ پاکستان اس پر پہلے سے کام کر رہا تھا اور انہیں جس چیز کی ضرورت تھی وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صورت میں انہیں حاصل ہو رہی تھی، یہی وجہ ہے کہ بھٹو کی طرف سے خط کا دیا جانے والا جواب بہت حوصلہ افزا تھاجس میں انہیں پاکستان واپس آنے کیلئے کہا گیا تھا۔ دسمبر 1974ء میں وہ کراچی آئے تو ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ملاقات کی۔ ا س دوران انہوںنے ایٹمی ٹیکنالوجی کے بارے میں منیر احمد خان اور ان کی ٹیم کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور ہالینڈ واپسی سے قبل انفراسٹرکچر کی تیاری کیلئے کہا۔بھٹو نے اس ملاقات پر ان کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا اور درخواست کی کہ وہ ایٹمی قوت کے حصول کیلئے پاکستان کی جس حد تک مدد کرسکتے ہیں ضرور کریں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈمیں برطانیہ، جرمن اور ڈچ کمپنیوں کے اشتراک سے وجود میں آنے والی یورینکو نامی ایک کمپنی میں ملازمت اختیار کر رکھی تھی جس کا کام سینٹری فیوجز کے ذریعے یورینیم افزودگی کی تیاری اور تحقیق تھا۔ اس کمپنی میں رہتے ہوئے ڈاکٹر خان کو نہ صرف بہت کچھ سیکھنے کو ملا بلکہ انہیں اس حوالے سے بہت زیادہ معلومات بھی حاصل ہوئیں۔ انہوںنے ہالینڈ میں رہتے ہوئے ایک مقامی خاتون ہنی خان سے شادی بھی کر لی تھی جس میں سے ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ اگلی مرتبہ پاکستان آنے پر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سائٹ کا معائنہ کرنے کیلئے کہا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ جس طرح وہ کہہ کر گئے تھے اس کے مطابق کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں؟شروع میں ڈاکٹر اے کیو خان کا ذہن تھا کہ وہ پاکستانی سائنسدانوں کو ساری معلومات اور رہنمائی فراہم کر دیں تاکہ وہ ایٹم بم تیار کر سکیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا اصرار تھا کہ آپ مستقل پاکستان آجائیں جس پر انہوںنے اپنی اہلیہ سے بات کی تو انہوںنے تھوڑی دیر کیلئے پس و پیش سے کام لیا کہ ان کے بوڑھے والدین ہالینڈ میں ہیں، ان کی بیٹیاں وہیں پڑھ رہی ہیں تو ایسا ان کیلئے مشکل ہو گا لیکن جب ڈاکٹر اے کیو
خان نے ہنی خان کو بتایا کہ میں اپنے ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہوں اور میرے علاوہ فی الحال کوئی دوسرا یہ کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تو ان کا پختہ عزم دیکھ کر ہنی خان خاموش ہو گئیں اور اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں چند ماہ بعد ہی ڈاکٹر عبدالقدیرخان مستقل طو رپر پاکستان آگئے اورایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ کام شروع کر دیا۔ ابتدا میں انہوںنے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ مل کر کام کیا تاہم ایک سال بعد 1976ء میں بھٹو کی ہدایات پرانجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری قائم کی جہاں یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جاتا رہا۔ بعد میں قریباً پانچ سال بعد اس لیبارٹری کا نام خان ریسرچ لیبارٹری یا کے آر ایل رکھ دیا گیا ۔ ڈاکٹر اے کیو خان جلد سے جلد پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا چاہتے تھے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے بعد پاکستان کے حوالے سے اس کا رویہ یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس نے سازشیں کر کے مشرقی پاکستان کو الگ کیا اور باقی ماندہ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے بھی مذموم عزائم پر عمل پیرا تھاجب کہ بھارت کے خلاف نفرت ان کے دل و دماغ میں بھرپور قوت کے ساتھ موجود تھی، اس لیے وہ جلداپنی زندگی کا اہم مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔پاکستان نے ڈاکٹر اے کیو خان اور دوسرے سائنسدانوں کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں چند سال میں ہی یہ کامیابی حاصل کر لی تھی تاہم ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ 1998ء میں بھارت کی طرف سے دوبارہ دھماکوں کے بعد کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہورہے جو انہوںنے اپنی زبانی سنایا کہ 28ستمبر1987ء کی سہ پہر وہ اپنی رہائش گاہ پر موجود تھے کہ صحافی مشاہد حسین سید مشہور ہندوستانی تجزیہ کار کلدیپ نیئرکے ہمراہ ملاقات کیلئے آئے۔ اس موقع پر ان سے مختلف موضوعات کی طرح پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔ ابھی گفتگو جاری تھی کہ کلدیپ نیئر کہنے لگے کہ آپ دس ایٹم بم بنائیں گے تو انڈیا ایک سو بنائے گا تو میں نے برملا کہا کہ اتنے بموں کی ضرورت نہیں ، تباہی کیلئے تین چار ہی کافی ہیں اور پاکستان مختصر وقت میں یہ کام کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بتاتے ہیں کہ ان کی یہ گفتگو کوئی باقاعدہ انٹرویو نہیں تھا لیکن کلدیپ نیئر نے اس غیر رسمی گفتگو کو انٹرویو بنا کر ’’لندن آبزرور‘‘کو بیس ہزار پائونڈ میں بیچ دیا۔ جب یہ انٹرویو شائع ہوا کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی ہے تو انڈیا جس نے ان دنوں دس لاکھ فوج راجستھان اور پنجاب کے بارڈر پر لاکھڑی کی تھی اور بہت بڑی تعداد میں ٹینکوں کوسرحد پر لا کر براس ٹیک نامی مشقیں شروع کر رکھی تھی، فوری سب کچھ ختم کر کے واپس چلا گیا۔ اسی طرح بعض دوسرے مواقع پربھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے ایسے ہی جرأتمندانہ اظہار خیال کیا جاتا تھاجس پر بھارت کو سانپ سونگھ جاتا اور وہ سوائے پراپیگنڈے کے پاکستان کے خلاف کچھ کر نہیں سکتا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان عملی زندگی میں بہترین مسلمان ، عبادت گزار شخصیت اور دکھی انسانیت کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرنے والے تھے۔ انہوںنے لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان کے نام سے بہترین ہسپتال تعمیر کروایا۔نماز تہجد ادا کرنا اور راتوں کو اٹھ کر پاکستان اور پوری مسلم امہ کیلئے دعائیں کرنا ان کے معمولات میں شامل رہا۔ وہ انتہائی صبر کرنے والی شخصیت تھے۔ سابق سفارت کار اور سینئر سیاسی تجزیہ کار ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ2004ء میں جب ایران کی طرف سے یہ بیان دیا گیا کہ انہیں سینٹری فیوجز ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فراہم کیے تھے تواس کے بعد ان پر آزمائشوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اسی بیان کے بعد پاکستان سخت دبائو کا شکار ہوا اور امریکہ کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کے حوالے کرے ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس مطالبہ کے بعد کور کمانڈرزکانفرنس ہوئی جس میں متفقہ طو رپر طے کیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کسی صورت امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا لیکن پھر یہ ضرور ہوا کہ بیرونی دبائو کم کرنے کے نام پر انہیں نظربند کرنے سمیت دوسرے کچھ اقدامات کیے گئے جن کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی کہ ملک و قوم کے محسنوں کے ساتھ یہ سلوک روارکھنا درست نہیں ہے۔ بہرحال ایک مرتبہ میڈیاکے نمائندوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان پر آنے والی مشکلات سے متعلق سوال کیا تو انہوںنے ہنس کر کہا کہ ایک بندے کا نام آنے سے اگر ملک اور دفاعی ادارے بچتے ہیں تواس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اس جملے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان سے محبت ان کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ وطن عزیز کے دفاع کیلئے کسی قسم کی بھی قربانی دینے کیلئے تیار تھے۔ آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دنیا سے رخصت ہو چکے لیکن ان کی یاد ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہے۔ پاکستانی قوم کا ہر فرد ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتا ہے۔ وطن عزیزپاکستان کیلئے ان کی لازوال خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button