Columnمحمد مبشر انوار

واقعہ،یٰسین یا فاتحہ ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

اقوام عالم میں مضبوط،مستحکم اور با اثر ممالک کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو واضح نظر آتا ہے کہ وہ ممالک جو دنیا کو اشیائے ضرورت کی ترسیل کرتے ہیں،وہی ممالک دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں ۔ان ممالک کی اکثریت غیر مسلم ممالک کی ہے جبکہ مسلم ممالک میں چند ایک ممالک ہی ایسے ہیں،جن کی حیثیت مضبوط و مستحکم ہے لیکن اقوام عالم میں ان کی آواز اتنی بااثر نہیں جتنی غیر مسلم ممالک کی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان ممالک کی معاشی حیثیت تو مستحکم ہے لیکن اس کا دارومدار فقط خام مال مہیا کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہے۔ان مسلم ممالک میں مشرق وسطیٰ سر فہرست ہے کہ یہاں سے خام تیل قریباً پوری دنیا کو مہیا کیا جاتا ہے جو دنیا میں چلنے والی صنعت کا بنیادی جزو ہے، اس کے علاوہ چند ایک ممالک ایسے ہیں جو خوردنی تیل یا ربڑ کی ترسیل میں نمایاں مقام رکھتے ہیں،جبکہ کم و بیش باقی مسلم ممالک کی حیثیت ایک صارف منڈی کی سی ہے کہ جہاں دنیا بھر کی مصنوعات فروخت کیلئے میسر ہیں۔ بطور صارف منڈی،ان ممالک کی معاشی حیثیت دن بدن دگرگوں ہوتی جا رہی ہے اور ان کے وسائل ہر گذرتے دن کے ساتھ بیرونی ممالک حیلے بہانے اینٹھتے نظر آتے ہیں،جبکہ ان ممالک کی مقامی صنعت مسلسل زوال کا شکار نظر آتی ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں کہ ان ممالک کے ہنر مند ،اپنی ذہانت میں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شہریوں سے کم تر ہیں لیکن بدقسمتی سے ان بیش قیمت اذہان کو وہ مواقع ہی میسر نہیں کہ و ہ اپنی خداداد صلاحیت سے اپنے ممالک کو بہرہ مند کر سکیںاور اپنے ملک کی معاشی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔پاکستان اپنے قیام کے وقت،جس جوش، جذبے اور لگن سے اڑان بھرنے لگا تھا،اس سے غیر مسلم ممالک میں یہ خوف طاری ہوا کہ اگر خدانخواستہ ایک مسلم ملک نے صنعتی میدان میں استحکام حاصل کر لیا تو یہ بعید نہیں
کہ باقی مسلم ممالک بھی اس سے بہرہ مند ہو جائیں اور ان ممالک کی حیثیت بجائے صارف منڈی کے،ایک پیداواری ملک کی ہو جائے۔ اس صورتحال میں دوسرے پیداواری ممالک کی اجارہ داری پر کاری ضرب لگنے کا اندیشہ تھا لہٰذا مسلم ممالک کی اس ہنرمندی کو گربہ کشتن روز اول کے مصداق ابتداء ہی میں محدود و مخدوش کر دیا گیاجبکہ یہاں کے ہنرمندوں کو بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر بیرون ملک لے جایا جانے لگا۔رہی سہی کسر ہماری اپنی اشرافیہ کی بے حسی نے پوری کردی کہ بجائے ان ہنرمندوں کو مواقع فراہم کرکے ملکی ترقی کیلئے بروئے کار لایا جاتا،ان کیلئے سہولیات مہیا کی جاتیں،بہتر روزگارمہیا کیا جاتا،کے برعکس یہ کہا گیا کہ اگر انہیں یہاں ملازمت نہیں ملتی تو وہ بیرون ملک چلے جائیں۔اس کے پس پردہ مقصد فقط اتنا ہی تھا کہ پاکستان کے زرخیز دماغ پاکستان میں نہ رہیں اور اشرافیہ کیلئے کوئی مصیبت کھڑی کرنے سے باز رہیں ،بیرون ملک جا کر اپنی دو وقت کی روزی روٹی کیلئے تگ و دو کریں،زر مبادلہ کے قیمتی ذخائر ملک میں بھیجیں تا کہ ان نہ صرف اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکیں بلکہ اشرافیہ کے اللے تللوں کا سامان بھی بن سکیں،یہی اس وقت ہو رہا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت،پاکستانیوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ موجودہ دور میںان کا تصور بھی محال ہے کہ اس وقت صرف ایک ہی جذبہ پیش نظر تھا کہ آزاد ہونے والا ملک نہ صرف مشکل حالات کا مردانہ وار سامنا کرے بلکہ مستقبل میں ایک ترقی یافتہ ملک بن کر ابھرے،امت مسلمہ کیلئے ایک رہنماکردار ادا کرے۔ ابتدائی دو؍تین دہائیوں میں ،سیاسی عدم استحکام اور دور آمریت کے باوجود، پاکستان میں صنعتی ترقی ہوتی رہی اور دنیا بھر میں ’’میڈ ان پاکستان‘‘کی مصنوعات باآسانی میسر رہی۔سمت کا تعین بھی واضح رہا اور ملکی ضروریات کے پیش نظر،ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتوں اور افسر شاہی نے ہر وہ اقدام کیاجس سے پاکستان کی نہ صرف ضروریات پوری ہوتی رہیں بلکہ ترقی کی رفتارمیں بھی کوئی کمی نہ آئے۔ اس میں خواہ آبی ذخائر کی تعمیر تھی یا صنعتی انقلاب کیلئے صنعتی لائسنسوں کا اجراء تھا یا ان صنعتوں کو مراعات فراہم کرنا تھا،سب اقدام ہوتے رہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے صنعتکاروں نے ان مراعات کاثمر محنت کشوں کو نہیں دیا،ان صنعتکاروں نے ہنر مندوں کو صرف دو وقت کی روٹی کا محتاج رکھا تا کہ وہ صنعت کا پہیہ چلانے پر مجبور رہیں،خوشحال نہ ہوں۔ ایوب دور میں صنعتکاری کا چرچا ہی نہ تھا بلکہ واقعتاً صنعتکاری ہو رہی تھی لیکن صنعتکاروں کے استحصالی روئیے کے باعث،بھٹو نے بظاہر محنت کش کے حقوق کی خاطر ان صنعتوں کو قومیا تو لیا لیکن کبھی بھی محنت کشوں کو فرائض سے آگاہ نہ کیا،نتیجتاً پھیلتی ہوئی صنعتکاری سکڑ گئی اور صنعتکار خوفزدہ ہو گئے۔ دوسری طرف کمیونزم سے متاثر بھٹو نے حکومتی زیر اثر بڑی صنعتیں لگانی شروع کر دیں، جس میں نہ صرف شہریوں کیلئے بڑے پیمانے پر ملازمتوں کا حصول ممکن ہوا بلکہ ان کو زیادہ سے زیادہ حقوق بھی میسر ہوئے لیکن جو پالیسی نجی صنعتکاروں کے حوالے سے روا رکھی گئی تھی،اس کے اثرات محنت کشوں میں قومی صنعتوں میں بھی نظر آئے اور یہاں ٹریڈ یونین کے نام پر محنت کش اپنے حقوق تو بزور لیتے رہے لیکن فرائض میں دن بدن غفلت کا شکار ہوتے گئے۔ قومی صنعتوں میںایسی ہی صورتحال آج بھی نظر آتی ہے اور یہ قومی ادارے،دن بدن قومی معیشت کیلئے سفید ہاتھی بنے نظر آتے ہیں۔بعد ازاں بے نظیر بھٹو نے مروجہ نظام کے تحت اس سوشلسٹ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ پالیسی کی حمایت تو کی لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔
مقتدرہ نے سرمایہ دارانہ نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک صنعتکارکو اقتدار کی غلام گردشوں تک لانے کیلئے اس کی بخوبی پرورش کی،اس کے ناز نخرے برداشت کئے اور ہر طرح سے اسے اقتدار میں لانے کے منصوبہ کرتے ہوئے،اسے اقتدار بھی دلایا۔ اس صنعتکارسے امید تھی کہ وہ اپنے صنعتکاری تجربے کی بنیاد پر ،ملک میں صنعت کا جال بچھا کرملکی معیشت کو مستحکم کرے گا،اپنے ابتدائی دور میں (1990-1993)صنعتکار نواز شریف نے صنعتکاروں کو بہت سی مراعات بھی فراہم کی اور اس دور حکومت میں بے شمار نئے صنعتکار متعارف ہوئے لیکن شو مئی قسمت کہ یہ سب صنعتکار،اس دور کے بعد ملکی معیشت میں کہیں نظر نہ آئے۔ اس کی کئی ایک وجوہات رہی کہ اولاً تو مراعات کی واپسی،دوئم بہت سے نئے صنعتکاروں نے اس دور میں کک بیکس لئے،سوئم کسی حد تک ناتجربہ کاری،چہارم صنعتوں کو چلانے کیلئے بجلی کی عدم دستیابی یا مہنگی بجلی نے ان صنعتوں کو چلنے سے پہلے ہی زمین بوس کر دیا۔ بعد ازاں نواز شریف نے سیاست کو ہی تجارت کا درجہ دے دیا اور صنعتی ترقی کا خواب،ایک خواب بن کررہ گیا،بیشتر صنعتکار اپنی صنعت کو بیرون ملک لے جانے پر مجبور ہو گئے کہ ان چار وجوہات کے علاوہ سب سے اہم وجہ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ امن وامان کی بدترین صورتحال رہی کہ جس میں کوئی بھی صنعت کسی بھی صورت پھل پھول نہیں سکتی،نواز شریف بذات خود اپنی بیشتر صنعت بیرون ملک لے گئے اور آج بھی وہ او ران کا بیشتر کاروبار بیرون ملک موجود ہے۔ ایسی بے یقینی کی صورتحال میں کوئی بھی صنعتکار کس طرح پاکستان میں صنعتکاری کر سکتا تھا کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو ،خود اپن ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہو؟گذشتہ دور حکومت میں ،حکومتی اعدادوشمار کے مطابق،بوجوہ دیگر عالمی صورتحال،پاکستان کی شرح نمو اور صنعت نے خاطر خواہ کارکردگی دکھا کر یہ ثابت کیا کہ اگر انہیں مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں تو وہ آج بھی ملکی برآمدات میں اضافہ کر سکتے ہیں لیکن مسلم لیگ نون اپنے پہلے دور حکومت کے بعد،صنعتکاری کی بجائے ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف متوجہ ہو گئی اور پیداواری صلاحیت سے کنارہ کش ہوتی گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار نے ایک زرعی ملک کو ،فوڈ سکیورٹی سے دوچار کردیا ہے،اس صورتحال میں عوام کیا کرے؟
اللہ کریم کی آخری الہامی کتاب کے ماننے والوںنے اس کتاب سے رہنمائی لینے کی بجائے، اس میں چھپی حکمت کو آشکار کرنے کی بجائے اس کا تصرف صرف اتنا کر رکھا ہے کہ بوقت مشکل اس کی تلاوت کی جائے تا کہ معاملات رفع دفع ہو سکیں۔ بالعموم مشکل حالات سے نکلنے کیلئے سورۃ واقعہ کی تلاوت کی جاتی ہے،وقت نزع ،مرد بیمار کے نزدیک یا سرہانے سورۃ یٰسین کی تلاوت کی جاتی ہے اور بعد از مرگ سورۃ فاتحہ تلاوت کی جاتی ہے۔پاکستانی طرز حکومت؍نظام حکومت اس وقت کس سطح پر ہے، اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اس نظام کیلئے واقعہ ،یٰسین یا قاتحہ کی تلاوت کریں تا کہ اس نظام کیلئے آسانی ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button