ColumnImtiaz Aasi

تاحیات نااہلی آئینی ترمیم کی روشنی میں ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

آئین کے آرٹیکل 62اور63 میںترمیم 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئی جس کا مقصد پیپلز پارٹی کے چیدہ چیدہ لوگوں کو انتخابات سے باہر رکھنا تھا۔ کئی عشرے گذرنے کے باوجود سیاست دان ان ترامیم کو ختم نہ کرسکے۔بالآخر جنرل ضیاء الحق کے پسندیدہ اور ہر دلعزیز سیاست دان نواز شریف اس آئینی ترمیم کی زد میں آکر تاحیات نااہل قرار دے دیئے گئے۔انہی ترامیم کے تحت پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور عمران خان کے دست راز جہانگیر ترین اورفیصل واوڈا،کو بھی تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑا ۔نواز شریف اور جہانگیر ترین کو نااہلی کی سزا تو سپریم کورٹ نے دی جب کہ فیصل واوڈا، کو الیکشن کمیشن نے تاحیات نااہل قرار دیا ۔فیصل واوڈا، کی اپیل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جنا ب عمر عطاء بندیال کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔قانونی طور پر آئین میں ترمیم کا اختیار تو پارلیمنٹ کو ہے۔ سپریم کورٹ کسی قانون کی تشریح کر سکتی ہے۔نواز شریف کو اس ترمیم کی تشریح کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ نے تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔فیصل واوڈا، کی اپیل کی سماعت کے دوران جناب چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں تاحیات نااہلی کو کالا قانون قرار دیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے اس کیس کو محتاط ہو کر سننے کا عندیہ دیا ہے۔ آیا الیکشن کمیشن ایسا فیصلہ دے سکتا ہے یا نہیں؟
درحقیقت تاحیات نااہلی بہت بڑی سزا ہے، قتل جیسے سنگین جرم میں عمر قید پانے والے دس پندرہ سال بعد رہا ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس سیاست دانوں کو حقائق چھپانے پر تاحیات نااہلی کی سزا پر
نظر ثانی کی ضرورت ہے۔نواز شریف بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں نااہل قرار دئیے گئے ۔جہانگیر ترین نے اپنی آف شور کمپنی کو ظاہر نہیں کیا اور فیصل واوڈا، کو اپنی غیر ملکی شہریت چھپانے کے جرم میں نااہلی کی سزا ملی۔نواز شریف ایوان فیلڈ کیس میں ضمانت کے بعد علاج کے بہانے ملک سے باہر چلے گئے۔مریم نوازکی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت کے بعد سیاسی ماحول میںکچھ تبدیلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔مریم نواز پاسپورٹ ملنے کی منتظر تھیں اور ملک سے باہر جا چکی ہیں۔سوال ہے کیا موجودہ پارلیمنٹ ان حالات میں آئینی ترامیم کر سکتی ہے جب کہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت کا فقدان ہے؟بادی النظر میں
آئین کا آرٹیکل 62 اور 63میں ترامیم تمام سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ اور توشہ خانہ کیسز میں نااہلی کے خطرات منڈلارہے ہیںگویا اس لحاظ سے تاحیات نااہلی کے قانون میں ترمیم وقت کی ضرورت ہے۔
قانونی ماہرین کے نزدیک آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ کوئی شخص صادق اور امین نہ ہو تو اسے تاحیات نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔آئین کا آرٹیکل 62کسی کو نااہل کرنے سے متعلق نہیں بلکہ کسی کی کوالیفکشن سے متعلق ہے۔جناب چیف جسٹس نے اس معاملے میں آبزرویشن دی ہے، ان آئینی ترامیم کا از سرنو جائزہ لینے کیلئے سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بنایا جائے گا ۔بظاہر مریم نواز کی بریت کے بعد نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو گئی ہے، وہ کب واپس آتے ہیں اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔عام خیال یہ ہے کہ نواز شریف تاحیات نااہلی کے قانون میں ترمیم سے قبل واپس نہیں آئیں گے۔حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہ ہونے سے پارلیمنٹ سے اس قانون میں ترمیم ناممکن ہے، البتہ اس قانون میں ترمیم عمران خان کے پارلیمنٹ میں واپس آنے کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ نااہلی کے قانون کی زد میں کوئی سیاست دان کسی وقت بھی
آسکتا ہے لہٰذا اس قانون میں ترمیم تمام سیاست دانوں کی ضرورت ہے۔گو عدالت عظمیٰ کی طرف سے تاحیات نااہلی کی ازسر نو تشر یح سے قبل کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی البتہ قوی امکان ہے کہ سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کی بجائے کوئی مدت مقرر کر دے گی ۔ انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے حکومت الیکشن کمیشن سے عمران خان کی نااہلی کی منتظرہو ۔عمران خان الیکشن کمیشن پر پہلے ہی شاکی ہیں۔ہو سکتا ہے حکومت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے اور اس سے پہلے عمران خان کو الیکشن کمیشن کسی کیس میں نااہل قرار دے کر کھیل کا پانسہ پلٹ دیا جائے ۔ عدلیہ اور خصوصاً عدالت عظمیٰ کی سطح پر سیاست دانوں اور عوام کو حصول انصاف کی امید ہوتی ہے۔ انگریزی قانون میں اسی لیے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی سماعت ہائی کورٹس میں ایک کی بجائے دو اور سپریم کورٹ میں دو سے زیادہ جج صاحبان کرتے ہیں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔یہ تو پارلیمنٹ کی ذمہ داری تھی، نااہلی کا قانون بناتے وقت نااہلی کی مدت مقرر کر دی جاتی، نہ تو سیاست دان طویل مدت تک انتخابات سے باہر رہ سکتے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ پر کام کا اضافی بوجھ پڑتا۔جناب چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کیس کی سماعت کے دوران تاحیات نااہلی کو کالا قانون قرار دینے کے ریمارکس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے بھی تاحیات نااہلی کو بہت بڑی سزا تصور کیا ہے۔ فیصل واوڈا، کی اپیل کی سماعت ابھی جاری ہے، توقع کی جا سکتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کا لارجر بنچ تاحیات نااہلی کی سزا کی تشریح کا دوبارہ جائزہ لینے کے بعد کوئی حوصلہ افزاء فیصلہ دے گا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے لانگ مارچ کی تیاریوں اور حکومت کی طرف سے ممکنہ مارچ کو روکنے کیلئے پیش بندی سے بظاہر لانگ مارچ کے شرکاء کا وفاقی دارالحکومت میں داخلہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے ۔عمران خان ابھی تک اپنے پلان کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں ۔دعا ہے ملک میں امن وامان قائم رہے اور تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو جائیں تو لانگ مارچ اور جلسے جلوسوں کی ضرورت نہ رہے۔آصف علی زرداری کی علالت سے پنجاب میں جوڑ توڑ اور اراکین کی خریداری کا معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے ان حالات میں پنجاب حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button