Columnعبدالرشید مرزا

سیرت نبویﷺ اور معاشی خوش حالی ۔۔ عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

ہمارے ملک میں آبادی کا قریباًچالیس فیصد حصہ یعنی آٹھ کروڑسے زائد لوگ ،انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔دوکروڑ پچاس لاکھ بچے غربت کی وجہ سے سکولوں سے باہر ہیں۔ایک کروڑ لوگ بے روزگار ہیں، ہر پاکستانی قریباً اڑھائی لاکھ روپے کا مقروض ہے، ملک دیوالیہ ہونے کو ہے ہمیں ایک معاشی نظام کی تلاش ہے جو خوشحالی لائے، وہ نظام آپﷺنے دیا تھا۔آپﷺ کی سیرت مطہرہ زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے، شریعت مصطفیٰﷺ میں ملکی قوانین سے لے کر انفرادی معاملات تک کے احکام موجود ہیں۔آپ ﷺ نے انہیں اپنی زندگی میں لاگو کرکے اپنی امت کو عملی نمونہ پیش فرمایا ہے لہٰذا جہاں اللہ کی شریعت سے رہنمائی لینا ضروری ہے، وہاں آپﷺ کی حیات طیبہ کو بھی سامنے رکھنا لازم ہے۔ جہاں تک پیغمبرانہ بصیرت کا تعلق ہے وہ بھی ہدایت خداوندی سے فیض یاب ہے، اس لئے اس کی روشنی میں انجام پانے والے تمام امور انسانی بصیرت سے بدر جہا بہتر اور بلند تر ہیں آپ ﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے فوری بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی یعنی ریاست کیلئے سکریٹریٹ قائم کر دیا گیا۔معاشرے کے معاشی وسائل کو اولیت دی گئی،چونکہ ہنگامی حالت تھی اور دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں بعض متوسط بھی تھے اور بعض کافی مالدار بھی تھے، یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے ،کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ایسی حالت میں محسن انسانیت ﷺ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی اس لئے اس ٹیم کے افراد نے ایک دوسرے کیلئے قربانی دی اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہو گیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معاشیات کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا جس طرح آج ہماری ساری معیشت سودی نظام پر قائم ہے،مگر حضور اکرم ﷺ نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر و کیونکہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی بلکہ آپﷺ نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپﷺ نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔مگر افسوس کہ آج کی نام نہاد اسلامی حکومتیں ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور دیگر یہودی اداروں سے سودی قرضے لے کر مسلمان نسلوں کو ان کے ہاں گروی رکھ رہی ہیں جبکہ مسلمان معاشروں میں باہمی تعاون کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم یہود کے معاشی تسلط سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں اور یوں اسلامی معاشرے کے ایک انقلابی دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔
دولت کی منصفانہ تقسیم اورمتوازن معاشی نظام کیلئے ضروری ہے کہ سیرت طیبہ ﷺ کا مطالعہ کرکے اُس سنہری دور سے راہنمائی حاصل کی جائے
تاکہ مسلم امہ اس زبوں حالی سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔ موجودہ معاشی نظام چاہے سرمایہ دارانہ ہو یا اشتراکی، مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، متوازن معاشی نظام کیلئے ضروری ہے کہ اس میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو جو کہ موجودہ نظام میں نہیں ہو سکتی۔اسلام نے معاشی نظام کی بنیاد رکھی ہے جو ریاستی سطح پر زکوٰۃ کا نفاذہے اور اس کے نتیجے میں ریاست کو دولت مند لوگوں سے ان کی دولت کا ایک طے شدہ حصہ لازمی طور پر لینا اور غریب اور نادار لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہے، اس طرح ریاست کو اپنے تمام لوگوں کی بنیادی ضروریات کی ذمہ داری اٹھانی ہے۔ جدید معاشیات میں ایک ملک کی اشیا اور خدمات کی مجموعی طلب یا جی ڈی پی کو بڑھانے کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کرونا کے دوران دنیا میں مختلف حکومتوں اور سماجی تحفظ کی سکیموں کے تحت غریب لوگوں کو نقد رقم کی منتقلی اور دیگر عطیات دیئے گئے۔ یہ عطیات نہ صرف غریبوں کی زندگی کیلئے انتہائی اہم تھے بلکہ معیشت دان متفق ہیں کہ یہ عطیات معیشت کو محفوظ رکھنے کیلئے بھی اتنے ہی اہم تھے۔ زکوۃ کا نظام قائم کر کے پاکستان کی جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ایک مشہور عالمی معاشی ماہر کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں زکوۃ کا پوٹینشل جی ڈی پی کے 4.4فیصد تک ہےجو 2500 ارب روپے سے زیادہ ہو گا۔ اس رقم سے ہر غریب خاندان کیلئے سالانہ دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم مختص کی جا سکتی ہے جوان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کر سکتی ہے۔ زکوۃ تقسیم کرنے میں ریاست کے کردار کی اس آیت میں تائید کی گئی ہے جس میں زکوۃ کا انتظام کرنے والوں کا ذ کر ان آٹھ اقسام میں کیا گیا ہے جن میں زکوۃ تقسیم ہونی ہے۔ یہ آیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ زکوۃ وصول کرنے کیلئے ریاست کی طرف سے لوگ مقرر ہونے چاہئیں۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے خود ہی اس مسئلے کو حل کیا ہے۔حکم ہے :وہ لوگ انہیں اگر ہم زمین میں اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز کا قیام کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں(22:41)۔ اسلامی قانونی نظام کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ زکوۃٰ جمع کرنا اور استعمال کرنا ہمیشہ ہی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک سمجھا جاتا رہا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے خلافت کے آغاز پر ان لوگوں کے خلاف اپنے اعلان جہاد کیلئے مشہور ہیں جنہوں نے ریاست کو نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد زکوۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جمع ہونے والی زکوۃ اس کے ٹوٹل پوٹینشل کادس فیصد بھی نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ جب غریب افراد اپنا حق بجائے امیروں سے لینے کے حکومت سے وصول کرتے ہیں تو ان کی عزت اور وقار محفوظ رہتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر زکوۃ افراد پر چھوڑ دی جائے تو یہ بے ربط اور ناکافی ہو گی، زکوۃ درحقیقت انسانی تاریخ میں نافذ کیا گیا سوشل سکیورٹی کا پہلا نظام ہے ، ایسا نظام جس کا انحصار انفرادی رضاکارانہ خیرات پر نہیں ہوتا بلکہ ایسے سرکاری ادارے پر ہے جو باقاعدگی سے طے شدہ حصہ ،معاشرے کے با ثروت لوگوں سے لازمی طور پر وصول کرکے ضرورت مندوں کو منظم امداد تقسیم کرتا ہے۔زکوۃ کی ویلیو ایشن کیلئے، پاکستان میں ویلتھ ٹیکس ریٹرن جمع کروانا ضروری ہے۔ ذاتی استعمال کے علاوہ اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو پر زکوۃ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، اس طرح پہلے سے موجود نظام کے ذریعے زکوۃ جمع کی جا سکتی ہے اور اس میں کوئی اضافی لاگت نہیں آئے گی۔ زکوۃ غریبوں کی تعلیم اور استعداد بڑھانے پربھی خرچ کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو غربت کے جال سے مستقل طور پر نکالا جا سکے۔
زکوٰۃ کا ایک خاص حصہ ملازمت کی گارنٹی پر خرچ کرنا چاہیے، بےروز گارلوگوں کے ذریعے مفید کام بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہیں اور دوسری طرف انفراسٹرکچر کی تعمیر سے لے کر درختوں کے لگانے تک متعدد کام، کرنے کے ہیں۔ آخر ہمارا مالیاتی نظام معاشرے کے اندر ان کاموں کو انجام دینے کیلئے بے روزگار ورک فورس کو استعمال کرنے کے قابل کیوں نہیں ہے؟ اس قدم سے جی ڈی پی خاصا اضافہ ہوسکتا ہے۔ معروف فلاحی اداروں کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کیلئے لوگوں کو اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ اپنی زکوۃ کا کچھ حصہ ان کو دینے کیلئے سفارش کر سکیں۔ یہ طریقہ کار ان اداروں کی مالی اعانت میں اضافہ کرے گا۔ زکوۃ کا بڑا فنڈ جو کروڑوں غریب لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ ان میں کمانے اور زندگی بہتر گزارنے کی اہلیت پیدا کر رہا ہو، اس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت دوسرے امیر لوگوں سے بھی بڑی مقدار میں زکوۃ حاصل کرنے کی صلاحیت ہوگی ریاست مدینہ یا اسلامی نظام کیا ہے؟ سوائے انصاف، نماز اور زکوۃ کا نظام کے، زکوۃ کا نظام بہترین معاشی انصاف ہے جس کا قرآن میں بار بار حکم دیا گیا ہے ، یہ نظام لوگوں کی زندگی کو بحیثیت مجموعی بہتر بنا سکتا ہے اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پہ گامزن کر سکتا ہے اس لیے جہاں بھی ممکن ہو ہمیں اس کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ آخر کار یہ ایک زبردست عوامی مطالبہ بن جائے اور جلد اس کا نفاذ ممکن ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button