Columnمحمد مبشر انوار

آفات اور انسانیت .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

کرہ ارض پر مشکلات اور آسانیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی اللہ رب العزت کا فرمان قرآن کریم میں واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کیلئے مشکلیں اور آسانیاں ساتھ ساتھ رکھی ہیں۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے بشرطیکہ انسان ہر حال میںاللہ کا شکرگذارہو، اور صبر کا مظاہرہ کرے تاہم کئی ایک مشکلات ایسی بھی ہیں کہ جو انسان کیلئے تنبیہ کے نئے دروازے کھول دیتی ہیں، اگر انسان ان تکالیف کا صحیح معنوں میں ادراک کر لے ،ان سے نپٹنے کی صحیح منصوبہ بندی کر لے تو زحمت کو بعد ازاں رحمت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ توفیق بھی اللہ رب العزت ہی کی طرف سے انسان کو نصیب ہوتی ہے کہ انفرادی طور پر انسان کو درپیش آنے والی مشکلات کا حقیقی ادراک کرکے ،مناسب اور بہتر لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے انسان ایسی مشکلات کو ،ایسی زحمت کو اپنے لئے نہ صرف سود مند بنا لیتا ہے بلکہ گذشتہ کل تک کی زحمت کو رحمت میں بدل لیتا ہے۔ یہی صورتحال قوموں اور اقوام عالم کو بیک وقت بھی درپیش ہوتی ہے اور اقوام عالم ایسی مشکل سے نپٹنے کیلئے متفقہ لاائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور اس سعی میں پوری بنی نوع انسان کیلئے بہتر حل ڈھونڈ نکالتے ہیں اور بحیثیت ایک قوم کوئی بھی ملک خود کو درپیش چیلنج سے بخوبی عہدہ برآء ہونے میں کامیاب ہو کر دوسروں کیلئے ایک مثال بن جاتا ہے۔ یوں بہر طور کسی نہ کسی حوالے سے اقوام عالم کیلئے کسی خاص مسئلے سے نپٹنے کیلئے مثال موجود ہوتی ہے اور مستقبل میں ایسی کسی صورتحال سے با آسانی نپٹا جا سکتا ہے لیکن یہاں ایک اور تلخ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ کئی اقوام مسلمہ طریقہ کار موجود ہونے کے باوجود ،ذاتی مفادات یا انا اور ضد کے باعث،ان سے کماحقہ بہرہ مند ہونے سے قاصر رہتے ہیں۔ ماضی بعید میں کسی عالمی وباء کے ظہور پذیر ہونے پر ایک مسلمہ اصول رہا ہے کہ اس مخصوص علاقے میں آمد و رفت بند کر دی جاتی
تھی تا کہ اس وباء کے اثرات باقی دنیا تک نہ پہنچیں اور بنی نوع انسان اس وباء کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے لیکن دور جدید میں حضرت انسان نے اس اصول کے خلاف جاتے ہوئے حالیہ کرونا وباء کا علاج دریافت کرنے کے بعد ،عالمی آمد ورفت کو محفوظ طریقوں سے جاری رکھا ،جس کا خمیازہ یہ ہوا کہ قریباً دنیا بھر میں یہ وباء آنا فانا پھیل گئی تاوقتیکہ اس کا تریاق دنیا بھر کو انجیکٹ نہیں کیا گیا۔ایسی ہی وباؤں کا پھوٹنا غیر متوقع ہوتا ہے اور بنی آدم ایسی وباؤں کیلئے تیار نہیں ہوتا لیکن موجودہ دور میں انسان اتنی سائنسی ترقی کر چکا ہے کہ ایسی تبدیلیوں پر اس کی نظر گہری ہے اور قبل ازوقت یا کم ازکم بوقت ضرورت فوری طور پر بروئے کار آتے ہوئے،ایسی وباؤں کا سدباب پہلے کی نسبت انتہائی کم وقت میں کر لیتا ہے۔ تاہم آج سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ موسمیاتی تغیرات کو قبل ازوقت بھانپ لیتی ہے اور اس کا اظہار اور اطلاع متعلقہ حکومتوں ؍اداروں کو دے دی جاتی ہے،بیدار مغز قیادتیں ایک طرف ایسی آفات کیلئے نہ صرف ذہنی طور پر تیار ہو جاتی ہیں بلکہ ان کے سد باب کیلئے فوری طور پر لائحہ عمل طے کر کے ان پر جت جاتی ہیں تا کہ ملک وقوم کا نقصان کم سے کم ہو اور اکثر اس میں کامیاب رہتی ہیں۔
تیسری دنیا کے ممالک بالعموم جبکہ پاکستان بالخصوص،ایسی اطلاعات پر بروقت کارروائی کرنے میں ناکام کیوں رہتا ہے؟اس سوال کا جواب ساری دنیا نہ صرف جانتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اس وقت جو رویہ اقوام عالم کا حکومت پاکستان کے ساتھ ہے،وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دنیا پاکستانی حکومتوں کو کس قدر سنجیدہ اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص سمجھتی ہے۔ کس قدر حیرت انگیز بلکہ عجیب بات ہے کہ ایک ایٹمی قوت والے ملک میں راولپنڈی کے نالہ لئی کی طغیانی ہمیشہ عوام کیلئے زحمت بنتی ہے اور ہماری ترجیحات اس قدر غیر حقیقی ہیں کہ ہمارے حکمران اس نقصان پر فقط عوام سے اظہار افسوس اور اس کے جلد حل کے وعدے وعید ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ایسا ملک کہ جہاں بتدریج پانی کے ذخائر نایاب ہوتے جا رہے ہیں ،وہ قدرتی طور پر ملنے والی پانی کی امداد سے مستفید ہونے کی بجائے،اسی قیمتی پانی کو باعث زحمت بنا لیتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ مسلمہ اصول رائج ہے کہ پانی کی قلت سے بچنے کیلئے ہر ملک نے پانی کے ذخائر بنا رکھے ہیں تا کہ پانی کی فراہمی مسلسل برقرار رہے اور کسی بھی لمحے عوام الناس کو اس بنیادی ضرورت سے محروم نہ کیا جائے لیکن پاکستان اپنے ابتدائی ادوار میں پانی کے دو بڑے ذخیرے بنانے کے بعد،قدرتی طور پر تیسرے بڑے پانی کے ذخیرہ ،کالا باغ ڈیم ،کو بنانے میں ہنوز ناکام ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قدرتی طور پر زیادہ بارشوں کی صورت یا گلیشئر کے پگھلنے کی صورت میں،پانی کے ریلے پاکستان کے کھیتوں،کھلیانوں،زمینوںجائیدادوںکو بری طرح متاثر کرتے ہوئے سمندر میں جاگرتے ہیںاور عوام اس تباہی کو مقدرسمجھتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ بروئے کار آکر پھر نہ صرف اپنی زمینوں کو آباد کرتے ہیں بلکہ پوری قوم کیلئے اناج اُگاتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں سیلابوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں اور پاکستانی ارباب اختیار کی کارروائیوں کو دیکھیں تو یہ حقیقت واضح نظر آتی
ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات ملک وقوم کی بجائے ہمیشہ سے ذاتی نوعیت کی رہی ہیں ۔ موجودہ سیلاب میں بھی جو حالت سندھ کی ہوئی ہے،سارا میڈیا چیخ رہا ہے کہ اس میں سندھ کی بااثر شخصیات نے ذاتی مفادا ت اور ذاتی زمینوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہاریوں اور چھوٹے زمینداروں کے لاکھوں ایکڑ رقبے کو پانی میں ڈبویا ہے تو دوسری طرف دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے،نکاس کے نظام کو درہم برہم کررکھا ہے،جس سے دریاؤں کا پانی قدرتی بہاؤ نہ ملنے کے باعث آبادیوں کو تہس نہس کرتا ہوا ابھی تک زمینوں میں کھڑا ہے۔اس نفسا نفسی کا تدارک ہم سب کو مل کر کرنا ہے کہ کوئی بھی بیرونی عامل اس کا علاج کرنے سے قاصر ہے کہ یہاں تو وزیر خارجہ سے امریکی دورے کے دوران کئے گئے سوال پر رپورٹر کو نوکری سے نکلوا دیا جاتا ہے ،ایسے حکمران کب اور کیسے عوامی بہبود کیلئے خود کو تیار کریں گے؟ایک طرف ہماری اشرافیہ کا یہ عوام دشمن رویہ ہے اور دوسری طرف اقوام عالم ہے جو اس ہلاکت خیز بربادی پر افسردہ ہے،پاکستان کی مدد کرنا چاہتی ہے لیکن انہیں اس کا یقین نہیں کہ ان کی امداد براہ راست متاثرین تک پہنچے گی یا نہیں کہ اس سنگین ترین صورتحال میں بھی امدادی سامان سندھ کے وڈیرے ذاتی گوداموں میں چھپائے ہوئے ہیں اور متاثرہ عوام کو دینے کیلئے تیار نہیں۔اشرافیہ کا یہ رویہ بے حسی و نفسا نفسی کی اظہار ہے یا اس نفسیات کا جو سندھی عوام میں پروان چڑھائی جا چکی ہے کہ ان کے آقا یہی اشرافیہ ہے؟افسوس اس امر کا ہے کہ اس قدر سنگین حالات کے باوجود اشرافیہ ،جو کل تک نقد امداد ہڑپ کرتی رہی ہے،اس وقت عالمی سطح پر ملنے والا امدادی سامان بھی اپنے ہی گوداموں میں ذخیرہ کر رہی ہے کہ اس سے بھی منافع کمایا جائے،اس شرمناک روئیے پر اقوام عالم کس طرح پاکستانی متاثرین کی مدد کریں؟
بہرکیف دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ پاکستانی عوام کی مشکلات سے صرف تارکین وطن ہی نہیں دوست ممالک بھی پریشان ہیں اور ہر صورت ان متاثرین کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان دیرینہ دوست ہی نہیں بھائی ہے،جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان اور پاکستانیوں کی مدد کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ سب سے زیادہ تارکین و طن بھی سعودی عرب میں موجود ہیں اور مشکل کی ہر گھڑی میں ہراول دستے کے طرح امداد لے کر پاکستان پر نثار کرنے کیلئے تیار نظر آتے ہیں،خواہ زلزلہ کی تباہ کاریاں ہوںیا سیلابی صورتحال ،معاشی بدحالی ہو یا تیل کی ترسیل،سعودی عرب میں تارکین وطن اور سعودی عرب ہمیشہ صف اول میں کھڑا نظر آتاہے۔ ماضی کی مانند اس مرتبہ بھی سعودی عرب میں موجود تارکین وطن ،سفارتخانہ پاکستان کی مدد سے متاثرین کی مدد کیلئے بروئے کار ہے،جبکہ سفیر محترم امیر خرم راٹھور کی ذاتی کاوشوں سے ،بینکنگ چینل کے ذریعہ سعودی بنک الراجحی کے تعاون سے ’’ساھم‘‘ ایپ کے ذریعہ متاثرین سیلاب کی امداد کیلئے مخصوص اکاؤنٹ’’مصرف الراجحی
SA5080000470608018666660
کروایا ہے،جس میں تادم تحریر قریباً پینتالیس ہزار افراد نے اب تک اڑتیس ملین ریال سے زائد رقوم جمع کروائی ہیں۔ یہ امداد این ڈی ایم اے کے ذریعے متاثرین تک پہنچائی جائیں گی،تارکین وطن ،سفارتی عملہ ،سفارتخانہ پاکستان اور بالخصوص سفیر پاکستان امیر خرم راٹھور اس گراں قدر اور بروقت اقدام پر قابل ستائش و تقلید ہیں۔آفات پر ایک طرف اگر انسانیت سوز مظاہر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف انسانیت دوست مظاہرے ،انسانیت پر ایمان کو مزید مستحکم کرتے ہیں کہ انفرادی روئیے بہرطور اجتماعی رویوں کو ختم نہیں کر سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button