Editorial

صدر مملکت کا پارلیمنٹ سے خطاب

 

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتخابات کا سال ہے، پولرائزیشن کو خدا کے واسطے اس ملک میں ختم کریں، ضد کو چھوڑے بغیر پولرائزیشن ختم نہیں ہوتی۔ اتحاد تو لیڈروں میں ہونا چاہیے، پولرائزیشن ختم کرنے کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے، پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کی مانگ رہتی ہے، بیٹھ کر بات چیت کرکے ایک دوسرے کو مطمئن کریں، قومی راز عیاں نہیں ہونا چاہیے،آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے صدر مملکت کے مشترکہ خطاب کے لیے 20اکتوبر تاریخ مقرر کی گئی تھی، قبل ازیں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا پارلیمنٹ سے لازمی خطاب مسلسل تعطل کا شکار ہونے کے باوجود 22 ستمبر کو ہونے والا مشترکہ اجلاس تیسری بار مزید ایک ماہ کے لیے کوئی وجہ بتائے بغیر ملتوی کر دیاتھا۔پارلیمنٹ کا آخری مشترکہ اجلاس 9 جون کو ہوا تھا جس میں حکومت نے متنازع انتخابی اصلاحات اور احتسابی قوانین کامیابی سے منظور کروائے تھے جنہیں اس سے قبل صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے باوجود منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم صدر مملکت نے پارلیمانی سال کے آغاز کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے دو ماہ کی تاخیر سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آئین کے آرٹیکل 54 کی شق1 کے تحت طلب کیا۔صدر مملکت عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس سے خطاب کے دوران ایوان قریباً خالی رہا۔ تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ تو پہلے ہی پارلیمانی کارروائی کا حصہ نہیں بن رہے دوسری طرف ایوان میں صرف پی ٹی آئی کے منحرف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز موجود تھے۔ صدر مملکت نے 442ارکان کے ایوان میں صرف 14اراکین سے خطاب کیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جب خطاب شروع ہوا تو ایوان میں33ارکان موجود تھے لیکن بعد میں حکومت میں شال جماعتوں کی طرف سے غیر اعلانیہ بائیکاٹ کے بعد ارکان کی تعداد کم ہو کر صرف14رہ گئی۔ ایوان میںموجود ارکان بھی صدر کے خطاب سے عدم دلچسپی ظاہر کرتے رہے اور سپیکر کی جانب سے اراکین کو نشستوں پر جانے کی ہدایت بھی کی جاتی رہی۔ارکان ایوان میں مختلف ٹولیوں کی شکل میں کھڑے گپیں لگاتے رہے۔ قبل ازیں پارلیمنٹ کے اجلاس میں تلاوت،نعت اور ترانے کے بعد جیسے ہی صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب شروع کیا تو اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد اور وزیر دفاع خواجہ آصف اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے ۔راجہ ریاض نے کہا کہ آپ نے تو یہ اسمبلی توڑ دی تھی آج کس طرح سے اس ایوان میں خطاب کر رہے ہیں یہ خطاب غیر آئینی ہے آپ یہاں پر خطاب نہیں کر سکتے۔ وفاقی وزیر برائے دفاع
خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے اسمبلیوں کو توڑ دیا تھا آج کس حیثیت سے یہاں خطاب کر رہے ہیں۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ بعد ازاں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین ایوان سے باہر چلے گئے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمانی سال کے آغاز کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا لیکن سربراہ مملکت کا خطاب سننے کے لیے جتنے اراکین اسمبلی ایوان میں موجود تھے اور صدر مملکت سے کیا کیا مکالمہ کیاگیا اِس کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف سمیت سبھی سیاسی جماعتوں کو خدا کا واسطہ دیکر پولرائزیشن کے خاتمے کا کہا۔ صدر مملکت نے ملک میں مہنگائی کی صورتحال۔ جلد انتخابات کے انعقاد۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین۔ میڈیا کو حراساں کیا جانا۔ چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں کامیابی ۔ سیلاب سے تباہی اور پاک فوج کی امدادی سرگرمیوں۔ بجلی بحران ۔ ملک میں ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت ۔ آن لائن ایجوکیشن کے فروغ۔ تعلیم کے فروغ کے لیے مساجد کے کردار۔ جعلی خبروں کے خاتمے ۔ بھارت کے ساتھ تعلقات۔ معیشت۔ مسئلہ کشمیر ۔ بھارتی مسلمانوں پر بھارتی حکومت کے مظالم۔ سائبر سکیورٹی۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات۔ آئی ٹی کے شعبے کو فروغ۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی صورت حال اور توہین رسالت ﷺکے قوانین پر مفصل خطاب کیا ، صدر مملکت نے جہاں متذکرہ معاملات کے اثرات اور وجوہات پر بات کی وہیں اُن کے حل بھی تجویز کیے مگر442کے ایوان میں پہلے صرف 33 اور بعد ازاں 14 اراکین ہی اُن کا خطاب سننے کے لیے موجود تھے۔ پہلے پہل آئینی ضرورت کے باوجود صدر مملکت کا خطاب تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور جب بالآخر صدر نے خود آئینی اختیار استعمال کرکے آئینی ضرورت کو پورا کیا تو ایوان میں حاضری کی صورتحال سامنے آگئی۔ ہمیں یقین ہے کہ پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اتنی قلیل تعداد میں اراکین نے صدر مملکت کا خطاب سنا ہو کیونکہ ماضی میں جب بھی صدر مملکت پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہیں اُس وقت حزب اختلاف خوب نعرے بازی کرتی رہی ہے۔ موجودہ ایوان میں جب تک پاکستان تحریک انصاف بطور حزب اقتدار موجود رہی، حزب اختلاف یعنی پی ڈی ایم نے صدر مملکت کے خطاب کو کبھی اطمینان کے ساتھ نہیں سنا بلکہ حزب اختلاف کی تاریخ دھراتے ہوئے ہمیشہ نعرے بازی کی گئی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خطاب میں پولرائزیشن ختم کرنے پر زور دیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ پولرائزیشن کے بغیر ادھوری ہے اور اسی پولرائزیشن نے آج ملک و قوم کو مسائل کی دلدل میں گاڑ رکھا ہے اور قائدین ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں اور اسی کے نتیجے میں ملک و قوم کا مسلسل ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ اگر بحران در بحران درپیش ہونے کے باوجود سیاسی قیادت اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک پیج پر نہیں آتی اور ترجیحات نہیں بدلتی تو مت بھولا جائے کہ یہ دور بھی تاریخ میں ضرور لکھا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button