ColumnHabib Ullah Qamar

ہولناک زلزلہ کے سترہ سال اورمتاثرین ۔۔ حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

اکتوبر 2005ء میں آنے والے ملکی تاریخ کے ہولناک زلزلہ کو آج سترہ برس مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ وہ دن تھا جب آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں آنے والے زلزلہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ بلاشبہ یہ ایک عظیم قومی سانحہ تھا جس سے ناقابل تصور نقصانات ہوئے۔ہر سال جب یہ دن آتا ہے تو ان دردناک واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو اس سانحہ کے موقع پر پیش آئے۔ تباہ کن زلزلے سے چند لمحے قبل تک کسی کو معلوم نہ تھا کہ کچھ دیر بعد کیا قیامت برپا ہونے والی ہے۔ اچانک زمین نے ہلنا شرو ع کیا تو زمین میں گاڑے گئے پہاڑ وں کے حصے ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنا شروع ہو گئے۔ جگہ جگہ سے زمین پھٹ گئی، عمارتیں گر گئیں اور سکول، کالجز،قیمتی گھر، دکانیں اور مارکیٹیں زندہ انسانوں کی قبروں میں تبدیل ہو گئے۔ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ زلزلہ سے ماؤں کی گودیں، بہنوں کے بھائی، باپوں کے سہارے اور عورتوں کے شوہر کھو چکے تھے مگر کوئی ان کی داستان غم سننے والا، ان کے دکھ بانٹنے والا اور زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں تھا۔ سکولوں کے ملبے تلے دبے بچوں کی دلدوز چیخیں بلند ہو رہی تھیں لیکن کوئی انہیں ملبے سے نکالنے والا نہیں تھا۔ ہر طرف لاشوں کے ڈھیر اور زخموں سے چور نڈھال لوگ تھے ،جو بے بسی کے عالم میں غیبی مدد کے منتظر تھے۔ ان حالات میں سب سے پہلے اگر کسی نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کا فریضہ سرانجام دیا تو وہ رفاہی و فلاحی تنظیموں کے رضاکار تھے۔ اگرچہ ان میں سے کئی رضاکار ایسے بھی تھے جن کے اپنے خاندان اورعزیزو اقارب کے لوگ منوں مٹی کے نیچے دفن ہو گئے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور چند منٹ بعد ہی جو کوئی جہاں کہیں بھی تھا، دکانوں اور مکانات کے ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے میں اپنی پوری قوت صرف کرنے لگا۔
آٹھ اکتوبر کے زلزلہ کے بعد متاثرہ علاقوں
میں سب سے بڑا مسئلہ ملبے تلے دبے زندہ بچ جانے والے افراد کو نکالنااور جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کی تدفین تھا۔سخت بے بسی کا عالم تھا۔ زخمی مدد کیلئے پکار رہے تھے لیکن انہیں ملبے سے نکالنے کیلئے بھاری مشینری موجود نہ تھی۔ ان حالات میں مذہبی و رفاہی تنظیموں کے رضاکاروں نے بغیر بھاری مشینری اور جدید آلات کے سینکڑوں افراد کو ملبے سے نکالا اورزخمیوں کو فی الفور طبی امداد دینا شروع کی۔ ڈاکٹرز عامر عزیز جیسے انسانیت کے مسیحاؤں نے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے میڈیکل کیمپوں پر پہنچ کر گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کی روشنیوں میں مریضوں کے آپریشن کئے اوردرختوں کی ٹہنیاں باندھ کرلوگوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے کی کوشش کی۔ اس دوران زندہ بچ جانے والے افراد کیلئے تیار کھانے کا اہتمام شروع کیا گیا۔مظفر آباد، باغ اور بالاکوٹ کے زلزلہ متاثرین گواہ ہیں کہ ان تک جو سب سے پہلی خوراک پہنچی وہ انہی جماعتوں کے رضاکاروں نے ہی پہنچائی تھی۔ زلزلے کے
بعدلینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے مظفرآباد میں پینے کے پانی کی شدید قلت پیداہوگئی۔ صرف چندمقامات پر چشمے اورنالے صاف تھے۔باقی انسانی وحیوانی لاشوں کی وجہ سے پانی پینے کے قابل نہیں تھا۔اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مظفر آباد میں فوری طور پر صاف پانی کابندوبست کیا گیا۔ زلزلے کے دوسرے دن ہی فلاح انسانیت فائونڈیشن کے مقامی رضاکاروں نے پہلے سے قائم ہسپتال کے ملبے سے ٹوٹا پھوٹا سامان نکال کر عارضی ہسپتال بناکر مریضوں کو علاج معالجہ کی باقاعدہ سہولیات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ اسی طرح باغ، بالاکوٹ اورمانسہرہ میں قائم کئے گئے فیلڈ ہسپتال، شب وروز متاثرین زلزلہ کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ ان فیلڈ ہسپتالوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر میڈیکل کیمپوں اور موبائل ٹیموں کے ذریعے لاکھوں مریضوں کاعلاج معالجہ کیا گیاجن میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے آپریشنز بھی شامل ہیں۔ یہ اعزاز بھی ایف آئی ایف، جماعت اسلامی اور جماعۃالدعوۃ جیسی تنظیموں کو جاتا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے متاثرین کیلئے خیمہ بستیاں قائم کیں۔ جہاں ہرخاندان الگ طورپر اطمینان کے ساتھ رہ سکتا تھا۔ان خیمہ بستیوں کی انفرادیت یہ تھی کہ یہاں بچوں کیلئے سکولوں، دینی تعلیم اور مساجد وغیرہ کابھی اہتمام تھا جبکہ خواتین کو سلائی کڑھائی اور دیگر گھریلوکام بھی سکھائے جاتے تھے۔رضاکاروں نے خاص طور پر دریائے نیلم کے سرکش اور برفیلے پانی کو عبورکرنے کیلئے ربڑ بوٹ اور بلندوبالا مقامات پر پہنچنے کیلئے خچر سروس کا آغاز کیا جسے پوری دنیا میں شہرت ملی اور بین الاقوامی میڈیاکی طرف سے رپورٹیں شائع کی گئیں کہ ان علاقوں میں پہنچ کر ریلیف و ریسکیو آپریشن کر رہی ہے جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا، یہی وہ امدادی سرگرمیاں تھیں جنہیں دیکھ کر اقوام متحدہ، یونیسف ، ڈبلو ایچ او اور دیگر عالمی ادارے بھی امدادی سامان کی تقسیم کیلئے رفاہی و فلاحی تنظیموں سے مددوتعاون حاصل کرنے پرمجبور نظر آئے۔ رفاہی تنظیموں نے بلند پہاڑی دیہاتوں اور قصبوں میں متاثرین کیلئے گھر اور مساجد تعمیر کیں، بچوں کیلئے سکول بنائے اور کروڑوں روپے مالیت کا راشن وغیرہ تقسیم کیا۔
مجھے اس موقع پر مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق کی مسلم میڈیکل مشن کے اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں کیا گیا وہ خطاب یاد آرہاہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی ایف کی ریلیف سرگرمیوں سے بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ رہی ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رفاہی تنظیموں کے رضاکاروں کی قربانیاں ہی ہیں کہ آج آواران اور مشکے جیسے علاقے جو علیحدگی پسندوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھے، وہاں پاکستان کے حق میں نعرے لکھے دکھائی دیتے ہیں۔ ان جماعتوں کا یہی وہ کردار ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی قوتوں کو ان کی رفاہی و فلاحی سرگرمیاں بھی برداشت نہیں ہیں۔ زلزلہ متاثرین کی مدد کے حوالے سے ایک طرف دینی ، رفاہی و فلاحی جماعتوں کا یہ کردار ہے تو دوسری جانب مظفر آباد، باغ ، بالا کوٹ اور دوسرے شہروں کی تعمیر نو کیلئے حکومت اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا نہ کر پائی ہے۔ مظفر آباد جیسے شہروںمیں حالیہ برسوںمیں ترقی
ضرور ہوئی ہے، لوگوںکا معیاز زندگی بلند ہوا ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے بعض لوگ ایسے ہیں جنہوںنے ایک سے زیادہ مرتبہ معاوضے وصول کر لیے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ابھی تک کچھ نہیں مل سکا۔ شہر میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی کئی منزلہ پلازے بنا لیے گئے ہیں جو کہ اس علاقہ میں واقعتاً خطرناک ہیں اور خدانخواستہ کسی حادثہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ پلازے سرکاری سرپرستی کے بغیر تعمیر نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان معاملات پر سنجیدگی سے غوروفکرکرے اور ہر قسم کی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پالیساں ترتیب دی جائیں اور ان پر عمل درآمد کروایا جائے۔ زلزلہ کے دوران آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں جو سکول ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوئے، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی ابھی تک تعمیر نہیں ہو سکی۔ متاثرین کی بحالی کے ادارے ایرا نے کئی سکول بنائے ہیں لیکن مقامی لوگوں کے مطابق ان پر اربوں روپے کے سرکاری فنڈ سے بہت کم پیسے خرچ کیے گئے ، اس لیے مثالی سکول تیار نہ ہو سکے ۔زلزلے کے بعد نیوبالا کوٹ سٹی بسانے کا منصوبہ بھی بنا یاگیا مگر اس پر بھی کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے اعلان کردہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے اور متاثرہ علاقوں میں سکولوں کی تعمیر جلد سے جلد کی جائے تاکہ تعلیمی حوالے سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز پاکستان کو زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ رکھے اور مصائب و مشکلات میں مبتلا بھائیوں کی ہر ممکن مدد کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button